انتیسویں قسط۔ ۔ ۔بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی شجاع قوم کی چونکا دینے والی تاریخ
رودباری
قبیلہ ترکانی کے پڑوس ہیں مشرق کی طرف یوسف زئی کے ساتھ جندول وغیرہ ہائے دیر میں ان کے عزیزوں کا ایک اور افغان قبیلہ’’رودباری‘‘ آباد ہے جو اگرچہ تعداد میں کم ہے۔‘ اس کی چار ذیلی شاخیں ہیں جو یہ ہیں۔
وزیر خیل ، پاپنی، کوت دالان، اور دلزاک۔
واضح ہو کہ یہ پاپنی اور دلزاک خشی قبائل میں سے اور رودباری ہیں اور وہ دلزاک جن کی یوسف زئیوں سے جنگیں ہوئی ہیں اور وہ پاپنی جو اخون درویزہ کے ہم قوم ہیں وہ الگ ہیں ان سے قبیلہ رود باری کا کوئی تعلق نہیں۔ یہ رودباری ملک احمد کی دعوت پر شیخ ملی کے ذریعہ کنڑ اور ننگر ہار سے دلزاک کے خلاف جنگ کاٹلنگ میں شمولیت کے لئے آئے تھے یوسفزئی کا فتح حاصل ہونے کے بعد ان کو قبیلہ ملی زئی کے ساتھ تقسیم میں شیخ ملی نے حصہ دیا تھا اور اس وقت بھی وہ ملی زئی کے ساتھ علاقہ دیر میں جگہ بہ جگہ مالکانہ حیثیت سے سکونت پذیر ہیں۔ یہ ایک پختون قبیلہ ہے جس کی رہائیش نشیکے اور دریائے ہلمند کے جنوبی کنارے پر ’’رودبار‘‘ نامی ایک قصبہ میں تھی یہ قصبہ یوسف زائی کے متصل ساتھ ہی جنوب میں واقع تھا۔ یہ لوگ نسلاً خشی قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں اور جب خشی قبائل وہاں سے کابل کی طرف جلاوطنی پر مجبور ہوئے تو سب خشی قبائل وہاں سے نکل گئے جن میں رود بار نامی قصبہ کے رہنے والے لوگ جو بعد میں اس قصبہ میں سکونت کے سبب رودباری کے عرف سے مشہور ہوئے بھی شامل تھے۔ کابل کی طرف آنے کے بعد یہ لوگ موجودہ افغانستان کے علاقہ لمغان وننگرہار، وغیرہ میں سکونت پذیر ہوگئے تھے۔ بعد میں وہاں سے ملک احمد اور شیخ ملی کے بلانے پر جنگ کا ٹلنگ میں شریک ہوئے اور فتح کے بعد یہیں رہنا پسند کیا ہوگا۔ یہ صحیح طور تو معلوم نہیں کہ یہ خشی کہ تینوں قبیلیوں یعنی یوسف زئی، گگیانی اور ترکانی میں سے کسی قبیلہ سے متعلق ہیں مگر غالب قیاس یہ ہے کہ رود باری لوگ قبیلہ ترکانی میں اولاد شعیب میں سے ہیں جو اس وقت تک وہ دریائے کنڑ سے مغرب کی طرف افغانستان میں آباد ہیں۔ قرائن سے ظاہر ہے کہ علاقہ قندھار سے جلاوطنی کے بعد رودباری لوگوں کی سکونت افغانستان میں ان ترکانیوں کے ساتھ تھی اور انہیں کے ساتھ قرابت تھی اور وہیں سے کاٹلنگ میں آئے تھے۔
اٹھائیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
قبیلہ ککے زئی پنجاب میں
یہ تاریخ کی بڑی ستم ظریفی ہے کہ جس قبیلہ کو سابق متحدہ پنجاب کی حکومت نے ۱۸۸۱ء میں جرائم پیشہ قرار دیا تھا۔ ۱۹۳۴ء کے بعد اسی قبیلہ کے افراد اسی سر زمین پنجاب پر گورنر جنرل، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور مرکزی صوبائی حکومتوں کی وزارت قانون کے مالک رہے ہیں۔ میرے خیال میں یہ تاریخ کے صفحات پر عجائبات عالم میں سے شمار کیا جائے گا۔
معلوم رہے کہ ایک قوم جو افغان قبیلہ ترکلانی ، ترکانی(ترکانڑی) جو شیخے سے اور قبیلہ یوسفزئی رگگیانی کی برادری سے تعلق رکھتی ہے کی ذیلی شاخ لوئے ماموند کے نام سے علاقہ باجوڑ میں موجود ہے۔ جو کہ سات ذیلی شاخوں پر منقسم ہے۔ بڑوزئی، ککے زئی، اریازئی، سالار زئی، برم کازئی، خلوزئی اور بدل زئی۔
کے یاککی زئی پنجاب والے اسی لوئے ماموند کے لوگ ہیں۔ ککی زئی کی اولاد پانچ ذیلی شاخوں پر موسوم ہیں۔ مسعود خیل، ایسف خیل، عمر خیل، سلیمان خیل اور بادین خیل اور اس وقت بھی یہ لوگ باجور میں انہی ناموں سے یاد کئے جاتے ہیں اور موجود ہیں۔
