پاک پتن تے آن کھلوتی
پاک پتن سے بلاوا آیا تو مَیں نے فوراً آنے کی ہامی بھر لی۔ دِل مدت سے اِس بلاوے کا منتظر تھا۔ بلاوا حضرت بابا فرید مسعود گنج شکرؒ کا تھا، لیکن وسیلہ میرے نہایت معزز و محترم بزرگ کرم علی کیفی بنے تھے۔ جن کا خاندان صدیوں سے حضرت بابا فرید مسعود گنج شکرؒ کی رحمتوں اور برکتوں کے سائے میں جی رہا ہے۔کیفی صاحب سے میری پہلی ملاقات لاہور کی ایک تقریب میں ہوئی تھی،جو میرے ایک دوست نے ان کے اعزاز میں منعقد کی تھی،اس کے بعد وہ بار بار لاہور آنے لگے۔ دوست احباب ان کے لیے شعری نشستیں برپا کرتے۔ ادبی محفلوں کا اہتمام کرتے۔ اتفاق دیکھیے کہ تقریباً تمام تقریبات میں مجھے بھی شرکت کا موقع ملا۔ مَیں کیفی صاحب کو جب بھی دیکھتا تو مجھے اُن پر کسی بابے کا گمان گزرتا وہ بابا جو کسی کو کچھ دیتا ہے، مانگتا کچھ بھی نہیں۔ کیفی صاحب بھی بابا فرید مسعود گنج شکر ؒ کے شہر میں رہتے رہتے میٹھے اور رسیلے ہو گئے ہیں۔ اپنے اردگرد چاہنے والوں کا ایک جمگھٹا لگائے رکھتے ہیں۔ انہوں نے نہ جانے کیسے بھانپ لیا کہ میرے دِل میں پاک پتن شریف آنے کی تڑپ پنپ رہی ہے۔چنانچہ ایک دن انھوں نے فون کیا اور بتایا کہ یہاں کے کچھ شاعر دوستوں نے ادب قبیلہ کے نام سے ایک تنظیم بنا رکھی ہے۔مجھے ان دِنوں اس قبیلے کی سربراہی دی گئی ہے۔ ہمارے شاعر دوست آپ کا کلام آپ کی زبانی سننے کے آرزو مند ہیں۔اتنی عمدہ پیش کش کو کون رد کر سکتا تھا۔ سو مَیں نے رخت ِ سفر باندھ لیا۔قصور، کھڈیاں، الٰہ آباد، حجرہ شاہ مقیم اور دیپالپور سے ہوتے ہوئے بابا فریدؒ کی نگری میں جا پہنچا۔ مجھے ہر نئی منزل کا سفر نیا مزہ دیتا ہے۔اور یہ مزہ تب دوبالا ہو جاتا ہے جب میرے اہل ِ خانہ بھی اس میں شامل ہو جائیں۔سو اِس بار بھی ایسا ہی ہُوا۔
پاک پتن پہنچ کر کیفی صاحب سے رابطہ ہوا تو وہ اپنے بیٹے کے ساتھ مجھے ”وصول“ کرنے کے لیے آن پہنچے۔تب میری کار میں ملکہ ترنم نور جہاں کا گایا ہوا یہ فلمی گیت چل رہا تھا:
پاک پتن تے آن کھلوتی، بیڑی میری بنے لا
مَیں نے بھوک، پیاس اور تھکن کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سب سے پہلے حضرت بابا فریدؒ مسعود گنج شکر کے دربار پر حاضری دی۔وہاں سے اجازت پا کر کیفی صاحب کے دولت خانے پر پہنچا۔
پاک پتن کی بلدیہ نے ازراہِ ادب نوازی اپنا ایک آڈیٹوریم ادب قبلہ کے حوالے کر رکھا ہے جسے مقامی ادیبوں شاعروں اور دانش وروں کی دیدہ زیب تصویروں سے آراستہ کیا گیا ہے۔ زیادہ تصویریں چونکہ شاعروں کی تھیں،اس لیے ہر تصویر کے نیچے شاعر کا ایک نمائندہ شعر بھی دیا گیا تھا۔اس آڈیٹوریم کو شریف ساجد ہال کا نام دیا گیا ہے۔ شریف ساجد صاحب استادِ سخن ہیں۔اس شہر میں انھوں نے ادب کی شمع روشن کر رکھی ہے۔پیرانہ سالی کے باوجود وہ اس شمع کو بجھنے نہیں دیتے۔پاک پتن کے معتبر، البیلے اور انوکھے شاعر یونس فریدی بھی ادب قبیلہ کے صدر رہ چکے ہیں۔مَیں شریف ساجد ہال کے باہر پہنچا تو کئی شاعر دوست، پھولوں کی پتیوں سے بھری پلیٹیں لیے کھڑے تھے۔ ظاہر ہے کہ یہ سارا تردّد انھوں نے اپنے مہمان شاعر کے لیے کر رکھا تھا۔
