تیسری قسط۔ ۔ ۔۔بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی شجاع قوم پٹھان کی چونکا دینے والی تاریخ

تیسری قسط۔ ۔ ۔۔بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی شجاع قوم پٹھان کی چونکا دینے ...
تیسری قسط۔ ۔ ۔۔بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی شجاع قوم پٹھان کی چونکا دینے والی تاریخ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

یہود کی حیات نو
سائرس کے متعلق مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی لکھتے ہیں:
’’یہود کے لئے اس کا عروج و ظہور، آزادی اور امن و اطمینان کا بہت بڑا سبب بنا اسی لئے وہ اس کی شخصیت کو بہت زیادہ اہمیت دیتے اور ان کے انبیائے علیہم السلام کے صحفیوں میں اس کو خدا کا چرواہا اور بنی اسرائیل کا نجات دہندہ کہا گیا ہے۔خورس اس کے بیٹے کیقباددوم اور دارا کا مذہب بلا شبہ ایران کے قدیم مجوسی مذہب کے خلاف اور دین حق کا مذہب تھا۔‘‘(قصص القرآن جلد سوم)
سائرس کی سلطنت یونان سے مشرقی میں دریائے سندھ تک ایک سو ستائیس صوبوں میں پھیلی ہوئی تھی جس میں جلا وطن بنی اسرائیل بھی پہلے سے غلامی کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ سائرس نے ان کو واپس یروشلم جانے، شہر کو آباد کرنے اور مسجد بیت المقدس(اقصیٰ) کی از سر نو تعمیر کا فرمان صادر فرمایا۔ چنانچہ بحوالہ کتاب مقدس اس فرمان کے اجرا کے بعد مختلف اوقات میں بیالیس ہزار تین سو ساسٹھ یہودی یروشلم واپس چلے گئے۔ جبکہ جلا وطنوں کی تعداد کئی لاکھ تھی۔ ان میں جو لوگ خوشحال ہوگئے تھے انہوں نے وطن واپس جانے کے مقابلے میں یہیں رہنے کو ترجیح دی۔ سائرس کی زندگی میں اور اس کے خاندان کے عہد فرمانروائی میں بھی جو دو سو بیس سال پر پھیلا ہوا ہے۔ اسرائیلی حاکم قوم کی شکل میں تھے اس دوران میں جو اسرائیلی مملکت ایران میں جہاں کہیں بھی رہائش پذیر تھے وہ سکندر یونانی کے ایران فتح کرنے تک آرام و آسائش کی زندگی بسر کرتے رہے۔

