کرتاپور بارڈرکوریڈور کا افتتاح ہوچکا ہے ،پاکستان نے بھارتی سکھوں کی مراد پوری کرنے کے لئے امن وانسانیت کے نام پر ایسے حالات میں ایک بڑ ا قدم اٹھایا ہے جس کا وہ خود متحمل نہیں ہوسکتا تھاتاہم مشکل فیصلہ کرکے پاکستان نے ایک بار پھر بال بھارت کی کورٹ میں پھینک دی ہے ،یہ بال کچھ ایسی اچھلی ہے کہ حکومت ،اسٹبلشمنٹ اور خود سکھ دانشوربھی مخمصہ کا شکار ہونے لگے ہیں کہ پاکستان نے جس فراخدلی کا ثبوت دیا ہے کہیں اسکے درپردہ ایسی کوئی سازش تو نہیں جو آئیندہ ہونے والے الیکشنوں میں کوئی بڑا اپ سیٹ کرنے کا باعث بن جائے ۔
انڈین اسٹبلشنمٹ اور سیاسی حکومت کی پریشانی کی بات تو سمجھ میں آتی ہے ،اس کوریڈور کے افتتاح کے بعد سکھ دانشور کیوں پریشان ہیں حالانکہ ان کی منوں کامنائیں پوری ہوگئی ہیں اور اب کوئی بھی سکھ اپنے باباجی کے گردواہ میں ماتھا ٹیکنے کی حسرت لئے آنجہانی بھی نہیں ہوگا ،نہ اسے دور بین لگا کر بارڈر کے اُس پار کرتارپور سے اڑھائی میل دور بھارت میں واقع ڈیرہ بابا نانک سے درشن کرنا پڑیں گے ۔انہِں تو خوشی مناتے رہنی چاہئے کہ ان کے بابا جی کا دوار کھل گیا ہے۔پاکستان نے انکے لیڈر نوجوت سدھو کی جپھی کی لاج رکھ لی ہے اور سکھوں کی وہ مراد پوری کردی ہے جس میں سکھوں کی دو نسلیں دنیا سے گذر چکی ہیں ۔ انہیں توبھارتی سرکار سے کوئی امید نہیں تھی کہ وہ کبھی پاکستان کو راضی کرپائے گی کہ وہ سکھوں کی مقدس ترین بستی کے لئے فری ویزہ بندوبست کردے اور میلوں کی د وریاں ختم کرکے بابا کے دوار کے درشن کے فاصلے مٹا دے ۔پاکستان نے سکھوں کا دل جیت لیا ہے اور یہی خوف اب بھارتی حکومت کے دلوں میں بیٹھ گیا ہے کہ کرتاپور بارڈر کے کھلنے سے اب خالصتان کا بند باب بھی نہ کھل جائے جو پنجاب کو بھارت سے الگ کرنے کا باعث بن سکتا ہے ۔
سکھ دانشور کیوں پریشان ہیں ؟ یہ سوال اٹھ چکا ہے اور بھارت میں سکھ برادی کو خوف لاحق ہوگیا ہے کہ عنقریب اس راہ داری کا منصوبہ کھٹائی میں ڈالنے کے لئے ان کے خلاف ریاستی سطح پر کوئی نیا فتنہ شروع کردیا جائے گا کیونکہ کرتاپور راہداری سے چند دن پہلے ہی سکھوں نے اگلے دو سال بعد خالصتان کی آزادی کے لئے ریفرنڈم کا اعلان کردیا تھا ۔اس میں کوئی شبہہ نہٰیں کہ سکھ خالصتان بنانے کے لئے ایک بار پھر سرگرم ہٰیں ،جون 1984 میں دربار صاحب پر خوں آشام آپریشن بلیو سٹار کے بعد سکھوں پر بھارت میں جینا حرام کردیا گیا تھا اور بھارتی فوج اور پولیس نے انتہا پسند ہندووں کے ساتھ مل کر دلی میں تین ہزار اور دیگر شہروں میں آٹھ ہزار سکھوں کو ہلاک کرکے سکھ ہالوکاسٹ کی شرمناک تاریخ رقم کرڈالی تھی ۔آپریشن بلیو سٹار کی کامیابی پر بھارتی حکومت نے فتح کے شادیانے بجائے تھے کہ سکھوں کے دیرینہ مطالبہ کی کمر ہی توڑ ڈالی گئی ہے اور اب سکھ دوبارہ خالصہ تحریک اور خالصتان کا نام بھی زبان پر نہیں لائیں گے لیکن بھارتی سرکار یہ بھول گئی کہ سکھ اپنا انتقام نہٰیں بھولتے ۔وہ دن میں دو بار اپنے گرو کے ہاں ارداس کرتے ہوئے اپنے مظلوموں کو یاد کرتے ہیں اور یہ ان کے دھرم کی روایت ہے ۔سکھ نسل کشی کے لئے بھارتی سرکار کے مظالم کا بدلہ لینے کے لئے ہی وزیر اعظم اندراگاندھی کو اسکے دوسکھ محافظوں نے قتل کر ڈالا اور پھر ان کی بھڑکائی ہوئی انتقام کی آگ نے بعدازاں اندرا گاندھی کے بیٹے وزیر اعظم راجیو گاندھی کو بھی قتل ہونا پڑا ۔یاد رہے کہ جون 1984 کو دربار صاحب پر اندرا گاندھی کے حکم پر بھارتی فوج نے چڑھائی کی اور اکالی دل کی ساری اہم قیادت کو قتل کر ڈالا تو اکتوبر 1984 میں سکھوں نے انتقاماًاسے قتل کر ڈالا تھا ۔
