زبان سے بدفال کیوں نکالتے ہو!

Oct 31, 2024

چوہدری خادم حسین

یہ ہماری بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے۔ ہماری نسل کے لوگوں نے اپنے بچپن میں پاکستان کے لئے جلوسوں میں شرکت کی، نعرے لگائے، آنسو گیس جھیلی، پھر پاکستان بننے کی خوشی دیکھی اور اس کے ساتھ ہی جلاؤ اور خونریز فسادات بھی دیکھے اور سنے، ایک ایسا وقت تھا جب میری دادی جان اینٹیں اور شدید گرم پانی لے کر دوسری منزل پر گلی کی طرف بیٹھی تھیں کہ بلوائی ادھر بھی نہ آنکلیں حالانکہ ہمارا محلہ مجموعی طور پر مسلمانوں کا تھا اور ہندو تیسری گلی میں تھے توسہی لیکن کم تعداد میں، پھر ایک روز مغرب کی طرف سے شعلے بلند ہوتے نظر آئے تو ہمارے محلے کے ساتھ ہندوؤں کے چند مکان بھی نذرآتش ہوئے۔ یہ بڑا کربناک دور تھا، والد صاحب مسلم لیگ نیشنل گارڈز کے سالار کی حیثیت سے اپنے فرائض نبھا رہے تھے اور گھر کم ہی آتے تھے۔ بعد میں انہی سے معلوم ہوا کہ موجودہ بھارتی پنجاب کی طرف سے آنے والے قافلے سکھ اور ہندو بلوائیوں نے لوٹ لئے مردوں کو قتل کیا اور نوجوان لڑکیوں کو اٹھا کر لے گئے۔ اسی طرح ٹرین کے ذریعے سفر کرکے پاک وطن میں بسنے کے لئے آنے والے بھی خون میں نہلائے گئے۔ یہ سب سن کر بچپن ہی سے ذہن نشین ہونا شروع ہو گیا کہ تبدیلی کیا ہوتی اور کیسے خراج طلب کرتی ہے، پھر مہاجر کیمپوں میں جانے کا اتفاق ہوا کہ والدین کی کزنز کو تلاش کرنامقصود تھا، ان کیمپوں میں پناہ لینے والے ہر فرد کے پاس اپنی کہانی تھی پھر یہ دور گزر گیا، مصیبت زدہ افراد کو بھی صبر آ گیا۔ کچھ اپنے عزیز و اقارب اور اکثر حکومت اور مسلم لیگ نیشنل گارڈ کے توسط سے آباد ہوئے اور یہ آباد کاری زیادہ تر بھارت چلے جانے والے ہندوؤں اور سکھوں کے خالی گھروں میں ہوئی اور ان حضرات نے گزر اوقات کے لئے روزگار کا سلسلہ بھی شروع کر ہی لیا۔ اس کے بعد ہی وہ دور آیا جب کلیموں کا سلسلہ شروع ہوا، جعلی کلیم داخل ہوئے، جعلی کلیم بنائے گئے، زور بازو سے قبضہ کرنے والے مقامیوں نے بھی اس میں ہاتھ دھوئے اور اونے پونے کلیم خرید کر ادائیگیاں کیں اور قیمتی، دکانوں، مکانوں کے مالک بن گئے، یہ سلسلہ طویل ہوا۔ مقدمہ بازیاں ہوئیں، جعلی کلیم پکڑے بھی گئے، حالت یہ ہے کہ اس سلسلے میں بعض مقدمات اب بھی سپریم کورٹ کے زیر التوا ء کیسوں میں پڑے ہیں۔

ہائی سکول کے دور میں ہوش سنبھالی تو ملک میں سیاست کی ہلچل دیکھی۔ جلد ہی میاں ممتازمحمدخان دولتانہ اور افتخار حسین ممدوٹ گروپ بن گئے، پھر میاں افتخار الدین الگ ہو کر آزاد پاکستان پارٹی بنا بیٹھے۔ تب سے اب تک سیاست میں اعتدال نہیں آیا اور سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں میں محاذ آرائی شروع ہوئی تھی تو اب تک ختم نہیں ہوئی، ان سیاست دانوں کی اپنی لڑائیوں اور اتھل پتھل نے ایوب خان جیسے آمر اور خود پسند کو یہ موقع فراہم کیا کہ 1956ء کا آئین نافذ ہو جانے کے باوجود انہوں نے مارشل لاء لگا دیا پھر مربی و محترم سکندر مرزا کو جلا وطن بھی کیا اور خود صدر بھی بن گئے اور  1962ء میں نہ صرف بالواسطہ انتخابات کے لئے صدارتی نظام پر مبنی آئین نافذکیا بلکہ جب ان کے اسی آئین کے تحت 1965ء میں صدارتی انتخاب ہوا اور حزب اختلاف والوں نے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو قائل کرکے مقابلے میں اتار دیا تو زبردستی دھاندلی کے ذریعے ان کو بھی ہرا دیا گیا۔

