ناامیدی اور منفی سوچ

ناامیدی اور منفی سوچ
ناامیدی اور منفی سوچ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تحریر:محمد اقبال اعوان

گزرے وقتوں کی بات ہے ۔وقت کے بادشاہ سلامت کا ایک دوست تھا جو ہمیشہ مثبت سوچتا اور پر امید رہتا۔ ہونے والے واقعات پر مطمئن رہتا اور کہتا کہ جو ہوا ہے بہتر ہوا ہے۔ ایک دن بادشاہ سلامت اپنے دوست کے ساتھ تلوار بازی کی مشق کر رہا تھا کہ دوران شمشیر زنی بادشاہ کی تلوار پاؤں پر گری اور اس کے پاؤں کی ایک انگلی کٹ گئی۔

دوست نے کہا کہ اس میں کچھ مصلحت ہو گی۔ بادشاہ سلامت زخمی تھا اور تکلیف میں تھا۔ اس کو اس بات پر طیش آیا۔ اس نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اس کے دوست کو جیل میں ڈال دو جو احساس کرنے کی بجائے ابھی بھی مصلحت کی بات کر رہاہے۔ کچھ دنوں بعد بادشاہ سلامت شکار کرنے نکلے تو ان کو جنگل کے وحشیوں نے گھیر لیا۔ پکڑ کر لے گئے اور دیوتا پر قربان کرنے لگے ہی تھے کہ کسی وحشی کی نظر اس کے پاؤں پر پڑ گئی۔اس نے سب کو روکا کہ اس کی قربانی نہیں ہو گی کیونکہ اس کے پاؤں کی ایک انگلی کٹی ہوئی ہے۔ اس طرح بادشاہ سلامت بچ گئے۔ بادشاہ سلامت کو چھوڑ دیا گیا۔ بادشاہ سلامت نے محل میں پہنچ کر سب سے پہلے اپنے دوست کی رہائی کا حکم دیا ۔

جب دوست کو بادشاہ سلامت کے پاس لایا گیا تو بادشاہ سلامت نے اس کی تعریف کی اور زندگی بچنے کی روداد سنائی ۔ بادشاہ سلامت نے پوچھا کہ میرے لیے تو انگلی کا کٹ جانا بہتر ہوا ہے ۔ لیکن تمہارے لیے کیا بہتر ہوا ہے؟ تم نے جیل میں رہ کر مشکل وقت گزارہ ہے۔ بادشاہ سلامت کے دوست نے کہا کہ آپ جہاں جاتے ہیں ،میں بھی ساتھ جاتا ہوں ۔آپ کی انگلی کٹی ہونے کی وجہ سے آپ تو بچ گئے اگر میں جیل میں نہ ہوتا تو میں اب آپ کے سامنے نہ کھڑا ہوتا بلکہ قربان ہو چکا ہوتا۔۔ اس لیے میرے حق میں بھی بہتر ہوا ہے۔ مثبت اور تعمیری سوچ معاشرے کو پروان چڑھاتی ہے جبکہ منفی سوچ اور ناامیدی رکھنے والے اشخاص معاشرے کو تنزلی کی طرف لے کر جاتے ہیں۔ وہ خود تو ڈوبتے ہیں لیکن ساتھ اور لوگوں کی زندگیوں کو بھی تباہ کر دیتے ہیں۔

اگر ہم اپنے ملک کی بات کریں تو نامیدی اور منفی سوچ نے ہمیشہ پاکستان کو بے انتہا نقصان پہنچایا ہے۔ عموماً ہوتا یہ ہے کہ جب بھی کوئی واقعہ ہو ،اس واقعہ کی بنیاد پر نتائج نکالتے ہیں جو کہ اکتر غیر تعمیری اور تنقیدی ہوتے ہیں۔ برصغیر کی تقسیم میں بڑی تعداد میں لوگوں نے قربانیاں دیں اور ان قربانیوں کی وجہ سے پاکستان ایک آزاد مملکت کے طور پر وجود میں آیا۔ دکھ کے ساتھ سکھ بھی موجود تھا۔ غمی کے بعد خوشی بھی منتظر تھی۔اگر ان دل خراش واقعات کی بنیاد پر لوگ آگے بڑھنے سے رک جاتے تو وطن عزیز کیسے حاصل ہوتا؟ کسی بھی عمل کو اگر تنقیدی نقطہء نظر سے دیکھتے ہیں تو تعمیری سوچ بھی ساتھ شامل کرنی چاہیے تاکہ صحیح سمت کا تعین ہو سکے۔ پاکستان کے پچھلے پچھتر سالہ دور میں مختلف اتار چڑھاؤ آئے ہیں ۔اج الحمدللہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے۔

 اب سب کی ہمت و شجاعت سے ہی وطن عزیز کو آگے لے کر جایا جا سکتا ہے۔ کسی ایک واقعہ کی وجہ سے پوری زندگی کی تصویر نہیں کھینچ لینی چاہیے۔ وقت سارے نقاب الٹ دیتا ہے۔ منصوبہ بندی، قوت ارادی اور تعمیری سوچ وہ ہتھیار ہیں جن کے سامنے باقی طاقتیں مانند پڑ جاتی ہیں۔ تعمیری سوچ کا ایک بڑا فائدہ اطمینان کا ملنا ہے۔ یاد رہے منفی سوچ ناکامیوں کا پیش خیمہ ہے۔ مولانا جلال الدین رومی نے فرمایا کہ تمہاری اصل ہستی تمہاری سوچ ہے باقی تو صرف ہڈیاں اور خالی گوشت ہے۔ دنیا میں ہر چیز کا نتیجہ سامنے آتا ہے۔ بات غور و فکر کی ہے۔ اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ انسان ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھا رہے ، کوشش لازمی ہے لیکن نتیجہ ہمارے اختیار میں نہیں ہے۔ نتیجہ کی فکر نہیں ہونی چائیے۔ نتیجہ آپ پر آشکار کرے گا کہ آپ نے اگلا قدم کونسا اٹھانا ہے۔ بس مایوس نہیں ہونا کیونکہ مایوسی آپ سے دوبارہ اٹھنے کی طاقت چھین لے گی۔ سوچ کو وسیع تر مفاد میں وسیع کریں۔

 پاکستان کی بہتری کا سوچیں۔ کسی ایک واقعہ کو پوری زندگی کا خاکہ نہ بنائیں۔ اگر کبھی ایسی صورت حال بن جاتی ہےکہ پریشانی کے علاوہ کچھ نظر نہیں آ رہا تو کچھ وقت کے لیے اس معاملے سے ہٹ جائیں اور پھر اطمینان سے سوچ و بچار کر کے نیا لائحہ عمل ترتیب دیں، یقیناً آپ کامیاب ہو جائیں گے۔ رکنا نہیں ہے کیونکہ اگلے واقعات آپ جیسے بہادروں کے منتظر ہوں گے۔یاد رکھیں کہ مثبت سوچ، درد انسانیت کا جذبہ اور خود اعتمادی آپ کے پاس اولین عظیم دولت ہیں۔

۔

نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

 ۔

 اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔

مزید :

بلاگ -