بھارتی آئین پر حملہ ،شیو سینا نے بھانڈا پھوڑ دیا ،سونیا گاندھی نے ”کھائی اور تباہی “ کیوں کہا ؟ وقف بورڈ کے پاس کتنی قیمتی زمینیں ہیں ؟ تہلکہ خیز انکشافات

بھارتی آئین پر حملہ ،شیو سینا نے بھانڈا پھوڑ دیا ،سونیا گاندھی نے ”کھائی اور ...
بھارتی آئین پر حملہ ،شیو سینا نے بھانڈا پھوڑ دیا ،سونیا گاندھی نے ”کھائی اور تباہی “ کیوں کہا ؟ وقف بورڈ کے پاس کتنی قیمتی زمینیں ہیں ؟ تہلکہ خیز انکشافات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بھارت میں جس کا ڈر تھا وہی بات ہو گئی 
بھارتی آئین پر حملہ ہو گیا ۔۔۔شیو سینا نے بھانڈا پھوڑ دیا ۔۔۔
کانگریس رہنما سونیا گاندھی نے ”کھائی اور تباہی “ کے الفاظ کیوں استعمال کیے ۔۔۔؟
متنازعہ وقف ترمیمی بل کے پیچھے مودی سرکار کے اصل مقاصد کیا ہیں ۔۔۔؟
 کیا مسلمان بھارت کے تیسرے بڑے سٹیک ہولڈر نہیں رہیں گے ۔۔۔؟
اچانک ایسا کیا ہوا کہ کروڑوں بھارتی مسلمان غیر محفوظ ، کمزور اور بے بس ہو گئے ۔۔۔حکومتی ایوانوں میں کونسی کھچڑی پک رہی تھی ۔۔ایک بِل کی آڑ میں کیا کھیل کھیلا جا رہا تھا ۔۔۔؟
ایسی کیا ضرورت تھی کہ رمضان المبارک میں ”محاذ “ کھولا گیا اور وقف ترمیمی بل لایا گیا ۔۔۔ روزہ دار مسلمانوں کوسڑکوں پر نکلنا پڑا ۔۔۔دہلی میں جنتر منتر پر بھی ”کوئی منتر “ نہ چل سکا ۔۔۔
اسد الدین اویسی کی دبنگ تقاریر بھی”ڈبل انجن سرکار “ کا راستہ نہ روک پائیں ۔۔۔
آخر معاملہ ہے کیا ۔۔۔؟
یہ معاملہ نہیں سازش ہے کھربوں روپے کی قیمتی جائیدادیں اور زرخیز زمینیں ہتھیانے کی۔۔۔اور یہ جائیدادیں اور زمینیں مسلمانوں کی ہیں جن کی ذمہ داری یا ملکیت مسلم وقف بورڈ کے پاس ہے۔۔۔
 ایک محتاظ اندازے کے مطابق مسلم وقف بورڈ کے پاس تقریباً 8 لاکھ 51 ہزار 535 جائیدادیں اور 9 لاکھ ایکڑ اراضی ہے جس سے وہ بھارت کے سرِ فہرست3 بڑے سٹیک ہولڈرز میں شامل ہوتا ہے۔
وقف بورڈ کو طویل عرصے سے ”گھیرنے “ کی کوششیں کی جاتی رہیں ،کمرشل قیمتی پراپرٹیز پر قبضے بھی کیے گئے مگر وقف ”کمزور “ نہ ہو سکا ۔۔۔مگر اب اقتدارکے نشے میں چُور” طاقتور گروپ “ نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ”حملہ “ کیا ۔
اب ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ وقف ترمیمی بل کیا ہے؟
بی جے پی کی مودی سرکار نے مسلمانوں کی وقف کردہ زمین کے انتظام میں زبردست تبدیلیوں کا منصوبہ بنایا ہے جس سے حکومت اور مسلمانوں کے درمیان کشیدگی پیدا ہو گئی ہے۔زمین اور جائیدادیں وقف کے زمرے میں آتی ہیں جو مذہبی، تعلیمی یا خیراتی مقاصد کے لیے کسی مسلمان کی جانب سے عطیہ کی گئی ہیں اور ایسی اراضی کو منتقل یا فروخت نہیں کیا جا سکتا۔
 مودی کی حکومت کے وقف (ترمیمی) بل میں مرکزی وقف کونسل اور وقف بورڈ میں غیر مسلم اراکین کو شامل کرنے کی تجویز پیش کی گئی، اس سے حکومت کو متنازع وقف املاک کی ملکیت کا تعین کرنے کا اختیار مل جائے گا۔