یہ سب ملکی تاریخ کا حصہ ہے اور سب جانتے بھی ہیں، آج دہرانے کا مقصد یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد ہی کی سیاست میں یہ بول درآئے۔ ”ملک خطرے میں ہے“ اور یہ نہ ہوا تو ملک ٹوٹ جائے گا، ایسا نہ ہوا تو علیحدگی پسند کامیاب ہوں گے اور پھر ایسی تحریکیں بھی شروع ہو گئیں بالآخر 16دسمبر1971ء کا وہ دن بھی آ ہی گیا، جب ایک کے دو ملک بن گئے، مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کہلایا اور اب تک دنیا کے نقشے میں موجود ہے میرا عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے لئے یہ سانحہ بھی توبہ اور غلطیوں کے اعتراف کے بعد سنبھل جانے کا باعث نہ بنا بلکہ اس کے بعد ہی ہماری اور ہمارے بعد آنے والی نسلوں کے کان وہی وقرے سننے لگے۔ ”ملک خطرے میں ہے“، ”ملک ٹوٹ جائے گا“۔

مولانافضل الرحمن ایک سیاسی دینی جماعت کے سربراہ ہیں جو ان کے والد کی وراثت بھی ہے وہ اب منجھے ہوئے سیاست دان تو ہیں لیکن دینی رہنما بھی ہیں اور ان سے ایسے ہی رویے کی توقع بھی ہے لیکن آج جب میں نے ان کی زبان سے نکلے ہوئے یہ جملے سنے کہ ”انتخابات کرالو، ورنہ یہ ملک نہیں بچے گا“ یہی بات دوسری طرف سے ایوب خان کے پوتے عمر ایوب نے بھی کہی ہے، یوں میرا دل دھڑکنا شروع ہو گیا کہ یہ تو پھر وہی کھیل شروع ہو گیا جو 1970ء سے پہلے سے کھیلا جا رہا تھا اور حقیقتاً ایک کے دو ملک بن گئے تھے۔ یہ تو اللہ کے دین کی برکت ہے کہ بنگلہ دیش ہر صورت مسلمان ہی رہا کہ وہاں مسلمانوں ہی کی اکثریت ہے اور اب وہاں ایک انقلاب آ چکا ہے۔ مجھے عمر ایوب سے غرض نہیں کہ ان کے آباؤ اجداد، والد اور خود ان کا ریکارڈ سب کے سامنے ہے کہ ان حضرات کے ضمیر نے کتنی بار کروٹ لی اور کب کب جاگا اور جماعت تبدیل ہو گئی، مجھے تو غرض، افسوس اور دکھ مولانا فضل الرحمن کے حالیہ الفاظ کا ہے جو انہوں نے میرے پاکستان کی بقاء کے حوالے سے کہے ہیں۔

اللہ نہ کرے کہ پھر سے قوم کو کوئی ایسا صدمہ اٹھانا پڑے کہ اب تو ملک کے حصے نہیں ہو رہے، پھر سے غلامی کا طوق گلے میں آ جائے گا، اشرافیہ کو اسی طرح کچھ نہیں ہوگا جیسے 16دسمبر 1971ء کے بعد نہیں ہوا تھا، لیکن جن کو عوام کہا جاتا ہے وہ کہیں کے نہ رہیں گے اور سفید پوش بھی اقلیت بن کر ظلم و ستم کا شکار ہوں گے۔ مولانا فضل الرحمن (معذرت کے ساتھ) بھی اب اشرافیہ میں سے ہیں، وہ ساڑھے پانچ کروڑ کی بلٹ پروف لینڈ کروزر میں سفر کرتے اور بہترین آرائش کے بنگلوں میں رہائش رکھتے ہیں۔ ان کا بھی بظاہر کوئی ذریعہ روزگار نہیں، جیسے عمران خان کا بھی نہیں اور وہ بھی تین سو کینال کی رہائش کے مالک ہیں، شاید اسی لئے ہر دو جماعتوں کے ان ”عظیم“ رہنماؤں نے ایک ہی بات کی ہے کہ نئے الیکشن کرا دو ورنہ ملک نہیں بچے گا، کم از کم یہ دونوں تو ایک پیچ پر آہی گئے ہیں، میں اللہ سے پناہ مانگتے ہوئے عرض کروں گا کہ یہ ملک ہم انسان تو نہیں چلا رہے کہ سبھی غلطیوں کے پتلے ہیں اور ارتکاب کرتے چلے آ رہے ہیں مولانا فضل الرحمن تو عالم دین ہیں، ان کو تو حضور اکرمؐ کے انتباہ اور حالات کے ذکر سے آگاہی ہو گی کہ مسلمانوں کی حالت کیا اور وہ کیسے ہوں گے، 15سو سال پہلے بتائی گئی باتیں اب سو فیصد درست ثابت ہو رہی ہیں، تقاضہ وقت اور دین یہ ہے کہ ہم سب توبہ کریں دل و جان سے گڑگڑا کر اللہ سے معافی مانگیں اور اپنے لئے پناہ اور امان طلب کریں۔

مزیدخبریں