گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 78
برطانوی دور حکومت کے سول افسر نہایت اعلیٰ درجہ کے مدبر تھے اور وہ لوگوں کے ساتھ دوستی کے رشتے استوار کرتے تھے۔ ایک ڈپٹی کمشنر ایک ہی ضلع میں کئی کئی سال گزار دیتا تھا اور وہاں کے لوگوں کو بخوبی جانتا تھا۔ فنانشل کمشنر سرجیمس ولسن 1910ء کے قریب ریٹائر ہوئے تو وہ بہت سے لوگوں سے الوداعی ملاقات کے لئے ان کی دیہی رہائش گاہوں پر گئے۔ راولپنڈی ڈویژن کے کمشنر سرپوپ ہم ینگ نے بھی یہی کیا۔ سرجیوفری ڈی منٹمورنسی، جو ضلع لائل پور میں (1919ء ) کئی سال رہے تھے، سرکردہ خاندان کی تین پشتوں تک کے ناموں سے واقف تھے۔ افسوس ہے کہ قیام پاکستان کے بعد عوام اور شہری حکام کے درمیان یہ گہرے دوستانہ روابط کم ہوتے ہوتے اب برائے نام رہ گئے ہیں۔
گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 77 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
برطانوی حکومت میں کوئی شخص جس کی ملازمت کا عرصہ پندرہ سال سے کم ہوتا، بمشکل ڈپٹی کمشنر ہوتا تھا۔ آج کل نوجوان لڑکے چند سال کی ملازمت کے بعد ڈپٹی کمشنر بنادئیے جاتے ہیں اور وہ اس امرکی ضرورت ہی نہیں سمجھتے کہ دیہی علاقہ میں سرکردہ عوامی نمائندوں سے دوستانہ روابط استوار کریں۔ ان کا رویہ عوام کے دوست اور خدمت گزار کا نہیں بلکہ عوام کے حاکم کا ہوتا ہے۔ حکام اور عوام کے درمیان یہ بعد فاصل روز بروز بڑھتا ہی جارہا ہے اور یہ بات بڑی افسوسناک ہے۔ انگریز غیر ملکی تھا اس لئے وہ اپنی حکومت اور اپنی قوام کے لیے زیادہ سے زیادہ دوست بنانے کی کوشش کرتا تھا لیکن ہماری سول سروس کے افسروں کے لئے ایسی کوئی ترغیب موجود نہیں۔
وزیراعلیٰ کی حیثیت سے، میں نے ہر ڈپٹی کمشنر اور سپرنٹنڈنٹ پولیس کے نام یہ ہدایت جاری کی تھی کہ وہ گھوڑے رکھیں اور ہر مہینے کے دس دن اور راتیں دورے میں گزاریں لیکن اب گھوڑا رکھنا خاصا مہنگا ہوگیا ہے اور تنخواہوں کی شرحیں کم ہیں۔ افراط زر کی بنا پر میں نے حکومت کو یہ تجویز پیش کی تھی کہ حکومت کو ہر ڈپٹی کمشنر اور سپرنٹنڈنٹ پولیس کو گھوڑے اور آمدورفت کی مفت سہولت مہیا کرنا چاہیے تاکہ ان کا مرتبہ اور وقار بحال رہے۔لیکن یہ ہدایات فائلوں کی نظر ہوگئیں۔اس پر عمل کیا جاتا تو بیوروکریسی کا مزاج درست ہوجاتا۔
ملازمتوں کے مقابلہ کے امتحان کے ذریعہ بھرتی کا جو دستور نافذ ہے اس کے تحت بدقسمتی سے بیشتر عہدوں پر شہری قابض ہوگئے ہیں۔ جنہیں دیہاتی علاقوں کے لوگوں کی نسبت بہتر تعلیمی سہولتیں حاصل ہیں چونکہ ان افسروں اور دیہی آبادی کے درمیان کسی طرح کی مفاہمت اور مشترکہ مفاد موجود نہیں اس لئے ایک خلیج سی پیداہوگئی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ دیہات کی تدریجی ترقی سے ملازمتوں اور نمائندہ اداروں میں عوام کی بالا دستی قائم ہوگی اور باہمی کشیدگی کا اگر کوئی وجود ہے تو وہ وقت گزرنے کے ساتھ ختم ہوجائے گی۔