دوسری قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
یہاں یہ بتانا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ جو سائرس بادشاہ کے زمانہ میں یروشلم واپس چلے گئے تھے ان پر کیا گزری۔
اس سلسلے میں سراج الاسلام اپنی تصنیف ’’عہد قدیم مشرق و مغرب‘‘ میں صفحہ ۵۳۴ پر لکھتا ہے۔
اسرائیلی حکومت :سائرس کی مدد سے فلسطین پر اسرائیل کی حکومت دوبارہ قائم ہوگئی۔ یروشلم کی مسجد دوبارہ تعمیر کی گئی۔ عذرانبی نے اسرائیلی تاریخ ، روایتوں اور قانون کو ایک کتاب میں جمع کیا لیکن یہودیوں کی خوشی دیرپا ثابت نہیں ہوئی۔ ایرانیوں کی حکومت کے زوال کے بعد یونانیوں نے سکندر کی قیادت میں ۳۳۰ ق م میں فلسطین پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد فلسطین رومیوں کے زیر اقتدار چلا گیا جو انتہائی سفاک اور ظالم تھے۔ یروشلم کا شہر اورمسجد تباہ کر دی اور یہود قیدی رومی سلطنت کے مختلف علاقوں میں منتشر کر دیئے گئے۔ اسی وجہ سے آج ان کا دنیا کے ہر حصہ میں وجود ملتا ہے۔ یہودیوں کو رومیوں کی غلامی میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ قریب ۱۹۰۰ سال کی جدوجہد کے بعد مئی ۱۹۴۸ء میں اسرائیلی حکومت کا قیام پھر عمل میں آیا۔‘‘
فلسطین پر رومی حملہ کے بارے میں فلپ تاریخ شام میں لکھتا ہے کہ ’’حضرت عیسیٰ ؑ کے بعد رومیوں نے یروشلم پر حملہ کرکے پانچ ماہ تک محاصرہ جاری رکھا۔ آخر ستمبر ۸۰ ء میں یروشلم شہر فتح کر لیا گیا۔ محصور شہر کے درد ناک انجام کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ جب رومی سپاہیوں نے شہر پر حملہ کیا تو محصور خاندانوں نے باہم سب کو مار دینے کا عہد کر لیا تھا۔ چنانچہ انہوں نے اپنے بیوی بچوں کو قتل کر دیا۔ ان حالات کا نقشہ ایک ایسے مورخ کے قلم سے کھینچا گیا ہے جو خود جنگ میں شریک تھا۔ شوہروں نے انتہائی محبت کے ساتھ بیویوں سے معانقہ کیا۔ بچوں کو گود میں اٹھایا انہیں پیار کیا دونوں طرف سے بوسے دیئے۔ آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگی ہوئی تھی لیکن وہ جو عزم کر چکے تھے اسے پورا کئے بغیر نہ رہے اور اسے اس طرح پورا کیا گویا یہ سب کچھ اجنبیوں کے ہاتھوں ہو رہا ہے۔ انہیں اندازہ تھا کہ اگر دشمن کے ہاتھوں گرفتار ہوئے تو انہیں کن اذیتوں سے سابقہ پڑے گا۔۔۔وہ بڑی بری حالت میں تھے لیکن حالات ایسے پیدا ہوگئے تھے کہ بیوی بچوں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرنا انہیں ایک کم درجے کا گناہ معلوم ہوا۔
شہر تباہ کر دیا گیا۔ ہیکل کو آگ لگا دی گئی نو سو پچاسی دیہات برباد ہوئے۔ اندازہ کیا گیا کہ دس لاکھ یہودی اس جنگ میں تباہ ہوئے بہت سے قیدی بنا لئے گئے اور انہیں روم لے جایا گیا۔ اس سے پیشتر اشوری اور کلدانی یہودیوں کو جا بجا منتشر کر چکے تھے۔ اس انتشار کی تاریخ میں ایک رومی باب کا اضافہ ہوا۔‘‘
قرآن نے اس واقعہ کو تازۃ آخری کے نام سے یاد کیا ہے اور پہلے والے کو تارۃ اولی یہ واقعہ بنائے بیت المقدس کے گیارہ سو ساٹھ سال بعد پیش آیا۔
مزید ثبوت کے لیے ملاحظہ ہو قرآن پارہ ۱۵ سور بنی اسرائیل ۔ (ترجمہ) ہم نے کتاب(یعنی تورات) میں بنی اسرائیل کو اس سے آگاہ کر دیا تھا کہ تم ضرور ملک میں دو مرتبہ فساد برپا کرو گے۔)
ایک ضروری یادداشت:پختون لوگ پہلے وقتوں میں بنی پخت کے نام سے موآب کے میدان یا ملک موآب جو شام کے علاقہ مشرق اردن میں واقع تھا میں آباد تھے لہٰذا وہ باشندگان موآب اور بعض جگہ بنی پخت موآب کے نام سے یاد ہوتے ہیں۔ (ملاحظہ ہو کتاب مقدس میں عزرا، نحمیاہ اوریر میاہ باب ۴۸)
پختون نام اور وجہ تسمیہ
ان جلا وطن بنی اسرائیل میں بنی پخت یعنی اولاد پخت ایک معزز اور حکمران قبیلہ بھی تھا جو بنی یہودا میں بحوالہ سموئل، وہ لوگ مسمیان یواب، اب یشی، عسائل اور یشوع جو اولاد پکت کے نام سے یاد کئے جاتے تھے انہیں میں سے ا یک نامور قبیلہ بنی پخت کے نام سے بن کر تعداد اور طاقت میں بڑھ گیا تھا۔ اسی طرح کتاب مقدس بائبل باب تواریخ میں درج ہے کہ ’’بنی پخت طاقت اور اقتدار بھی رکھتا تھا۔ حضرت داؤد کے عہد حکومت میں ان کے مورت یان اعلیٰ جو یواب، ابیشے، عسائل اور یشوع تھے سب کے سب حکومت پر حاوی تھے اور ان کے مشورہ ہی سے سب کچھ ہوتا۔ ‘‘ وزارت عظمیٰ اور فوجوں کی کمان انہیں کے ہاتھوں میں تھی۔ اور حضرت سلیمانؑ کے عہد حکومت میں بھی انہی کا زیادہ اثر تھا۔ دونوں زمانوں میں وزارت اور پوری فوج انہی کی سرپرستی میں تھی۔ جب یہ قبیلہ شرق اردن میں سے سخیرب اشوری کے ہاتھوں قیدی بن کر جلا وطن کیا گیا اور مشرق میں اسے اسرائیلیہ کے پہلے جلا وطنوں کیساتھ ،جواُن کے ہم نسل تھے بسایا گیا تو بنی پخت کی نامی گرامی شہرت کے سبب سارے جلا وطنوں کا قومی نام پختون ہوا اور اس نام کے تحت سارے قبیلوں نے اپنے اپنے نام ذیلی شاخوں کی شکل میں بھی قائم رکھے۔ بنی پخت یا اولاد پخت یعنی پختون(پشتون) قبیلہ کا وجود بنی اسرائیل میں نمایاں تھا۔ (بائیبل، اردو مطبوعہ لاہور)
الغرض یہ قبیلہ تاریخ کے مختلف ادوار میں اپنے سیاسی اثر و اقتدار اور طاقت و قوت سے تمام بنی اسرائیل میں معزز اور قابل فخر رہا ہے۔ ان کے اسی امتیاز اور عزت کی وجہ سے پختون کا نام ان تمام جلا وطن بنی اسرائیل کے لئے استعمال ہونے لگا جو مشرق میں آباد ہوئے۔

