زندگی سہل تھی، پر اتنی بھی نہیں

زندگی سہل تھی، پر اتنی بھی نہیں
زندگی سہل تھی، پر اتنی بھی نہیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بھوک سے بلبلاتے بچے ،  چلچلاتی دھوپ میں کام کرتے مزدور ۔۔ دن رات ایک کر کے بھی بچوں کی بھوک نہ مٹا سکیں تو زندگی ایک سوالیہ نشان بن کر رہ جاتی ہے۔۔ زندگی اگر سہل ہوتی  تو کوئی موت کی تمنا کیوں کرتا؟ آج اس دور جدید میں جہاں ایک طرف ہوٹل بھرے پڑے ہیں رش ختم ہونے کا نام نہیں لیتا ،وہیں ایسے انسان  بھی بسیرا  کیے ہوئے  ہیں جو ایک وقت کا کھانا کھانے کو ترس رہے ہیں۔  

بگڑے امیرزادے اپنی امیری کے جوہر دکھاتے بڑی بڑی گاڑیوں میں بیٹھے،غریب کی آرزؤوں ، چھوٹے چھوٹے خوابوں کے ساتھ کئی دفعہ انہیں بھی کچلنے سے گریز نہیں کرتے ، آئے روز کئی کیسز رپورٹ ہوتے ہیں، ایک گاڑی نے سڑ ک پر  بیٹھے مزدوروں کو کچل دیا، یا فٹ پاتھ پر سوئے بے گھروں کو گاڑی سے کچل دیا،، یا پھر کسی سر پھرے امیر زادے نے اپنی طاقت اور پیسے کے زعم میں ایک موٹر سائیکل سورا کو ٹکر مار دی۔۔ یہ کیسز صرف کیسز ہی رہ جاتے ہیں جن کا حاصل آج تک نہیں ہوا ۔۔ کیونکہ یہ  تو زندگی ہے  جو ٖصرف ایک امیر جیتا ہے ،باقی تو بس کیڑے مکوڑوں کی طرح اسے گزارتے ہیں یا یوں کہہ لیں سانسیں پوری کرتے ہیں اور جب سانسیں لینا مشکل ہو جائیں تو خود ہی اپنے ہاتھوں ان سانسوں کو روک لیتے ہیں لیکن یہاں پھر سوال وہی کہ ایسی نوبت ہی کیوں آتی ہے؟؟ 
ایک ماں سارا دن لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہے لیکن اس کے باوجود نہ تو وہ ڈھنگ کا کھا سکتی ہے، نہ پہن سکتی ہے ،نہ اپنے بچوں کو اچھا فیوچر دے سکتی ہے، کیوں ؟ بجٹ آئے نہ آئے ان کو فرق نہیں پڑتا ،وجہ صرف یہ کہ انکی تنخواہ میں صرف 100، 200 ہی اضافہ ہو سکتا کیونکہ وہ گھریلو ملازمہ ہے صاحب، نوکری بچانے کے لیے وہ صبر کرتی ہے کہ بچے ہوئے کھانے اور پرانے  کپڑوں سے گزارا تو ہو رہا ہے۔۔۔ ایک گھریلو ملازمہ گھر کے ایک کام کی ماہانہ اجرت 2500 سے 3000 لیتی ہے ۔۔  اور گزر بسر کے لیے ایک دن میں 3 سے 4 گھروں کے کام کرتی ہے۔ میں یہ سب دیکھ کر سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ اپنے گھر کا سارا کام کرنا مشکل ہوتا ہے ،یہ اتنے گھروں کا کام کیسے کر لیتی ہیں، یہ جاننے کے لیے ایک ملازمہ سے بات ہوئی میری اور اس نے ایک بہت ہی خوبصورت جواب دیا ۔۔کہتی ہے کہ مجبوری سب کروا دیتی ہے بھیک مانگنے سے بہتر ہے کام کر کے اپنے بچوں کو حلال روٹی کھلاؤں  ۔۔
کہیں ایسے لوگ بھی ہیں جو نوکروں کو بھی عزت دیتے ہیں، کہیں ایسے ہیں جو انہیں انسان بھی نہیں سمجھتے  ۔۔ آئے دن کیس دیکھنے کوملتے ہیں ، گھریلو ملازمہ  کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔۔ اس میں قصور ایک کا نہیں ہوتا، کئی ماں باپ بھی قصور وار ہوتے ہیں، جب ایک قانون ہے کہ کم عمر بچے بچیاں کام نہیں کر سکتے تو پھر بچوں کو ملازمت پر کیوں بھیجا جاتا ہے؟ اور ان کو رکھا کیوں جاتا ہے کام پر؟
اکثر کم عمر بچیوں کو کئیر ٹیکر کا کام کرتے دیکھا گیاہے ،  ورکنگ وومن اپنے بچے کی پرورش کے لیے کم عمر   کئیر ٹیکر رکھتی ہے تا کہ پیسے کم دینے پڑیں لیکن وہ اپنی اس حرکت سے اس بچی کا بچپن ختم کر دیتی ہے  ، فرق کسے پڑتا ہے؟  کچھ لوگ بچے پیدا اس لیے کرتے ہیں کہ ان کو کام پر لگا ئیں گے تو ہمارا کام چلتا رہے گا۔۔ ایسے باپ کو جیل میں کیوں نہیں ڈالا جاتا جو اپنی عیاشیوں کے لیے بچوں کو لوگوں کے گھروں میں ملازمت کے لیے چھوڑ جاتے ہیں اور بعد میں حال تک نہیں پوچھتا، پھر تشدد کے بعد یاد آتا ہے کہ ہماری بچی کے ساتھ ظلم ہوا جبکہ قصوروار خود ہوتا ہے۔