قبیلہ تزکانڑی کی باجوڑ سے جانب مغرب، علاقہ لمغان، افغانستان میں ۱۵۰۸ء کے آغاز تک اپنی ریاست تھی جو مغل حخمران کے ہاتھوں برباد ہوگئی اور ان لوگوں نے خان گجو کے عہد میں علاقہ یوسفزئی تپہ باجوڑ میں آکر پناہ حاصل کی اور یوسفزیوں نے باجوڑ میں کافی علاقہ اپنی خوشی سے ان کو امداد کے طور پر حوالہ کیا تھا۔ تاریخ کے اس متذکرہ عہد میں وادئ جندول کے جنوبی سرے پر رودبار، باجوڑ کے عین جنوبی کنارے پر واقع ایک پہاڑی نشیبی درہ کلالہ میں قبیلہ ماموند کی ذیلی شاخ ککی زئی کے لوگ آباد تھے اور اسی مقام کی نسبت سے یہ لوگ کلالہ کے نام سے بھی موسوم ہوئے تھے اور باجوڑ سے نکل کر پشاور میں بھی رہے ہیں اور یہاں بھی کلالہ یا کلال (ککی زئی) کے نام سے مشہور ہیں۔ واضح رہے کہ کلال ایک اسرائیلی نام ہے جس کا ذکر کتاب مقدس میں اجنبی عورتوں کو چھوڑنے کے بارے میں ہوا ہے۔
تواریخ حافظ رحمت خانی میں لکھا ہے کہ (قریب ۱۵۰۸ء میں) جب قبیلہ یوسف زئی بہ سرکردگی ملک احمد باجوڑ میں دلازاک سے نبرد آزما تھے۔ اور دلازاک اور یوسف زئی کا سخت مقابلہ تھا۔ تو ملک سرخابی بن شموتر کلائی جو اس وقت قبیلہ کا ایک نامور سردار تھا۔ اپنا لشکر لے کر لمغان سے یوسفزیوں کی امداد کے لئے پہنچا اور ہیبو سردار دلازاک کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ نہ سمجھ سکا۔ بالآخر نوبت بجنگ رسید، قریب تھا کہ یوسف زئی شکست کھانے لیکن ملک سرخابی بن شمو نے اپنے لشکر کو للکارا جس کے نتیجے میں ہیبو کو پائندہ تر کلانی ککی زئی نے تلوار سے مارا اور برہان ترکلانی ککی زئی نے ہیبو کے بھائی جہان شاہ کی گردن ماری اور سر تن سے الگ کر دیا۔ مختصر یہ کہ دلازاک قوم کے دونوں سردار ہیبو اور جہان شاہ ککی زئیوں کے ہاتھوں مارے گئے اور دلازاک کا لشکر شکست کھا کر بھاگنے پر مجبور ہوا۔ ککی زئی سردار اور ملک سرخابی سالارزئی اپنے لشکر سمیت سارا علاقہ باجوڑ یوسفزئی کے قبضہ میں دے کر لمغان واپس چلے گئے۔ اور جاتے وقت یوسفزئی ملکان کوکہہ گئے کہ یہ ملک باجوڑ تمہارے لئے فتح کیا اس پر اب اطمینان سے رہو ہم اپنے وطن واپس جا رہے ہیں ملک صرخابی کی وفات کے بعد سربراہ قبیلہ اس کا بھائی مٹہ نامزد ہوا اور غوریاخیل کی جنگ میں وہ دو سو گھوڑ سواروں قبیلہ اس کا بھائی مٹہ نامزد ہوا اور غوریا خیل کی جنگ میں وہ دو سو گھوڑ سواروں سمیت یوسفزیوں کی امداد کے لئے بمقام شیخ تپور، خان گجو کے پاس آیا تھا اور اس نے جنگ میں بہت اخلاص اور بہادری کا مظاہرہ کیا تھا۔ خان گجو حکمران خشی نے ترکانڑیوں کے اخلاص اور بہادری کی بہت تعریف کی ہے۔
جاری ہے۔ تیسویں قسط پڑھنے کیلئے کلک کریں
پٹھانوں کی تاریخ پر لکھی گئی کتب میں سے ’’تذکرہ‘‘ ایک منفرد اور جامع مگر سادہ زبان میں مکمل تحقیق کا درجہ رکھتی ہے۔خان روشن خان نے اسکا پہلا ایڈیشن 1980 میں شائع کیا تھا۔یہ کتاب بعد ازاں پٹھانوں میں بے حد مقبول ہوئی جس سے معلوم ہوا کہ پٹھان بنی اسرائیل سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے آباو اجداد اسلام پسند تھے ۔ان کی تحقیق کے مطابق امہات المومنین میں سے حضرت صفیہؓ بھی پٹھان قوم سے تعلق رکھتی تھیں۔ یہودیت سے عیسایت اور پھر دین محمدیﷺ تک ایمان کاسفرکرنے والی اس شجاع ،حریت پسند اور حق گو قوم نے صدیوں تک اپنی شناخت پر آنچ نہیں آنے دی ۔ پٹھانوں کی تاریخ و تمدن پر خان روشن خان کی تحقیقی کتاب تذکرہ کے چیدہ چیدہ ابواب ڈیلی پاکستان آن لائن میں شائع کئے جارہے ہیں تاکہ نئی نسل اور اہل علم کو پٹھانوں کی اصلیت اور انکے مزاج کا ادراک ہوسکے۔