جاری ہے، اگلی یعنی چوتھی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

پٹھانوں کی تاریخ پر لکھی گئی کتب میں سے ’’تذکرہ‘‘ ایک منفرد اور جامع مگر سادہ زبان میں مکمل تحقیق کا درجہ رکھتی ہے۔خان روشن خان نے اسکا پہلا ایڈیشن 1980 میں شائع کیا تھا۔یہ کتاب بعد ازاں پٹھانوں میں بے حد مقبول ہوئی جس سے معلوم ہوا کہ پٹھان بنی اسرائیل سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے آباو اجداد اسلام پسند تھے ۔ان کی تحقیق کے مطابق امہات المومنین میں سے حضرت صفیہؓ بھی پٹھان قوم سے تعلق رکھتی تھیں۔ یہودیت سے عیسایت اور پھر دین محمدیﷺ تک ایمان کاسفرکرنے والی اس شجاع ،حریت پسند اور حق گو قوم نے صدیوں تک اپنی شناخت پر آنچ نہیں آنے دی ۔ پٹھانوں کی تاریخ و تمدن پر خان روشن خان کی تحقیقی کتاب تذکرہ کے چیدہ چیدہ ابواب ڈیلی پاکستان آن لائن میں شائع کئے جارہے ہیں تاکہ نئی نسل اور اہل علم کو پٹھانوں کی اصلیت اور انکے مزاج کا ادراک ہوسکے۔