چینی ”ڈیپ سیک“ امریکی غلبے کے لئے خطرے کی گھنٹی

عالمی منظر نامہ بدل رہا ہے۔ پہلی جنگ عظیم نے نوآبادیاتی نظام کو کمزور کیا عالمی برطانوی استعمار کمزور ہوا، دوسری جنگ عظیم نے برطانیہ کو عالمی طاقت کے منصب جلیلہ سے فارغ کیا اور امریکہ عالمی منظر پر ابھرا۔امریکہ نے اپنی فنی، تکنیکی اور تنظیمی برتری ثابت کی۔ ایٹم بم کی ہلاکت خیزی سامنے آئی۔ امریکہ نے اپنی جنگی ہلاکت خیزی ثابت کر دکھائی تھی۔ پھر عالمی منظر پر چھاتا ہی گیا۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد خلیجی جنگ میں امریکہ نے اپنی فنی، تکنیکی اور حربی مہارت کا ہوشربا مظاہرہ کیا اور یونی پولر ورلڈ کا چودھری بننے کی کوشش کی لیکن نائن الیون نے امریکی ہیبت اور چودھراہٹ کا پول کھول دیا۔ دوسری جنگ عظیم میں جاپان نے پرل ہاربر پر حملہ کرکے امریکی ہیبت کا پردہ فاش کیا تھا لیکن امریکہ نے ہیروشیما ناگاساقی پر ایٹم بم برسا کر اپنی مصیبت کو گہرا کیا۔ نائن الیون بھی امریکی برتری کے لئے سنجیدہ چیلنج تھا۔ امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف اعلان جنگ کیا اور پھر افغانستان پر چڑھ دوڑا لیکن 20سال تک یہاں مصروف جنگ رہنے کے باوجود وہ طالبان کو شکست نہیں دے سکے۔ بالآخر 2021ء میں امریکی فوجی نکل بھاگے۔ ایسا لگتا ہے جس طرح دوسری جنگ عظیم برطانوی عظمت کے خاتمے کا باعث بنی تھی۔ بالکل اسی طرح افغان جنگ میں شکست، امریکی عالمی چودھراہٹ کے خاتمے کی نوید ہے یہ کوئی تجزیہ یا پیش گوئی نہیں ہے۔
چین نے اپنی مصنوعی ذہانت پر مبنی اپنا چیٹ بوٹ ”ڈیپ سیک“ لانچ کیا ہے جس نے عالمی مارکیٹ میں زلزلے کی کیفیت پیدا کر دی ہے پہلے دن امریکی کمپنیوں کے سرمائے میں 600ارب ڈالر کا گھاٹا ہو گیا۔ امریکی صدر نے اسے امریکی قومی سلامتی کا مسئلہ قرار دیا ہے۔چین بڑی وسعت اور تدریج کے ساتھ شعبہ ہائے زندگی میں آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ امریکہ اپنی چودھراہٹ قائم رکھنے کی کاوشیں کررہا ہے۔ اپنی دھاک بٹھانے اور چودھراہٹ جتانے کے لئے جدوجہد کررہا ہے جبکہ چین سبک رفتاری سے آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے ذریعے چین عالمی تجارت میں اپنا غلبہ ثابت کر چکا ہے۔ ہمارا سی پیک اسی عالمی منصوبے کا حصہ ہے اور ہماری تعمیر و ترقی کا مرکزی کردار بن گیا ہے۔ چین2019ء میں 5جی لالچ کرکے انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں اپنی برتری پہلے بھی ثابت کر چکا ہے۔
امریکہ، سوویت یونین کے خاتمے کے بعد جس وقت دنیا پر یونی پولر نظام قائم کرنے اور خود اس کا سربراہ بننے کی کاوشیں کررہا تھا۔چین اس وقت قدیم شاہراہ ریشم پر تحقیق کررہا تھا اس نے صدیوں پرانی اس عظیم شاہراہ سے متعلق تحقیق شروع کر رکھی تھی گہری تحقیق و تفتیش کا نتیجہ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کی شکل میں سامنے آیا اور چین نے اربوں نہیں کھربوں ڈالر اس منصوبے کی تکمیل کے لئے خرچ کئے اس وقت تین براعظموں کے درجنوں ممالک اس منصوبے کا نہ صرف حصہ ہیں بلکہ اس سے مستفید بھی ہو رہے ہیں۔ اربوں نہیں کھربوں ڈالر کی تجارت ہو رہی ہے۔ لاکھوں روزگار کے مواقع پیدا ہو گئے ہیں۔ پیدائش دولت کے ساتھ ساتھ گردش زر میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اشیاء ضروریہ اور اشیاء صرف کی وسیع اقسام عام انسانوں کی پہنچ میں ہیں۔ چین نے کروڑوں انسانوں کو غربت سے نکال کر اپنے نظام کی حقانیت ثابت کر دی ہے۔