مشاعرے کی نظامت کا قرعہ نوجوان شاعر اور ڈاکٹر اظہر کمال کے شاگرد یاسر رضا آصف کے نام نکلا۔مشاعرے کے آغاز میں میرے بارے میں بہت سے تعریفی اور توصیفی کلمات کہے گئے جن میں سے مجھے ایک بھی یاد نہیں۔ بس اتنا یاد ہے کہ یہ کلمات محبت کے شہد میں لتھڑے ہوئے تھے۔ مشاعرہ رات کے نو بجے شروع ہُوا اور رات کے تقریباً تین بجے ختم ہوا۔جن شاعروں نے کلام سنایا ان میں رانا نصیر، زکریا اسلم، امن علی امن،سیف علی سیف، مظہر ہمدوش، بی اے وٹو، راشد انصر، محمود الحسن، نوید عاجز، ایوب اختر، ظفر رشید یاسر، تائب نظامی، امبر زیدی، اظہر کمال، موج دین فریدی، یونس فریدی، شریف ساجد، ندیم فاروق، شیر افگن جوہر، سید طاہر، مرتضیٰ ساجد، عدیم عباس قریشی اور کرم علی کیفی کے نام شامل ہیں۔
پاک پتن کے شاعروں کی کشادہ دلی دیکھیے کہ جب مَیں نے اپنا کلام سنانے کے بعد یہ کہا کہ اگر اس شہر کے شاعروں کو کسی استاد شاعر کی تھوڑی سی توجہ اور راہ نمائی میسر آ جائے تو فنی جوہر مزید نکھر کر سامنے آ سکتا ہے تو تمام شاعروں نے کہا کہ ہم ابھی اور اِسی وقت آپ سے فنی معاملات پر مکالمہ کرنا چاہتے ہیں تو مَیں نے بسر و چشم قبول کیا۔ بہت سے سوالات کیے گئے۔ جن کے جوابات مَیں نے اپنی فہم کے مطابق دیے اور وہ خوش دلی سے قبول بھی کیے گئے۔آخر میں فیصلہ ہُوا کہ پاک پتن کا ادب قبیلہ اگلے دو مہینوں کے اندر اندر مجھے ایک بار پھر دعوت دے گا۔ہر شاعر اپنی شاعری میرے سامنے رکھے گا۔مَیں نے وعدہ کیا کہ آپ جب بھی بلائیں گے مَیں ضرور حاضر ہوں گا۔
مشاعرہ گاہ سے نکلتے نکلتے صبح کے چار بج گئے۔مَیں اپنے بیٹے جواد اور اپنے میزبان کرم علی کیفی صاحب کو لے کر شہر کی سیر کے لیے نکل کھڑا ہوا۔شام کو شہر ہنگامہ خیزی کی ایک تصویر تھا،اس وقت سارا شہر سویا ہوا تھا اور شاعر جاگ رہے تھے۔اور شاعر کو جاگنا بھی چاہیے۔ میری ہی غزل کا ایک شعر ہے:
حالی و اکبر و اقبال و ظفر جاگتے ہیں
لوگ سو جائیں تو پھر اہلِ نظر جاگتے ہیں
یہاں یہ وضاحت کرتا چلوں کہ ظفر سے مراد ظفر علی خان ہے۔نیند سے بھری آنکھوں کے ساتھ ہم تینوں نے ایک بار پھر حضرت بابا فریدؒ کے دربار کی طرف دیکھا اور شب بسری کے لیے شبستان میں جا پہنچے۔میرا ایک اور شعر پڑھ لیجیے:
اس وقت ستاتی ہے ہمیں نیند کی دیوی
جب ایک ستارا بھی فلک پر نہیں رہتا
یہاں یہ بات لائق ذکر ہے کہ پروفیسر ڈاکٹر رحمت شاد صاحب میرا کلام سننے کے لیے رات کے تین بجے تک مشاعرہ گاہ میں موجود رہے۔ ڈاکٹر صاحب کو دراصل ایک نسبت کھینچ لائی تھی۔ انھوں نے ڈاکٹر اختر شمار کی نگرانی میں شاعری میں میرے استاد گرامی ڈاکٹر بیدل حیدری پر ایم فل کیا ہے، جس میں میرا ذکر بھی بطورِ خاص کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر شاد اِن دِنوں پاک پتن کے ایک سرکاری کالج کے پرنسپل ہیں۔