 بی جے پی کی مودی سرکار کادعویٰ ہے کہ” اس بِل کا مقصد وقف املاک کے نظم و نسق کو خامیوں سے پاک کرنا ہے جبکہ حزبِ اختلاف اسے وقف املاک کو ہڑپنے کی حکومتی سازش قرار دے رہی ہے۔بھارتی حزبِ اختلاف نے بل کےخلاف لوک سبھا میں شدید اختلافات کا اظہار کیا ۔ اپوزیشن کہہ رہی ہے کہ یہ بل بھارتی آئین کے آرٹیکل 14 اور 15 کے خلاف ہے، آرٹیکل 14 جو قانون کے سامنے برابری کی ضمانت دیتا ہے اور آرٹیکل 15 جو مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کو روکتا ہے، نیز یہ بل مذہب پر عمل کرنے کے بنیادی حق کی خلاف ورزی بھی کرتا ہے۔
 اب ہم آپ کوبتاتے ہیں کہ متنازعہ وقف ترمیمی بل کیسے منظور ہوا ؟
مودی سرکار کے اتحادی افطاریوں میں شرکت کر کے مسلمانوں کو ”دلاسے “ دیتے رہے ، اور لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں متنازعہ وقف ترمیمی بل کے حق میں ووٹ بھی دیدیا ۔۔۔
مسلمان عید مناتے رہ گئے اور مودی سرکار راتوں رات متنازعہ بل دونوں ایوانوں سے کامیاب کروا لے گئی ۔۔۔
 وقف ترمیمی بل لوک سبھا میں 12 گھنٹے بحث کے بعد منظور ہواحمایت میں 288 اور مخالفت میں 232 ووٹ پڑے۔بل کو لوک سبھا میں منظوری کے بعد فوری (اسی روز )راجیہ سبھا میں پیش کر دیا گیا ۔
 راجیہ سبھا نے بھی فوری بل کو منظور کر لیا، حق میں 128 ووٹ جبکہ مخالفت میں 95 ووٹ پڑے۔
دیکھنا یہ ہے کہ بھارت میں اپوزیشن جماعتیں جن میں سخت گیر ہندو تنظیم شیو سینا بھی شامل ہے وہ اس بل کو کس نگاہ سے دیکھ رہی ہیں اوربآواز بلند کیا کہہ رہی ہیں ۔
سخت گیر ہندو تنظیم شیو سینا بھی بھارتی راجیہ سبھا میں متنازع وقف ترمیمی بل کے خلاف آواز اٹھاتی نظر آئی۔
مہاراشٹر سے پارٹی کے رکنِ پارلیمنٹ سنجے راوت نے کہا ” مودی آج جتنی مسلمانوں کی فکر کر رہے ہیں، اتنی تو بیرسٹر جناح نے بھی نہیں کی ہو گی“انہوں نے وقف کی زمینیں فروخت کر کے مسلمان لڑکیوں کی شادی کروانے کے وزیرِ داخلہ کے بیان پر اپنے ردِعمل میں کہا ہے کہ” یہ بات کر کے مودی حکومت کا بھانڈا پھوٹ گیا، ان کا یہ بل لانے کا اصل مقصد ہی زمینیں بیچنا ہے“۔
کانگریس کی رہنما سونیا گاندھی نے کہا ”وقف ترمیمی بل آئین پر حملہ ہے، مودی حکومت ملک کو کھائی میں گھسیٹ رہی ہے، مودی حکومت آئین کو بھی برباد کرنا چاہتی ہے۔ہم سب کےلئے ضروری ہے کہ صحیح بات کےلیے لڑتے رہیں“۔
 کانگریس رہنما اور اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی نے بھی بل پر کڑی تنقید کی ہے۔راہول گاندھی کا کہنا ہے ” وقف ترمیمی بل کامقصد مسلمانوں کو پسماندہ اور جائیداد حقوق کو غضب کرنا ہے۔ بی جے پی اور اتحادیوں کا آئین پر یہ حملہ مسلمانوں پر حملہ ہے۔ وقف ترمیمی بل مستقبل میں دوسری برادریوں کو نشانہ بنانے کی مثال بنے گا۔ یہ بل ہندوستان کے تصور پر حملہ اور مذہبی آزادی کیخلاف ورزی ہے“۔