ٹیلی کام انڈسٹری پر امریکی مصنوعات کا راج ہے ہر چھوٹی بڑی پراڈکٹ چین سے آتی ہے۔ بڑی بڑی امریکی ٹیلی کام کمپنیاں بھی اپنی حتمی پراڈکٹس کی تیاری کے لئے چینی مصنوعات پر انحصار کرتی ہیں ہر بڑی چھوٹی پراڈکٹ پر میڈ ان چائنا لکھا ہوتا ہے۔ 4پہیوں والی گاڑیوں / ٹرکوں، بسوں کی عالمی منڈی پر بھی چینی چھائے ہوئے ہیں۔ الیکٹرک وہیکلز کی ابھری ہوئی مارکیٹ پر بھی چینی چھا رہے ہیں۔ لیتھیم پٹریوں کی پیداوار کے حوالے سے بھی چین امریکیوں سے آگے نظر آ رہا ہے۔
مصنوعی ذہانت دور حاضر کی اختراع ہے اور اب ایک بات طے شدہ ہے کہ مصنوعی ذہانت کے شعبے میں جو ملک اپنی برتری ثابت کرے گا وہی عالمی لیڈر ہوگا۔ چین اس شعبے میں پہلے بھی اپنی برتری ظاہر کر چکا ہے۔ اب ڈیپ سیک کی لانچ کے ذریعے چین نے اپنی برتری پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔ آنے والا وقت،مستقبل قریب، چین کا ہے،چینی عظمت کا ہے۔ چین کسی قسم کا شو آف کئے بغیر کسی کو انگیخت کئے بغیر اپنے انداز میں آگے بڑھ رہا ہے۔برطانوی، امریکی و یورپی طرزِ فکر و عمل کے برعکس قوموں کو غلام بنانے اور قوموں کے وسائل چوری کرنے یا ان پر قبضہ کرنے کی بجائے، چین اشتراک عمل پر ہی یقین نہیں رکھتا بلکہ حاصل کردہ فلاح و بہبود میں بھی شراکت کے ماڈل پر عمل پیرا ہے۔ چین پیدائش دولت کے جدید ترین ذرائع کو بروئے کار لا کر مواقع پیدا کرتا ہے،ان مواقع سے نہ صرف خود فائدہ اٹھانے کی کاوشیں کرتا ہے بلکہ دوست اقوام کو بھی اس عمل میں شریک کرتا ہے اس طرح چین بڑی تیزی سے اپنا حلقہ اثر پھیلا رہا ہے اس کے ساتھ جو بھی ملک جڑتا ہے اس کی معاشی تعمیر و ترقی کا عمل وسعت پذیر ہو جاتا ہے۔ باہم شراکت کے اس ماڈل نے چینی معاشی فلسفے کو فروغ دیا ہے۔ چین اپنی کرنسی کے استعمال کو بھی بڑے محتاط انداز میں فروغ دے رہا ہے ڈالر کی بجائے یوآن میں لین دین کی منصوبہ سازی بھی کی جا رہی ہے اور اس رجحان کی حوصلہ افزائی بھی کی جا رہی ہے جس طرح عالمی تجارت، انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت کے شعبے میں چین اپنی برتری ثابت کر چکا ہے بالکل اسی طرح وہ وقت دور نہیں ہے جب چین عالمی زر کی مارکیٹ میں بھی اپنا سکہ جماتا ہوا نظر آئے گا۔
چین کی خارجہ پالیسی،دھونس دھاندلی اور استعماری ہتھکنڈوں پر قائم نہیں ہے اپنا کلچر ایکسپورٹ کرنے میں بھی دلچسپی نہیں رکھتا ہے بلکہ بقائے باہمی کے اصولوں پر تجارت کے ذریعے چین اپنا اثرورسوخ پھیلانے کی پالیسی پر گامزن ہے اسے عالمی سطح پر پذیرائی بھی مل رہی ہے۔ پاکستان چین کے ساتھ سی پیک کی صورت میں بندھ چکا ہے دونوں ممالک کے مفادات مشترک ہوچکے ہیں۔