میری بیٹی کی تقریبِ نکاح کے مہمان
بیٹی کو کبھی نہ کبھی اپنے گھر سے رخصت کرنا ہی پڑتا ہے۔ایک باپ کے لیے بیٹی کی شادی کا لمحہ دکھ اور سکھ کا امتزاج ہوتا ہے۔میر درد نے شاید اسی لیے کہا تھا:
دلِ صد چاک ہے لبِ خنداں
شادی و غم جہاں میں تَو اَم ہے
دکھ اس بات کا ہوتا ہے کہ جس ننھی کلی کی خوشبو کو وہ سینت سینت کر رکھتا ہے، اسے ایک اجنبی چمن کی جانب روانہ کرتا ہے۔سکھ یہ ہوتا ہے کہ اسے رسم جہاں کے مطابق اپنا جہان رنگ و بو فراہم کرتا ہے۔آج کے زمانے میں ہزاروں لاکھوں غنچے بن کھلے مرجھا جاتے ہیں اور حسرتوں کا مزار بن جاتے ہیں۔وہ والدین خوش قسمت ہوتے ہیں جن کی بیٹیاں ان کی زندگی ہی میں اپنے گھر کی ہو جاتی ہیں۔اگر والدین بیٹیوں کو پڑھا لکھا کر سنگ دل دنیا کا مقابلہ کرنے کے لائق بنا دیتے ہیں تو ان کے آدھے دکھ درد ختم ہو جاتے ہیں۔سو میں نے بھی یہی کیا۔ہر باپ کی طرح اپنی بیٹی اجالا کی اچھی تربیت کی۔بہترین ادارے میں بہترین تعلیم دلوائی۔یہی تربیت اس کا زیور ہے۔شاعر نے تبھی تو کہا تھا: نہیں محتاج زیور کا جسے خوبی خدا نے دی۔
25 مئی 2024ء کی سہ پہر میری بیٹی اجالا کا نکاح مسجد داتا گنج بخش کے خطیب علامہ مقصوداحمد قادری کے پڑھے لکھے داماد علامہ تجویدالدین قادری صاحب نے ایک ایسے خاندان کے سپوت طہٰ صنان سے پڑھایا جس کے ہر فرد کے پاس جوہری کی آنکھ ہے۔جوہر کی قدر ایک جوہری ہی کر سکتا ہے۔نکاح دو لوگوں نہیں، دو خاندانوں کے درمیان ایک نیا تعلق ہوتا ہے جس کی بنیاد اعتماد اور باہمی عزت و احترام پر قائم ہوتی ہے۔اس نکاح سے میرے خاندان کا تعلق ایک ایسے خاندان سے استوار ہوا ہے جس کے لوگ میرے ہی جیسے ہیں یعنی کھرے، سچے، بے ساختہ،انسان دوست، تصنع سے عاری، ہمدرد اور اپنے ماضی کو ہر لمحہ یاد رکھنے والے۔یہ وہ صفات ہیں جو آج ناپید ہوتی جا رہی ہیں۔
نکاح کی اس مختصر لیکن شان دار تقریب میں جہاں دونوں خاندانوں کے چیدہ چیدہ افراد شریک ہوئے وہاں میرے کچھ ایسے احباب بھی میری دعوت پر تشریف لائے جن سے میرا برسوں سے محبت اور احترام کا تعلق ہے۔اگرچہ میرا حلقہء_ احباب بہت وسیع ہے لیکن اس مختصر تقریب میں گنے چنے احباب ہی کو مدعو کر سکا۔اس تحریر کو اظہار تشکر کی ایک شکل سمجھیے۔مجیب الرحمن شامی صاحب میرے وہ بزرگ ہیں جنھوں نے میری شخصیت سازی کی۔رشتے نبھانا اگر ایک فن ہے تو شامی صاحب اس فن میں طاق ہیں۔ایک بار کسی سے تعلق جوڑ لیں تو کبھی ٹوٹنے نہیں دیتے۔عطاالحق قاسمی صاحب لاہور کی واحد ادبی شخصیت ہے جو ہر آدمی کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔کسی زمانے میں لاہور آنے والا ہر ادیب احمد ندیم قاسمی سے ملنا فرض سمجھتا تھا، آج لاہور آنے والا ہر ادیب عطاالحق قاسمی صاحب سے ملاقات کو مقدم جانتا ہے۔قاسمی صاحب آج سب سے بڑے کالم نگار ہیں۔ہم سب ان کی پیروی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔وہ بیماری کے باوجود اس ہال میں پہنچے جو ہوٹل کے پانچویں فلور پر تھا۔”اخوت“ کے بانی ڈاکٹر امجد ثاقب صاحب سے میرا نیازمندانہ رشتہ، بیس برسوں پر محیط ہے۔میں ان کا مداح ہوں اور وہ میرے محسن ہیں۔اگر آج آپ نفاست، شائستگی، احترام آدمیت، دیانت، لیاقت اور دردمندی کی مٹی سے بنا کوئی آدمی دیکھنا چاہتے ہیں امجد ثاقب صاحب کو دیکھ لیجیے۔ شعیب بن عزیز صاحب بڑے بڑے عہدوں پر رہے۔غزل کے نہایت عمدہ شاعر ہیں۔ان کے پاس بیٹھنے والا ہر آدمی خود کو بڑا محسوس کرنے لگتا ہے۔ خالد شریف صاحب بھی شعیب صاحب والی ساری صفات اپنے اندر رکھتے ہیں۔