بھارتی شہر حیدرآباد کے رکنِ پارلیمان اسد الدین اویسی نے بھارتی لوک سبھا میں متنازع وقف ترمیمی بل احتجاجاً پھاڑ دیا۔ اسد الدین اویسی نے لوک سبھا میں کہا ” یہ بل آرٹیکل 25، 26 کی خلاف ورزی ہے، وقف بل مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی ہے۔ اگر چندرابابو نائیڈو، نتیش کمار، چراغ پاسوان اور جینت چوہدری اس بل کی حمایت کرتے ہیں، تو وہ سیاسی وجہ سے ایسا کریں گے، 5 سال بعد جب وہ عوام کے سامنے جائیں گے، تو انہیں کیا جواب دیں گے؟اگر آپ تاریخ پڑھیں تو دیکھیں گے کہ مہاتما گاندھی نے سفید فام جنوبی افریقا کے قوانین کے بارے میں کہا تھا کہ’ ’میرا ضمیر اسے قبول نہیں کرتا‘ اور گاندھی نے ان قوانین کو پھاڑ دیا تھا، میں بھی مہاتما گاندھی کی طرح اس قانون کو پھاڑ رہا ہوں۔ یہ بل غیر آئینی ہے، بی جے پی مندروں اور مساجد کے نام پر اس ملک میں تفرقہ پیدا کرنا چاہتی ہے، میں اس کی مذمت کرتا ہوں اور میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ جو 10 ترامیم میں نے اس بل میں کی ہیں انہیں قبول کریں“۔
بھارتی ریاست تامل ناڈو کے وزیرِ اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے تو وقف ترمیمی بل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کر دیا ہے ۔وزیرِ اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے بل کی شدید مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ انکی جماعت ڈی ایم کے وقف ترمیمی بل کے خلاف سپریم کورٹ میں جائے گی، ترمیمی بل وقف بورڈ کی خود مختاری کے خلاف ہے۔ اس سے اقلیتی مسلم آبادی کو خطرہ لاحق ہے“۔
اب وقف کی کھربوں روپے مالیت کی قیمتی جائیدادوں کے بارے میں تہلکہ خیز انکشافات ملاحظہ کیجیے 
 ایک غیر سرکاری تنظیم کے طور پر وقف کے پاس ملک میں سب سے زیادہ اراضی اور جائیداد ہے۔
صرف حیدرآباد میں سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں وقف جائیدادیں ہیں۔ حیدرآباد میں وقف کی 77000 جائیدادیں ہیں۔ اسی لیے اس شہر کو ہندوستان کا” وقف کیپیٹل“ سمجھا جاتا ہے۔ 30 فیصد وقف املاک صرف حیدرآباد میں ہے۔حیدرآباد میں وقف کے پاس بڑی جائیدادوں میں مکہ مسجد (400 سال پرانی، 10 ایکڑ سے زیادہ اراضی)پر مشتمل ہے ۔دوسری بڑی جائیداد چارمینار کے ارد گرد تجارتی دکانیں ہیں (یہاں سے کروڑوں روپے کی سالانہ آمدنی ہوتی ہے)۔تیسری بڑی جائیداد دکن کے علاقے کے نظاموں کی طرف سے عطیہ کردہ ہزاروں ایکڑ زمین ہے۔
تلنگانہ سب سے امیر وقف بورڈ ہے ۔ تلنگانہ اور آندھرا پردیش میں 1.2 لاکھ وقف جائیدادیں ہیں۔۔ آندھرا پردیش کے پاس شاہی مسجد (کرنول) جیسے اثاثے ہیں جو 200 سال سے زیادہ پرانا تاریخی اثاثہ ہے۔ کڑپہ اور اننت پور میں قابل کاشت زمینیں ہیں۔۔۔تلنگانہ وقف بورڈ کی سالانہ آمدنی 500 کروڑ روپے ہے۔ (کرائے اور عطیات سے)۔
 آندھرا پردیش میں وقف اراضی کا 85 فیصد دیہی علاقوں میں ہے۔
وقف املاک کے معاملے میں پہلے نمبر پر ریاست اتر پردیش ہے؟ جہاں 1.5 لاکھ وقف املاک ہیں۔ جائیدادوں کی کل قیمت کے لحاظ سے ریاست اترپردیش دوسرے نمبر پر ہے اس کے پاس لکھنئو میں بڑا امام باڑہ اور مساجد کی زمینیں ہے۔ کانپور، میرٹھ اور مرادآباد کے قریب صنعتی زمینیں اور مذہبی مقامات ہیں۔
کرناٹک میں بھی وقف کے پاس قیمتیں زمینیں ہیں ۔صرف بنگلورو، گلبرگہ، بیدر میں 30,000 سے زیادہ وقف املاک۔2023 کی رپورٹ کے مطابق بنگلورو میں 90 فیصد وقف اراضی پر غیر قانونی قبضہ ہے۔
مغربی بنگال میں کولکتہ اور مرشد آباد میں وقف کے پاس تاریخی مساجد اور مقبرے ہیں ۔دریائے ہوگلی کے کنارے تجارتی زمینیں ہیں۔
بھارت کی 5ریاستوں میں وقف کی سب سے زیادہ جائیدادیں ہیں۔ ان ریاستوں میں اتر پردیش، تلنگانہ، آندھرا پردیش، کرناٹک اور مغربی بنگال شامل ہیں۔
اب ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ وقف کی قیمتی املاک کن شہروں میں ہیں ۔
سب سے قیمتی وقف املاک والے شہروں میں حیدر آباد ، دہلی ، اجمیر اور ممبئی کے نام آتے ہیں۔
حیدرآباد (تلنگانہ) میں مکہ مسجد کمپلیکس کی تخمینہ قیمت: 5,000 کروڑ سے زیادہ ہے۔چارمینار کے آس پاس دکانون سے وقف کوہر سال 50 کروڑ روپے سے زیادہ کا کرایہ موصول ہوتا ہے ۔
دہلی میں جامع مسجد اور آس پاس کی زمینوں کی مالیت3,000 کروڑ روپے سے زیادہ کی ہے۔حضرت نظام الدین اولیاءؒ درگاہ کے علاقے میں ہوٹل اور دکانیں اس کے علاوہ ہیں 
اجمیر (راجستھان) میں صرف حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کی درگاہ کے سالانہ عطیات 100 کروڑ روپے سے زیادہ کے ہوتے ہیں ۔
ممبئی (مہاراشٹر) میں حضرت حاجی علیؒ کی درگاہ ساحل کے قریب وقف کی انتہائی قیمتی پریمیم زمینیں ہیں۔
تلنگانہ وقف بورڈ سب سے امیر ہے، اس کی جائیدادوں کی کل قیمت 1 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔
اتر پردیش میں وقف زمین کا 40 فیصد قابل کاشت رقبہ ہے، جس سے بورڈ کو بہت زیادہ آمدنی ہوتی ہے۔
کیرالہ میں وقف املاک کا انتظام سب سے زیادہ شفاف سمجھا جاتا ہے۔یہاں یہ بھی یاد رہے کہ 75 فیصد وقف املاک کی اصل قیمت سرکاری ریکارڈ سے بہت زیادہ ہے۔اور ان گنت املاک پر قبضے بھی کیے جا چکے ہیں ۔
اب متنازعہ وقف بِل لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں منظور ہو چکا ہے ۔۔۔بھارتی مسلمان اس کا مقابلہ مستقبل میں کیسے کریں گے ؟ اس کا فیصلہ آنیوالا وقت کرے گا ۔
نوٹ : ادارے کا مضمون نگار کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں 

مزید :

بلاگ -