ڈوبتی ہوئی فلم انڈسٹری
فلم سازی دنیاے فن کی ایک جدید شاخ ہے۔ بیسوں صدی کے اوائل میںیہ فن و ادب کی ایک نئی صنف کی صورت میں ابھری۔ہندوستان کی فلم انڈسٹری کا ایک اپنا مقام رہا ہے؛ اس نے اس خطے میں عظیم فن کار پیدا کئے۔ تقسیم ہندوستان کے بعد پاکستانی سینما نے ’’گنڈاسہ‘‘سیریز کی شاہکار فلمیں تیار کیں،جو فنی اور تخلیقی لحاظ سے اپنی مثال آپ تھیں۔ انہوں نے آغاز ہی میں فلم انڈسٹری کو بے پایاں شہرت بخشی۔ یہ فلمیں جہاں بیرون ملک ہماری پہچان تھیں وہیں اس خطے کے تمدن و تہذیب کی تفہیم کا ذریعہ بھی بنیں۔ انہوں نے بہت جلد عوام میں ریکارڈمقبولیت حاصل کی۔ نتیجتاًفلم سازی کی صنعت تیزی سے ترقی کرنے لگی؛ بھارتی فنکار پاکستان آنے لگے؛ یہاں آ کر انہوں نے اپنے فن کا لوہا منوایا۔ یہ لالی وڈ کے عروج کا دور تھا،اس زمانے میں بھارت نے بھی پاکستان کے فلمی رجحانات کی تقلیدکی۔ پھر پاکستانی سینما کے زوال کا آغاز ہوا۔
یہ وہ دور تھا جب انڈسٹری پر سیاست اثرانداز ہونا شروع ہوئی۔مختلف گروہوں کی طرف سے کبھی مذہب اور کبھی غیرت کے نام پر فلم انڈسٹری کو تباہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ اگرچہ اس دوران بے شمار فلمیں تیار ہوتی رہیں مگروہ ایک ہی قماش کی تھیں۔ باربار ایک ہی قسم کے کرداروں اوررپورتاژوں نے بھی انڈسٹری کی ساکھ کو متاثر کیا۔ اس دور میں معیار اور تخلیقیت کی قلت نظر آئی۔ دوسری جانب بھارتی فلم انڈسٹری ہر حوالے سے بہتر سے بہتر کی طرف گامزن تھی۔ یہ وہی دور تھا جب معرکتہ آرا فلم \'Mother of India\"کے لئے دلیپ کمار کو کاسٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو اُس نے صرف اس وجہ سے انکار کر دیا کہ اسے جس عورت کا بیٹا کاسٹ کیا جا نا تھا وہ اس کے ساتھ پہلے ہیرو کا کردار کر چکا تھا؛ سو ایسا کرنا انڈسٹری کی کسر شان گردانتا تھا،جبکہ دوسری جانب پاکستان کے بعض اداکار دولت کو فن پر ترجیح دے رہے تھے؛ انہوں نے اداکاری کو محض ذریعہ معاش سمجھا۔ کئی ادکاروں کے متعلق مشہور ہے کہ وہ سراسر اس بات سے بھی لاعلم ہوتے کہ کون سی فلم شوٹ کر رہے ہیں؛فقط رقم وصول کرتے ،پردے پر آتے اور لکھے لکھائے ڈائیلاگ بول دیتے ۔ اس کا ایک نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ بھارتی فلموں نے عوام کی توجہ جذب کر لی اور رفتہ رفتہ پاکستانی سینما تاریک ہوتے گئے۔
جب بالی وڈ کی مقبولیت نے پاکستانی فلم انڈسٹری پر نقب لگائی تو سینما مذبذب ہو گیا۔ انڈسٹری لسانیت کی بنیاد پر تقسیم ہو ئی؛ علاقائی زبانوں میں فلموں کی تیاری کا رواج پڑا اور اُردو فلموں کی تیاری میں نمایاں کمی آ گئی ۔ ان فلموں میں سب سے بڑی تعداد پنجابی فلموں کی تھی۔ اس عرصے کے دوران بے شمار پنجابی فلمیں تیار ہوئیں جس سے انڈسٹری پنجابی فلموں تک محدودہوکر رہ گئی۔بعد ازاں ان پر ملک کے غیرفنی اور دولت مند طبقے نے اُجارہ داری قائم کر لی ۔یہ امرفلم انڈسٹری کے لئے بڑا مُضرت رساں ثابت ہوا؛ حقیقی فن کو شدید نقصان پہنچااور انڈسٹری تباہی کے دہانے پر آ کھڑی ہوئی۔ فن کاروں اور اداکاروں کی جگہ طوائفوں نے لے لی؛وہ گیت جو لمحے بھر میں دل کے تارچھیڑ دیا کرتے تھے،ان کی جگہ نام و نمود کی غرض سے واہیات شاعری کاسہارا لیا گیا۔گانوں میں کھوکھلا پن اور تصنع کا پہلو شامل ہوگیا اور یہ اخلاقیات کی تمام حدیں پھلانگ کر فقط تھرکتے جسموں اور دوشیزاؤں کے ٹھمکوں تک محدود رہ گئے۔
اس وقت ہماری فلم انڈسٹری حالت نزع میں ہے اور اپنے آخری سانس لے رہی ہے؛بیشتر فنکاروں کا کوئی پرسان حال نہیں؛ ان کی مالی حالت سقیم ہے اور وہ کسی کونے میں پڑے تنگ دستی اور کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔کئی فن کار انڈسٹری چھوڑ کر بالی وڈ میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ فی الوقت عوام کی اکثریت بھارتی فلموں پر مفتون ہو چکی ہے اور کوئی بھی پاکستانی پروڈیوسر فلم تیار کرنے سے قبل سو بار سوچتا ہے۔گو کہ حال ہی میں شعیب منصور جیسے لوگوں نے اعلیٰ ظرف کا مظاہرہ کیا ۔ یاخُدا،بول، چنبیلی اور وار جیسی فلموں کے بعدانڈسٹری کی بابت بہتری کی کچھ اُمیدپیدا تو ہوئی تھی لیکن ان کے بعد ابھی تک کوئی نئی معیاری فلم نہیں بن سکی۔فلم انڈسٹری کی حالیہ ابتری کی سب سے بڑی وجہ حکومت کی عدم توجہ رہی ہے۔ جن ممالک میں فلم سازی کو حکومتی تعاون حاصل ہواہے وہاں معیاری اور نفع بخش فلمیں تیار ہورہی ہیں۔ پڑوسی ملک بھارت اس کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ اگر بھارتی فلم انڈسٹری بالی وڈ نے مختصر عرصے میں بہت زیادہ ترقی کی تو اس کامخفی پہلو یہ ہے کہ بھارتی حکومت نے فلم سازی کو ایک صنعت کے طور پر تسلیم کیاہے۔ اگر پاکستان کی حکومت بھی اپنی توجہ اس طرف منعطف کرے تو ایمرجنسی وارڈ میں آکسیجن لگی فلم انڈسٹری کی کچھ سانسیں بحال ہو سکتی ہیں۔ موجودہ حالات میں اشد ضروری ہے کہ حکومت فن اور فن کاروں پر غیر معمولی توجہ دے تاکہ دہشت گردی اور مایوسی کی فضا میں معاشرے کے لئے تفریح کا کچھ سامان میسر آسکے۔