جماعت اسلامی کے ایک کارکن کی یادداشتیں
جماعت اسلامی کی ملک کے جماعتی نظام میں ایک انفرادیت اس کے لٹریچر سے ہے جس میں اسلام کی بنیادی تعلیمات کی تشریح و توضیح کے ساتھ ساتھ سیاسی جدوجہد بھی موضوع بنتی ہے۔ جماعت کو قائم ہوئے اب ماشاء اللہ 80 برس ہو گئے ہیں جبکہ اس کے سینئر رہنماؤں اور کارکنوں کی یادداشتیں بھی چھپنا شروع ہو گئی ہیں۔ ان کے مطالعے سے خود جماعت میں نئے آنے والوں کا اپنے ماضی کی روایات سے رشتہ قائم رہتا اور جماعتی استحکام کا باعث بنتا ہے۔ حال ہی میں ملتان کے ایک بزرگ کارکن جناب محمد کلیم اکبر صدیقی کی یادداشتوں پر مبنی کتاب ”(واقعاتی) تاریخ جماعت اسلامی پاکستان شائع ہوئی ہے۔ مصنف نے جو اسلوب اختیار کیا ہے اس نے نہ کتاب کو ”تاریخ رہنے دیا ہے، نہ یادداشتیں۔“ تاریخ نگاری کے اصولوں سے واقفیت نہ ہوتے ہوئے بھی انہوں نے اپنے تئیں تاریخ لکھ دی ہے۔ جس میں اپنے مشاہدات اتنے کم بیان کئے ہیں کہ اسے یادداشتوں کی کتاب قرار دینا مشکل ہے۔
کلیم اکبر لکھتے ہیں کہ ان کا خاندان 1947ء میں ضلع حصار سے ہجرت کر کیملتان آیا تھا۔ ان کے والد محمد جمیل صدیقی، ڈاکٹر اسرار احمد کے ساتھ تحریک قیام پاکستان میں شامل رہے تھے۔ دونوں حضرات نے جماعت کا لٹریچر پڑھ لیا تھا لیکن اس میں شامل نہ ہوئے۔ خیال یہ تھا کہ اگر مسلم لیگی قیادت نئے ملک میں نظام اسلام نافذ کرنے سے کوتاہی برتے گی تو پھر جماعت میں شامل ہو کر جدوجہد کریں گے۔ خدشہ درست ثابت ہوا اور آزادی کے بعد مسلم لیگ اقتدار کی بندر بانٹ میں مصروف ہو گئی تو دونوں حضرات جماعت کے دست و بازو بن کر اقامتِ دین کی جدوجہد میں شامل ہو گئے۔ دوسری طرف اسلام اور جمہوریت کی دشمن طاقتیں بھی سرگرم تھیں۔ جن کی پہلی کارروائی تحریک ختم نبوت کے خلاف اس وقت سامنے آئی جب انہوں نے لاہور میں مارشل لاء لگوایا۔ ہزاروں تہ تیغ ہوئے جبکہ لاکھوں حوالہئ زندان، ایک فوجی عدالت نے تو مولانا مودودیؒ کو پھانسی کی سزا تک سنا دی۔ مصنف نے یہ واقعات بڑے اثر انگیز پیرائے میں بیان کئے ہیں خاص طور سے جماعت کی دستوری جدوجہد کو بہت نمایاں کیا گیا ہے۔ 1956ء کے دستور کی تشکیل و تنفیذ بلا شبہ جماعت کی بہت بڑی کامیابی تھی لیکن غیر جمہوری قوتوں کے ہاتھوں وہ دستور جلد ہی تہس نہس ہو گیا۔ فاضل مصنف نے مارشل لاء کے بار بار نفاذ اور اس کے خوفناک نتائج کا ذکر تو بہت کیا ہے لیکن ان اسباب کی نشاندہی نہیں کر سکے جو ملک کو بار بار دستور کی پٹڑی سے اتار دیتے رہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کسی سیاسی جماعت سے طویل دور تک وابستگی کسی کارکن کو اتنا تو با شعور کر دیتی ہے کہ وہ جان سکے کہ وطن عزیز کو کون کون سی قوتیں عدم استحکام سے دو چار کرتی رہی ہیں۔
صدیقی صاحب نے ایوب دور کا غلاف کعبہ سے متعلق ایک واقعے کی تفصیل بھی بیان کی ہے جس میں جماعت اسلامی کا مرکزی کردار تھا لیکن وہ یہ نہیں بتا سکے کہ لاہور میں تیار ہونے والا غلاف، خانہ کعبہ کی زینت کیوں نہ بن سکا۔ راقم الحروف نے علی پور چٹھہ کے ریلوے سٹیشن پر غلاف کعبہ کی نمائش کا جو انداز دیکھا تھا اس کے پیش نظر یہ سمجھنا کچھ مشکل نہ تھا کہ اس غلاف کو حرمِ پاک تک پہنچنا شاید ہی نصیب ہو۔ فاضل مصنف نے جماعت کی تاریخ قاضی حسین احمد کے دورِ امارت تک لکھی ہے، معلوم نہیں وہ یہاں کیوں رک گئے ہیں۔ 1970ء میں جماعت اسلامی کی انتخابی شکست پر مولانا مودودی کے جو تاثرات پیش کئے گئے ہیں ان میں وہ کہتے ہیں ”حق کو نہ ماننے سے حق ناکام نہیں ہوتا بلکہ ناکام نہ ماننے والے ہوتے ہیں“، ہمارے نزدیک یہ نقطہئ نظر درست نہیں کیونکہ مسلم معاشرے میں اگر مختلف پارٹیاں انتخابی میدان میں اترتی ہیں تو اس عمل کو کفر اور اسلام کا معرکہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔
جناب صدیقی نے واقعات کے حوالے سے جماعت کی تاریخ بیان کی ہے لیکن بظاہر بعض مقامات پر ان کا حافظہ ان کا ساتھ نہیں دیتا۔ مثلاً مصنف لکھتے ہیں کہ اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ تسنیم عالم منظر مرحوم دریائے نیلم (آزاد کشمیر) میں ڈوب گئے تو ان کی میت تلاش بسیار کے بعد بھی نہ مل سکی۔ حالانکہ میت مل گئی تھی۔ ایک جگہ تحریک ختم نبوت 1974ء پر لکھتے ہوئے جناب لیاقت بلوچ کو پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کا صدر بتایا ہے حالانکہ اس وقت اس منصب پر جناب ڈاکٹر فرید احمد پراچہ فائز تھے۔ انشاء اور املاء کی غلطیاں بھی بہت ہیں ’غیظ‘ کو ہر جگہ غیض ہی لکھا ہے۔ پروف کی غلطیاں بھی ان گنت ہیں۔ بہتر تھا کہ کتاب پر جماعت کے کسی صاحب قلم سے نظر ثانی کروالی جاتی۔ عنوان کے پہلے لفظ ’واقعاتی‘ کو بریکٹس میں کرنا بھی کچھ عجیب سا لگتا ہے۔ ضروری ہے کہ دوسرے ایڈیشن میں یہ اغلاط درست کرلی جائیں!