ڈاکٹر حامد عتیق سرور--ستارہ امتیاز 2025

تحریر: قر ۃالعین حیدر
ڈاکٹر حامد سے پہلی ملاقات سنہء 2011 میں سول سروس اکادمی میں معاشیات کی کلاس میں ہوئی- یہ مضمون ہمیں کبھی پسند نہ تھا اور پڑھانے والے کے بارے میں بھی یہی جذبات تھے ۔ ڈاکٹر صاحب ہمیں اکنامکس پڑھاتے رہے اور ہمیں یاد نہیں کب ہم نے انہیں غور سے سننا شروع کیا، اتنا سمجھ بھی آنے لگا کہ کلاس میں ہونے والے تدریسی بحث و مباحثے میں حصہ لینے لگے۔ ڈاکٹر صاحب کلاس میں چند فقرے کَس کر، لطیف طنز کرکے، کبھی حسب ِحال لطیفہ سنا کر اور کبھی فارسی شعر بمعہ ترجمہ سنا کر کلاس کا رنگ ہی بدل دیتے۔ جب تک ڈاکٹر صاحب سول سروس اکادی تعینات رہے کوئی زیرِ تربیت افسر ان سے زیادہ پاپولر نہ ہوسکا۔ اسی ہمہ جہتی اور بذلہ سنجی کی بدولت ہم اور ہم جیسے کئی ان کے حلقہ شاگردی کے تاحیات اسیر ہوگئے۔ ڈاکٹر صاحب کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے ڈاکٹر اور انکم ٹیکس کے سینئر افسر ہیں، لمز سے معاشیات میںگولڈ میڈل لے چکے اور آسٹریلیا سے پالیسی سازی پر ڈگری کے ساتھ حکومتی و بین الاقوامی اداروں میں بھرپور نوکری کی، اس ساری مصروفیات کے ساتھ پڑھنا ، لکھنا اور پڑھانا بھی جاری رکھا۔
آپ رات کو اسلام آباد ایف 6 سیکٹر کے کسی پارک میں ایک شخص واک کرتا دیکھیں جسے آدھی پبلک روک کر سلام دعا کر رہی ہے ،" السلام علیکم سر "کی آوازیں گونج رہی ہیں تو یقین رکھئے وہ ڈاکٹر حامد عتیق ہی ہیں
ڈاکٹر صاحب کے پاس دفتری، سیاسی ، سماجی اور واقعاتی مناسبت سے دانائی بھری حکایات اور لطائف ہمیشہ موجود ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب دوستوں کی محفل میں ہوں تو محفل اُنہی کی ہوتی ہے۔ بات میں علم، وزن، دلیل، ویژن، کاٹ دار جملے، فکری گفتگو ، منطقی تجزئے ، بر محل تبصرے غرضیکہ آرٹ آف کمیونیکیشن تو جیسے اِن پر ختم ہے۔
ڈاکٹر صاحب کو حکومتِ پاکستان اس سال خدمات عامہ کے شعبے میں گراں قدر خدمات کے اعتراف میں ستارہ امتیاز سے نواز رہی ہے۔ سبھی شاگردوں اور دوستوں کا قریبا اتفاق ہے کہ یہ اُس ستارے کا بھی امتیاز ہے جو ڈاکٹر صاحب کے سینے پر ٢٣ مارچ کو سجے گا۔
ہم نے کئی بار چاہا کہ ڈاکٹر صاحب کے امتیازی کاموں کی تفصیلات اُن کی زبانی سنیں۔ کئی بار پوچھا بھی۔ان کی جگہ کوئی اور ہوتا تو ڈینگیں مارتا، میں نے یہ کر دیا، وہ کردیا لیکن تادم تحریر بصد اصرار ہمیں ڈاکٹر صاحب سے تفصیلات پتا نہ چل سکیں ، البتہ ذرائع سے خبریں ملتی رہیں کہ ڈاکٹر صاحب نہ صرف ٹیکس قوانین و پالیسی کا انسائیکلوپیڈیا ہیں اور پاکستان میں ٹیکسیشن کے نظام میں بہتری لانے کے لئے اپنا کردار ادا کرتے رہے بلکہ جس زمانے میں وزرات صعنت و پیداوار میں تعینات رہے ، چینی امپورٹ کی مخالفت سے لے کر کرونا کے کڑے وقت میں مقامی سطح پر آکسیجن کی ترسیل اور پیداوار بڑھانے کی اہم فیصلہ سازی میں کرادار ادا کرکے عوام کی جان ، حکومت کی عزت اور ریاست کا زرمبادلہ بچایا ۔