کچھ عرصہ پہلے ایک بچی سے ملاقات ہوئی جو ایک گھر میں کئیر ٹیکر کا کام کرتی تھی ،اس بچی کی عمر لگ بھگ 10 سے 11 سال تھی اور ایک ہوٹل میں فیملی کے ساتھ آئی تھی ۔۔  وہ الگ تھلگ بیٹھی بہت حسرت سے بچوں کو کھیلتے دیکھ رہی تھی لیکن اس کی اتنی ہمت نہیں تھی کہ جا کر ان بچوں کے ساتھ کھیل سکے، جب وہ ریسٹورنٹ میں داخل ہوئی تو ایک ڈیؑڑھ سال کا بچہ اٹھائے ہوئے تھی، ساتھ میں بچے کا فیڈر بیگ اور اپنی مالکن کا پرس بھی اسی نے اٹھا رکھا تھا، بدلے میں مالکن کا بچہ ہوا کھانا نصیب ہوا ، اس بچی کی حسرت بھری نظریں آج بھی میرے ذہن پر نقش ہیں ، اس کا باپ ایک نشئی اور جواری تھا، وہ 11 بہن بھائی تھے، یہ  7 ویں نمبر پر تھی،   بقول اس  بچی کے اس کے باپ نے مالکن سے پیسے لیے تھے اور بدلے میں اسے کام کے لیے چھوڑ دیا۔۔  اس کے 2 بھائی کسی ورکشاپ پر کام کرتے تھے اور ماں سمیت باقی بہن بھائی بھی کام کرتے تھے لیکن جسے کام کر کے سب کو پالنا چاہیے، وہی سب کو نوچنے پہ لگا ہوا تھا ۔۔ 
یہ تو ہو گیا  ایک پہلو لیکن ایک پہلو اس مڈل کلاس کا بھی ہے اور ان مزدوروں کا بھی ہے جو شکاری نہ ہونے کے باوجود بھی اس سسٹم کا شکار بن چکے  ہیں جو دن رات کر کے بھی ضروریات زندگی کے کٹھن مرحلوں کو پار کرنے میں ناکام ہوتے ہیں کیونکہ زندگی اس بری طرح روندتی ہے کہ اٹھنے کے قابل نہیں چھوڑتی ، مہنگائی کا طوفان،  بجلی ، گیس  اور پانی کے بل اور ایسے میں اگر گھر بھی کرائے پر ہو تو ایک مڈل کلاس کہاں جائے ؟ ایسے حالات میں انکی زندگی محال ہے تو پھر مزدور کہاں جائے؟؟؟  حالیہ دنوں میں ایک خبر گردش کر رہی تھی کہ ایک باپ نے اپنے بیوی بچوں کو مار کر خود بھی اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا، سب نے افسوس بھی کیا ،  خبر  کچھ دن شہہ سرخیوں میں رہی،   پھر ایک نئی خبر نے اس کا گلا گھونٹ دیا،  کسی نے اس کی تہہ تک جانے کی زحمت نہیں کی ،نہ ہی حکومت نے کوئی ایکشن لیا کہ اس طرح کے حادثات کو روکا جا سکے۔ کہیں کوئی مجبوری اور غربت سے  اپنے بچے بیچ رہا ہے تو کہیں کوئی پڑھا لکھا جوان چوری کرنے پر مجبور ہے، کہیں کوئی ڈپریشن کا مریض بن چکا ہے لیکن اس کا ذمہ دار کون ہے؟؟؟؟ آپ ،ہم ،ریاست ، حکمران ، یہ غریب عوام یا پھر یہ فرسودہ سسٹم؟؟؟

۔

نوٹ: یہ مصنفہ کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

 ۔

 اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔

مزید :

بلاگ -