میں جب وزیراعلیٰ تھا تو ایک دن ٹہلتا ہوا لاہور کی ایک مضافاتی بستی کے ایک کوچے میں جانکلا۔ وہاں میں نے دیکھا کہ بہت سے بچے ایک کھلے نالے کے پاس بیٹھے سبق یادکررہے ہیں۔ استاد جماعت کے کمرے میں ان خوش نصیب طلبہ کو سبق دے رہا تھا، جنہیں وہاں جگہ مل گئی تھی۔ مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ ہمارے ملک میں سول اور پولیس ملازمتوں پر تو بہت زور دیا گیا ہے، لیکن تعلیمی ادارہ کی ملازمت کو گھٹیا درجہ کی ملازمت تصور کیا جاتا ہے، اگر ہمیں اپنی قوم کی حالت بہتر بنانی ہے تو موجودہ ذہنیت ترک کرنی ہوگی اور اساتذہ کو وہی اہمیت اور وہی تنخواہیں دینی ہوں گی جن کے وہ بجا طور پر مستحق ہیں۔ ساتھ ہی تعلیم کے متعلق ہمیں اپنا زاویہ نظر بدلنا ہوگا۔ ایشیا کی بنیادی اور شدید ضرورت یہ نہیں کہ یہاں اعلیٰ تعلیم کی سہولتیں ہوں (مثال کے طور پر یونیورسٹیاں قائم کی جائیں) بلکہ بہتر ہائی سکولوں اور فنی تعلیمی ادارون کی ضرورت ہے۔ یونیورسٹی میں تعلیم کی اجازت صرف انہی نوجوانوں کو ملنی چاہیے جو بعض متخصص پیشوں کا انتخاب کریں۔ یونیورسٹی کی تعلیم کا معیار بھی موجودہ معیار سے بلند تر بنانے کی ضرورت ہے۔ آج کل کے حالات مایوس کن ہیں۔ تعلیم دقیانوسی ہونے کے علاوہ مہنگی بھی ہے۔ بی اے کی ڈگری کی کوئی حیثیت نہیں۔ ہمارے آرٹس کالجوں کی تعلیم نوجوانوں کو صرف کلرک بننے میں مدد دیتی ہے۔ 1920ء میں حکومت پنجاب نے سیکرٹریٹ میں کلرکوں کی چار خالی اسامیوں کے لیے اشتہار دیا تھا۔ تنخواہ پچاس روپے تھی۔ بی اے پاس نوجوانوں کی چار سو درخواستیں موصول ہوئیں۔ بی اے پاس نوجوانوں کی بے روزگاری کا عالم، ان دنوں اس زمانہ سے بھی بدتر ہے۔ ہر نوجوان کو یونیورسٹی میں بھیجنے کی ضرورت نہیں۔ ہمیں تو ضرورت ہے ان اداروں کی جو نوجوانوں کو سکول کی تعلیم کے بعد پیشہ وارانہ تربیت دے سکیں۔ تعلیم کی یہ قسم شاید نسبتاً مہنگی ہو لیکن چند اسثنائی صورتوں سے قطع نظر، آج کل یہ جو ہزاروں لڑکے سکولوں میں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں، فنی تربیت کے مصارف اس سے تو سستے ہی ہوں گے۔
یونیورسٹی کی سطح پر جماعت کے کمرے سے باہر پروفیسر اور طلبہ کے درمیان عملاً کوئی براہ راست تعلق موجود نہیں ہے۔ آکسفورڈ میں ٹیوشن کا جو طریقہ رائج ہے ہماری بیشتر یونیورسٹیوں میں اس کا رواج ہے۔ میں سمجھتاہوں کہ برطانیہ نے اپنی یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل نوجوانوں سے زیادہ پبلک سکولوں کے نوجوانوں سے فیض حاصل کیا ہے۔ اگرچہ یہ درست ہے کہ وہائٹ ہال میں لیڈروں کی اکثریت آکسفورڈ اور کیمبرج کی تعلیم یافتہ ہے۔ 1950ء میں اسسٹنٹ سیکرٹری کے عہدہ سے اوپر کے 332 سول افسروں میں سے 60 فیصد افسر آکسفورڈ یا کیمبرج کے فاضل تھے۔
اپنے اس دعوے کے ثبوت میں کہ پاکستان میں تعلیم بہت مہنگی ہے، میں یہاں چند دلچسپ اعدادوشمار پیش کروں گا۔ امریکی میں 1957ء میں، ہر دس لاکھ کی آبادی پر یونیورسٹیوں کے طلبہ کی تعداد 16670تھی۔ روس میں 10060، فرانس میں 3880 اور پاکستان میں 1840 تھی (یہ اعداد 1961ء کے ہیں) برطانیہ میں یہی تعداد 1815تھی اور ترکی میں 1780۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ ہمارے یہاں خواندگی کا اوسط بمشکل 20 فیصد ہے۔ یہ اعددوشمار عجیب و غریب تضاد پیش کرتے ہیں۔(جاری ہے)