ڈاکٹر صاحب نے دنیا جہان کی کتابیں ، فلسفہ اور ادب پڑھ کر اظہار ذات کے لئے سب سے پہلے جو روشندان کھولا وہ ہے شاعری ہے ، خاص طور پر مزاحیہ شاعری جس کے حوالے سے بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ "سنجیدہ مزاحیہ شاعری" ہے۔
ان کے ہاں کلاسیکیت کی کھنک ہے، دلچسپ کردار نگاری ہے، طاقت ور استعارے ہیں ، absurdity ہے جس کو وہ مزاح کے پہیے لگا کر چلاتے ہیں، غزل کے کئی شعر آپ کو گدگدائیں گے، کئی کھلکھلا کر ہنسائیں گے اور ایک دو ایسے ہوں گے کہ سینے میں تیر کی طرح پیوست ہو جائیں گے، المیہ کو طربیہ انداز میں پیش کرنا کوئی ان سے سیکھے۔ ڈاکٹر صاحب المیے کی کڑوی گولی کو طنز و مزاح کے شیرے میں لپیٹ کر اپنے قاری کو کھلاتے ہیں۔ ان کا المیہ ذاتی بھی ہے، معاشرتی ،سماجی وسیاسی بھی، وطنی بھی ،بین الاقوامی اور آفاقی بھی ۔
ڈاکٹر صاحب حاؔفظ و روؔمی کے عاشق ہیں تو غاؔلب ، فیضؔ اور ابنؔ انشا سے ان کو خاص محبت ہے لیکن جب وہ تضمین یا پیراڈی کرتے ہیں تو ان کے ہاں بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہو جاتے ہیں ۔ یعنی اساتذہ کی ضمین ہو یا کسی نئے مشہورشاعر کی، شرط یہ ہے کہ ان کے قابو آجائے بس۔ پھر دیکھئے کمال۔
فیض کی تضمین ملاحظہ ہو
؎ اب تو سیدھی نہیں ہوتی ہے مڑ جائے جو ٹانگ
مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ
ڈاکٹر صاحب کی دو کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں ، 'اٹھارویں کا چاند' اور 'مرے جن نکل گئے' ، پاکستان میں ٹیکسیشن کی صورت حال پر ان کے شہرہ آفاق مضامین " جہنم کی ائیر کنڈیشنگ کا ٹھیکہ" ، اکانومی اور ٹیکس پر مختلف اخبارات میں چھپنے والے انگریزی کالم اور سنجیدہ شاعری تمام زیر اشاعت ہیں۔
بالفرض نہیں ہیں تو اس مضمون کے بعد ڈاکٹر صاحب ان کو چھپوانے پر غور ضرور کریں گے۔
ڈاکٹر صاحب کی دونوں کتابوں کچھ منتخب اشعار
؎ خوباں کے ناز نخرے اٹھانے کے دن گئے
جاں کو سکون اور دِلم ہڈ حرام شُد
؎ کہ جتنی دیر منگلا ڈیم بھر جانے میں لگتی ہے
بس اتنی دیر اس افسر کو سمجھانے میں لگتی ہے۔
؎ چُرا کے لے گیا دل بھی کلام حافظ بھی
جو دل پسند ہے رکھ لے، میری کتاب تو دے
.
نوٹ: یہ لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں.