پارلیمانی کمیٹی کا نامزد ججوں کو انٹریوکیلئے بلا نا اختیارات سے تجاوز ہے؟
تجزیہ:سعید چودھری
اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کے تقرر کے لئے قائم پارلیمانی کمیٹی نے ترمیمی رولز کی منظوری دے دی،جن کے تحت پارلیمانی کمیٹی نامزد ججوں کو انٹرویو کے لئے طلب کرسکے گی،کمیٹی کے طلب کرنے کے باجود جو پیش نہیں ہوگااس کی بطور جج نامزدگی مسترد تصور کی جائے گی۔کیا نئے رولز کو پارلیمنٹ سے منظور کروانا پڑے گا،کیا ترمیمی رولز عدلیہ کی آزادی اور خودمختاری کے منافی ہیں،کیا ان کاعدالتی جائزہ لیا جاسکتاہے،پارلیمانی کمیٹی کی آئینی حیثیت اور اس کے کیا اختیارات ہیں،کیا نئے رولز کسی عدالتی فیصلے کا ردعمل ہیں؟
18ویں آئینی ترمیم کے ذریعے نئے آرٹیکل 175(اے)کو آئین میں شامل کیا گیا،جس کے تحت اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کے تقرر کے حوالے سے عدلیہ کے ساتھ ساتھ پارلیمانی کمیٹی کو بھی اختیارات تفویض کئے گئے۔اس آرٹیکل کے مطابق سپریم کورٹ،ہائی کورٹس اور وفاقی شرعی عدالت میں ججوں کے تقررکے لئے نامزدگیوں کا اختیار چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں قائم جوڈیشل کمشن کو دیا گیاجو اپنی سفارشات مرتب کرکے پارلیمانی کمیٹی کو بھیجتاہے،آئین کے تحت پارلیمانی کمیٹی 8ارکان پرمشتمل ہوگی جن میں سے 4کا تعلق سینیٹ اور 4کا تعلق قومی اسمبلی سے ہوگا، دونوں ایوانوں سے حزب اختلاف اور حزب اقتدارسے مساوی ارکان لئے جانے ضروری ہیں،آرٹیکل75(اے)کا ذیلی آرٹیکل12کہتاہے کہ پارلیمانی کمیٹی ججوں کی نامزدگی کی وصولی کے بعد 14دن کے اندر سادہ اکثریت سے جوڈیشل کمشن کی سفارشات کی منظوری دے سکتی ہے،اگر 14دن میں ایسا نہ ہوسکے تو پھر جوڈیشل کمشن کی سفارشات کو منظور شدہ تصور کیا جائے گا،پارلیمانی کمیٹی تین چوتھائی اکثریت سے جوڈیشل کمشن کی سفارشات مسترد کرسکتی ہے لیکن اس کے لئے کمیٹی کو ٹھوس وجوہات دینی ہوں گی، آئین کے تحت کمیٹی اپنے طریقہ کار کو منضبط کرنے کے لئے قواعد وضع کرنے کااختیار رکھتی ہے اور کمیٹی نے اسی اختیار کے تحت اپنے رولز میں ترمیم کی ہے،اس لئے ان رولز کو پارلیمنٹ میں پیش کرنا اور ان کی منظوری لینا ضروری نہیں ہے،
کیا پارلیمانی کمیٹی کی کارروائی کا عدالتی جائزہ لیا جاسکتاہے؟آئین کے آرٹیکل 69میں واضح کیا گیاہے کہ پارلیمنٹ کی کارروائی کا عدالتی جائزہ نہیں لیا جاسکتالیکن پارلیمانی کمیٹی کی کارروائیوں کا عدالتی جائزہ لئے جانے کی نظائر موجود ہیں،سپریم کورٹ منیر بھٹی کیس میں پارلیمانی کمیٹی کے دائرہ اختیار اور حدود وقیود کا تعین کرچکی ہے،یہ فیصلہ پی ایل ڈی سپریم کورٹ 2011ء صفحہ407پر ریفرنس کے طورپردیکھا جاسکتاہے،پارلیمانی کمیٹی نے ہائی کورٹس کے ججوں کے لئے جوڈیشل کمشن کی طرف سے تجویزکئے گئے بعض نام مسترد کردیئے تھے، جن کے خلاف وکلاء تنظیموں اورکچھ وکلاء نے انفرادی طور پرسپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کیں،سپریم کورٹ کے لارجر بنچ نے اپنے فیصلے میں قراردیا کہ پارلیمانی کمیٹی کو آئین کے آرٹیکل 69کا تحفظ حاصل نہیں ہے،اس لئے اس کی کارروائی کا عدالتی جائزہ لیا جاسکتاہے،سپریم کورٹ نے یہ بھی قراردیا کہ مجوزہ ججوں کی پیشہ وارانہ اہلیت اور قابلیت کا جائزہ لینا جوڈیشل کمشن کا کام ہے،اس حوالے سے جن چیزوں کا جوڈیشل کمشن جائزہ لے چکا ہو پارلیمانی کمیٹی اس کا جائزہ نہیں لے سکتی،پارلیمانی کمیٹی کا اپنا اور جوڈیشل کمشن کا اپنا کام ہے،سپریم کورٹ نے پارلیمانی کمیٹی کی طرف سے مجوزہ ججوں کے نام مسترد کئے جانے کا اقدام کالعدم کرتے ہوئے ان کے تقررکا