اندرا گاندھی کے قتل کے بعد بھارت میں ہندو سکھ فسادات پھیل گئے تھے ،پولیس اور فوج نے ہندو غنڈووں کے ساتھ مل کر سکھوں کا قتل عام کیا تھا جس کے بعد سکھوں نے اپنی خالصہ تحریک کو زیر زمین جاری رکھا اور خاص طور اسکو سیاسی اور عالمی سطح پر موثر تحریک میں بدل ڈالا ۔نتیجتا کینیڈا،امریکہ ،برطانیہ اور یورپی ممالک میں سکھوں نے بھارتی حکومت کے انسانی مظالم کے خلاف تحریک چلائی ۔مجھے امریکہ میں موجود سکھ فارجسٹس کے سرگرم رکن پنوں ڈھلوں ایڈووکیٹ یاد ہیں جنہوں نے امریکہ میں نریندر مودی کے خلاف بھی امریکی کورٹ میں مقدمہ کیا کہ وہ دہشت گرد پس منظر رکھنےو الا وزیر اعظم ہے جسے امریکہ وزٹ کرنے کی اجازت نہ دی جائے جبکہ سکھوں نے وہائٹ ہاوس کے نام بھی ایک اپیل کی آن لائن مہم شروع کی تھی ۔اگرچہ امریکی عدالت نے مودی کی امریکہ میں بطور وزیر اعظم آمد کو تو نہ روکا مگر امریکیوں کو یہ باور ضرور ہوگیا کہ بھارت میں جہاں مسلمانوں اور عیسائیوں پر انتہا سے زیادہ مظالم کئے جارہے ہیں وہاں سکھوں کی نسل کشی کرکے خطے کو مستقل خطرے میں ڈال دیا گیا ہے ۔سکھوں کے مذہبی مقامات کا کوئی تحفظ نہیں کیا جاتا ۔دربار صاحب امرتسر پر ہونے والا بھارتی فوج کا حملہ اسکی سب سے بڑی مثال ہے ۔تاہم اب سکھوں نےخالصتان کے لئے ہزاروں جانیں قربان کرکے پوری دنیا کا ضمیر بیدار کرنے میں قدرے کامیابی حاصل کرلی ہے اور رائے عامہ پر بھی وہ اثر انداز ہورہے ہٰیں ۔ان حالات میں پاکستان نے انکی مذہبی وآزادی کا احترام کرتے ہوئے انہیں جو سہولت فراہم کی ہے ،اس سے ان کاجذبہ مزید بڑھ گیا ہے تاہم سکھوں میں خوف اس بات کا پایا جاتا ہے کہ دربار کرتاپور تک آزادانہ رسائی کے بعد بھارت کی سکیورٹی اور سالمیت کے لئے بہانہ تراش کرکے سکھوں کے خلاف کوئی مسئلہ نہ کھڑا کردے ،انہِیں یہ خدشہ ہے کہ اگر اس بار خالصتان کی تحریک کامیاب نہ ہوئی تو پھر شاید انہیں اگلی صدی کا انتظار کرنا پڑے۔ دوسری جانب بھارتی سرکار سکھوں سے متعلق غلط فہمیاں پیدا کرکے پاکستان کو اپنی سیکورٹی کے خوف میں مبتلا کرکے کرتار پور راہ داری پر یوٹرن لینے پر نہ مجبور کردے ۔ان حالات میں سکھ قیادت پر دوہری ذمہ داریاں عائد ہوجاتی ہیں کہ وہ پاکستان کے معاملے میں اپنی قوم کو ہر طرح سے یہ باور کرادے کہ ان کا کوئی جوان کسی شرارت میں ملوث نہیں ہونا چاہئے بلکہ سکھ نوجوانوں کو چاہئے کہ کرتار پور بارڈر کی حفاظت کے لئے وہ اپنی جان کی بازی لگانے کے بھی دریغ نہ کریں ۔ پاکستان کرتار پور بارڈر کھول کر خود ایک بڑے امتحان سے دوچار ہوا ہے ،ا س کی افواج پہلے دہشت گردی کی جنگ میں مصروف ہے اور افغان بارڈر پر اسکی خاص طور پر مصروفیات ہیں،وہ کرتا پور بارڈر کھولنے کا رسک نہیں لے سکتی تھی مگر انسانی بنیادوں پر اور سکھوں سے کئے وعدہ کی تکمیل کے لئے اس نے بڑا قدم اٹھایا ہے جس کا احترام کرنا اور کرتارپور سرحد کی حفاظت کرنا خود سکھوں کی ذمہ داری ہے ۔
۔۔۔
یہ بلاگر کاذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے ۔