عجز و انکسار کا پیکر، دوستوں کے دوست اور اپنے رنگ اور ڈھب کی غزل کہتے ہیں۔قاسم علی شاہ کو اللہ تعالی' نے جوانی ہی میں بزرگانہ شان عطا کر دی ہے۔وہ نوجوانوں کو زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جینا سکھاتے ہیں۔نیلم احمد بشیر کی عمر اور مقام و مرتبہ مجھ سے بہت زیادہ ہے لیکن ان کی شخصیت کی خاص بات یہ ہے کہ وہ ہر چھوٹے بڑے سے دوستانہ تعلق رکھتی ہیں۔خوش مزاج ایسی کہ جہاں بیٹھ جائیں وہاں قہقہوں کی برسات ہونے لگتی ہے۔سہیل احمد کو میں بڑا فن کار اور بڑا آدمی کہتا ہوں۔وہ فن کی جس بلندی پر پہنچ چکے ہیں وہاں سے مجھ ایسے کم مقام لوگ کسی کو کم ہی دکھائی دیتے ہیں۔ان کی مہربانی کہ وہ تشریف لے آئے۔ میرے دوست طاہر سرور میر شوبز کا چلتا پھرتا انسائیکلو پیڈیا ہیں۔ان سے میرا تعلق ساڑھے تین دہائیوں پر مشتمل ہے۔پی۔ٹی۔وی کی پہچان سید محسن جعفر سے بھی کچھ ایسا ہی رشتہ ہے۔محسن جعفر ایک کھرے اور دردمند انسان ہیں۔ راشد محمود کو میں فن اداکاری کا زندہ پیر سمجھتا ہوں۔بچوں میں بچہ اور بزرگوں میں بزرگ بن جاتے ہیں۔آج بھی لاہور کی ادبی اور ثقافتی منظرنامے کی پہچان بنے ہوئے ہیں۔اداکار نورالحسن کے اندر کا صوفی مجھے ان کی جوانی ہی میں نظر آ گیا تھا۔اشفاق احمد کی جیسی پیروی نورالحسن نے کی ہے شاید ان کی اپنی اولاد بھی نہیں کر پائی۔کارٹونسٹ جاوید اقبال میرے دوست بھی ہیں لیکن میں نے انھیں ہمیشہ اپنا بزرگ سمجھا ہے۔جب ہم لاہور میں نئے نئے آئے تھے، جاوید اقبال صاحب لاہور کیا پورا پاکستان فتح کر چکے تھے۔حسیب پاشا المعروف ہامون جادوگر میرے ان دوستوں میں شامل ہیں جو میرے گھر کے رکن بن چکے ہیں۔تعلق نبھانے کا فن انھوں نے شعیب بن عزیز صاحب سے سیکھا ہے اور اب مجھے بھی سکھا رہے ہیں۔ڈاکٹر سعید الٰہی وزیر صحت رہے، انجمن ہلال احمر پاکستان کے چیئرمین رہے۔ میرے بڑے بھائی ہیں۔انھیں میں نے ہر دم رواں اور سرگرم عمل دیکھا ہے۔دوستوں کے درمیان وجہ دوستی ہیں۔"جیو نیوز" کے پروگرام "خبرناک" سے مشہور ہونے والے علی میر روپ بدلنے کے ماہر ہیں لیکن مجھے ان کا اصلی چہرہ اتنا اچھا لگا کہ اب وہ ہمیشہ میرے دل میں رہتے ہیں۔آر سی ڈی پی کے چیئرمین جناب محمد مرتضیٰ کھوکھر میرے سینئر دوست امجد ثاقب صاحب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دیہی علاقوں میں رہنے والے غریب لیکن غیرت مند اور محنتی لوگوں کی دست گیری کرتے ہیں۔ان سے میرے تعلق کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا لیکن لگتا ہے کہ ہم برسوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔میرے دیرینہ دوست مقبول احمد چوہان (اے۔جی۔آفس) سید علی بخاری(ہمدرد والے) علی نواز شاہ(فکشن رائٹر) عبدالغفور (گورنر ہاؤس) آغامحمدالحسن لودھی(شاعر، سیاست دان)طاہر یوسف(دی ٹرسٹ سکول والے)غفار لہری (ون مین شو فیم)لبنی' بابر(فاونٹین ہاوس) رمیز چشتی(سیاسی کارکن)شہباز خان (شیخوپورہ) عزیراحمد (شاعر،کالم نگار) کے ساتھ ساتھ میرے برادر خورد عامربشیر راٹھور، طاہر بشیر راٹھور، واجدبشیر نادر بھی اس تقریب میں اپنی دعاؤں کے ساتھ شریک ہوئے۔ یہاں ایک اَن ہونی بھی ہوئی۔ جس ہوٹل میں یہ تقریب ہوئی اس کے مالک اور ایم۔ڈی جناب عرفان دولتانہ بھی نہ صرف یہ کہ تشریف لائے بلکہ رسم نبھانے کے لیے انھوں نے مجھے ایک لفافہ بھی عطا کیا۔اس سے پہلے کہ ہوٹل کا لمبا چوڑا بل دیکھ کر میں بلبلانے لگتا،انھوں نے بغیر کہے اچھی خاصی رعایت دے کر حق حلال کی روزی کمانے والے ایک سفید پوش باپ کی مشکل آسان کر دی۔دولتانہ صاحب کی وضع داری مجھے ہمیشہ یاد رہے گی۔