حکم دے دیا،اس موضوع پرندیم کاہلوں کیس میں لاہور ہائی کورٹ بھی ایک فیصلہ دے چکی ہے،ندیم کاہلوں کا نام جوڈیشل کمشن کی سفارش کے باجود پارلیمانی کمیٹی نے مسترد کردیاتھا،انہوں نے اس کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا،لاہور ہائی کورٹ نے منیر بھٹی کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں پارلیمانی کمیٹی کا اقدام کالعدم کردیاجس کے بعد حکومت کو ندیم کاہلوں کو لاہور ہائی کورٹ کا جج مقررکرنا پڑا،ان عدالتی فیصلوں کے بعد پارلیمانی کمیٹی اور جوڈیشل کمشن کے درمیان تناؤ پیدا ہوگیاتھااوراعلیٰ عدالتوں میں ججوں کے کئی ایسے بیچ آئے جن پر پارلیمانی کمیٹی نے غور ہی نہیں کیا اوروہ نام 14روز کی آئینی مدت گزرنے کے بعد پارلیمانی کمیٹی سے منظور شدہ تصور کرلئے گئے۔منیر بھٹی کیس اور ندیم کاہلوں کیس میں اعلیٰ عدلیہ نے جو اصول مرتب کئے ہیں بادی النظر میں پارلیمانی کمیٹی کے نئے رولز ان کے منافی ہیں،اس لئے ان کا عدالتی جائزہ لیا جانا خارج ازامکان نہیں۔مختلف ممالک میں ججوں کے تقررکے لئے مختلف طریقہ کارہیں،بعض ممالک میں اس سلسلے میں انتظامیہ یا مقننہ کو وسیع تر اختیارات حاصل ہیں،امریکہ میں سینیٹ کی کمیٹی ججوں کے تقرر کا معاملہ دیکھتی ہے،پاکستان میں وکلاء کی طرف سے مذکورہ عدالتی فیصلوں کے بعد جوڈیشل کمشن پر متعدد بار سوالات اٹھائے گئے،یہ نقطہ نظر رکھنے والے وکلاء کے بقول پارلیمانی کمیٹی کو ربرسٹمپ بنا دیا گیا،پاکستان بارکونسل اس بابت کئی قراردادیں منظور کرچکی ہے جن میں ججوں کے تقررکے حوالے سے پارلیمانی کمیٹی سے فعال اور موثر کردار اداکرنے کا مطالبہ کیا گیا،دوسری طرف جن عدالتی فیصلوں کا اوپر ذکر کیا گیاہے ان کی روشنی میں دیکھا جائے تو پارلیمانی کمیٹی کے نئے رولز اختیارات سے تجاوزاورعدلیہ کی آزادی کے منافی ہیں،ماضی میں 18ویں ترمیم سے قبل ایک ایسا واقعہ ہوچکاہے،لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی طرف سے چیف جسٹس پاکستان کو ججوں کے تقررکے لئے جن لوگوں کے نام بھجوائے گئے،انہیں اس وقت کے گورنر پنجاب سلمان تاثیرنے انٹرویو کے لئے طلب کرلیا،جو لوگ انٹرویو دینے گئے ان تمام کے نام چیف جسٹس پاکستان نے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی مشاورت سے ججوں کی فہرست سے نکال دیئے تھے،اگر اس مثال کو دیکھا جائے تو انتظامیہ کے سامنے کسی جج کا تقرری کے لئے انٹرویو دینابظاہرہمارے ہاں رائج عدلیہ کی آزادی کے اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتا،حتیٰ کہ ماتحت عدالتوں کے ججوں کا تقرر بھی پنجاب پبلک سروس کمشن کی بجائے لاہور ہائی کورٹ خود کرتی ہے۔
بعض حلقوں کی طرف سے کہا جارہاہے کہ پارلیمانی کمیٹی کا رولز میں ترمیم کرناجنرل قمر جاوید باجواہ کی توسیع کے کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا ردعمل ہے، ایسا نہیں ہے،پہلے بتایا جاچکاہے کہ پارلیمانی کمیٹی کے نصف ارکان کا تعلق حزب اختلاف سے ہوتاہے،رولز میں ترمیم کا معاملہ کافی عرصہ سے پارلیمانی کمیٹی میں زیر غور تھا،پارلیمانی کمیٹی نے 25نومبر کو سینیٹر فاروق ایچ نائیک کی سربراہی میں ہونے والے اپنے اجلاس میں یہ رولز جاری کرنے کااصولی فیصلہ کرلیاتھا،اس اجلاس میں وفاقی وزیر علی محمد خان،راجہ پرویز اشرف،سینیٹر جاوید عباسی، اعظم سواتی اور دیگر ارکان موجود تھے جبکہ جنرل قمر جاوید باجواہ کیس کی پہلی سماعت 26نومبرکو ہوئی تھی،جمعہ کے روز پارلیمانی کمیٹی نے جو ترمیمی رولز جاری کئے ان کی اصولی منظوری 25نومبر کو دی جاچکی تھی،اس لئے دونوں معاملوں کو آپس میں جوڑنا درست نہیں۔