گرینڈ اپوزیشن الائنس اور حکومتی رویے

سیاسی معاملات بہتری کی طرف گامزن نظر نہیں آ رہے، ہمارے حکمران پرانے ہیں،تجربہ کار، منجھے ہوئے اور جہاندیدہ بھی ہیں۔پیپلزپارٹی، ن لیگ اور دیگر اتحادی جماعتیں سب تجربہ کار ہیں انہیں پولیٹیکل ڈائینا مکس کا پتہ ہے، علم ہے۔ دوسری طرف اپوزیشن میں شامل جماعتیں بھی تجربہ کار ہیں،رہنما جہاندیدہ ہیں انہیں بھی پاور پالیٹکس کے اسرار و رموز کا پتہ ہے وہ حکمرانی کے ڈائنامکس بھی جانتے ہیں اس وقت ہماری ساری قومی قیادت، چاہے حکومت میں بیٹھی ہے یا اپوزیشن میں ہے۔ سب حکمرانی کا تجربہ کر چکے ہیں۔ کسی نہ کسی سطح پر وہ اقتدار کے مزے لوٹ چکے ہیں۔ حکمران، موجودہ حکمران، اپوزیشن کے ساتھ جو کچھ کررہے ہیں یہ کوئی نیا نہیں ہے۔ اپوزیشن کو سب پتہ ہے کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے، کون کررہا ہے اور کیوں کررہا ہے، کیونکہ یہی اپوزیشن جب اقتدار میں تھی۔ پی ٹی آئی ہو یا شاہد خاقان عباسی، تو وہ بھی اس وقت کی اپوزیشن کے ساتھ ایسا ہی کچھ کرتی تھی۔ آج کی اپوزیشن،گزشتہ کل کی حکمران تھی اور آج کی حکمران، گزرے کل میں اپوزیشن تھی۔ شاہد خاقان عباسی 2018ء کے انتخابات کے بارے میں جو کچھ کہتے تھے آج عمران خان ویسا ہی کچھ 2024ء کے انتخابات کے بارے میں کہتے ہیں۔ حالات کی ستم گری دیکھئے کہ آج خاقان عباسی،عمران خان پارٹی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ 2018ء کی دھاندلی سے فائدہ عمران خان نے اٹھایا تھا وہ آج 2024ء کے انتخابات کے بارے میں ویسی ہی باتیں کر رہے ہیں جیسی 2018ء کے انتخابات کے بارے میں شاہد خاقان عباسی کیا کرتے تھے دونوں کو پتہ ہے کہ حقیقت کیا ہے جو حقیقت 2018ء میں تھی وہی 2024ء میں بھی تھی۔ ریاست و حکومت کے تمام ستون ویسے ہی ہیں،وہیں پر موجود ہیں، صرف ان ستونوں پر براجمان افراد کے نام بدلے گئے ہیں، باقی سب کچھ ویسا ہی ہے۔ سوائے ایک شے کے اور وہ ہے معلومات کی بھرمار، حقائق تک رسائی۔
پہلے عام لوگوں تک معلومات کی رسائی اتنی عام نہیں تھی، معلومات کے ذرائع بھی محدود تھے اس لئے عمومی حالات کے بارے میں عام لوگوں کا شعور اتنا بلند نہیں تھا لیکن آج اس حوالے سے حالات مکمل طور پر بدل چکے ہیں۔آج کل خبر، واقع مکمل ہونے سے پہلے ہی چار سو پھیل چکی ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا نے انقلاب برپا کر دیا ہے اس انقلاب میں سچ و جھوٹ کی پہچان بھی مشکل بنا دی ہے، تاثر نے حقیقت کی جگہ لینا شرو ع کر دی ہے۔ معاملات بہتر نہیں ہیں، بہتری کی طرف نہیں جا رہے، عمران خان قومی سیاست کا ایک اہم فیکٹر ہے اس نے اپنے باغیانہ بیانیے کے باعث عوام کی ایک معقول تعداد کو اپنا ہمنوا بنا لیا ہے۔ سوشل میڈیا کے موثر استعمال نے اس کی طاقت میں تاثیر بھی پیدا کر دی ہے۔ 1996ء میں پی ٹی آئی کے قیام سے لے کر 2018ء میں اقتدار ملنے اور پھر 2022ء میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے رخصتی اور اس کے بعد اب تک عمران خان منفی سیاست کاایک استعارہ بنے ہوئے ہیں۔ 2022ء میں عمران خان اور اس کی پارٹی عوام میں پذیرائی کے اعتبار سے پست ترین سطح تک پہنچے ہوئے تھے اپنے 44ماہی دورِ حکمرانی میں انہوں نے جس طرح کی گورننس کا مظاہرہ کیا اس نے عوام میں نفرت پیدا کی اگر اس وقت عام انتخابات کا اعلان کر دیا جاتا تو پی ٹی آئی سیاسی موت کا شکار ہو جاتی لیکن ہمارے سیاستدانوں اور مقتدرہ نے وہ موقع ضائع کر دیا۔ پھر الیکشن 2024ء میں پی ٹی آئی اور عمران خان پر حساب کا شکنجہ فٹ ہونے کے باوجود، عوام کی بھاری تعداد نے پی ٹی آئی کے امیدواروں کو ڈھونڈھونڈ کر ووٹ دیئے۔ اس وقت پی ٹی آئی کے پاس انتخابی نشان بھی نہیں تھا اور عمران خان بھی جیل میں تھا اس کے باوجود پی ٹی آئی کے نامزد کردہ امیدواروں نے بھاری تعداد میں ووٹ حاصل کئے یہ الگ بات ہے کہ پی ٹی آئی اپنی حماقتوں کے باعث اپنی پاپولرٹی اور پاپولر ووٹ کو الیکٹورل ووٹوں میں تبدیل نہ کر سکی اور ایک بار پھر احتجاجی سیاست کرنے لگی۔ ایک سال کے دوران پی ٹی آئی نے چھ احتجاجی کالیں دیں۔ حکومت نے بڑی تندہی کے ساتھ بڑی مہارت کے ساتھ ان کالوں کو ناکام بنایا۔ پی ٹی آئی کی کوئی کال منزل مقصود نہ دیکھ سکی۔ ہر شو فلاپ ہوا۔ یہاں تک تو بات درست سہی لیکن ریاست کو اس کی بھاری قیمت چکانا پڑی۔ عوام کو لاء اینڈ آرڈر کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ حکومت کے اربوں روپے اس کارِلاحاصل پر اٹھ گئے۔ حکومت نے اپنی طاقت کامظاہرہ تو کرلیا کسی نہ کسی طریقے سے اپنی رٹ منوا بھی لی اور قائم بھی کر دکھائی لیکن کس قیمت پر؟ عوام کا جاری نظام پر اعتماد کم ہوا۔ عمران خان کے حکومت کے غیر نمائندہ ہونے کے بیانیے کو تقویت ملی۔ حکومت کے طاقت کے استعمال سے جبر اور قہر کی حکمرانی کا تاثر قائم ہوا۔ اجتماع اور مظاہرہ ہر جمہوری نظام میں کسی بھی شخص یا سیاسی جماعت کا تسلیم شدہ حق ہوتا ہے۔ حکومت اگر اپنے آپ کو عوام کا نمائندہ کہتی ہے تو اسے اس کا اظہار بھی کرنا چاہیے لیکن اپوزیشن پر قدغنیں لگا کر، پولیس کا استعمال کرکے، پکڑ دھکڑ کے ذریعے عمران خان پارٹی کا اجتماع کرنے یا مظاہرہ کرنے کا حق سلب کر کے حکومت نے نیک نامی نہیں کمائی۔ حکومت اگر انہیں مظاہرہ کرنے دیتی، اجتماع کرنے دیتی تو ان کی ناکامی بہتر طور پر عیاں ہوتی۔ ماہرین اور تجزیہ نگاروں کے مطابق پی ٹی آئی تنظیمی طور پر کمزور ہو چکی ہے، بکھر چکی ہے، اس کی قیادت روپوش ہو چکی ہے اس لئے کوئی کامیاب شو ان کے بس میں نہیں ہے۔ پی ٹی آئی، آخری بال اور آخری کال دے کر بھی دیکھ چکی ہے۔ پنکی پیرنی بھی پی ٹی آئی کے ورکروں کو فعال کرنے اور کال پر باہر نکالنے میں ناکام ہو چکی ہے ایسے میں ان کے مظاہروں پر قدغن لگانا دراصل ان کی ناکامی پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہے۔ گزشتہ دنوں اپوزیشن کی قومی کانفرنس کی کال پر جس طرح حکومت نے اسلام آباد کے ہوٹلوں پر دباؤ ڈالا اور ہوٹل انتظامیہ نے ان کی بکنگ کینسل کی وہ شرمناک بات ہے۔ اپوزیشن کے لیڈر مل بیٹھنا چاہتے تھے وہ ملتے بیٹھتے، بات چیت کرتے، اعلامیہ جاری ہوتا۔ خبر نشر ہوتی اور یہ جا وہ جا۔ لیکن حکومت نے جس طرح ان کے اکٹھ کو روکنے کی کاوشیں کیں اس سے اکٹھ کی ایک چھوٹی خبر، قومی سطح کی خبر بن گئی۔
حکمرانوں کے ایسے ہی فیصلوں نے پی ٹی آئی کے مردہ تن بدن میں جان ڈالی تھی۔ عمران خان کی 44ماہی کارکردگی نے نہ صرف پاکستان کے عوام کو بلکہ پی ٹی آئی کے فالورز کو بھی انتہائی مایوس کیا تھا۔ پی ٹی آئی کے ایم این ایز اور ایم پی ایز اپنے حلقوں میں جانے اور ووٹرز کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے لیکن حکومت کی پی ٹی آئی کو دبانے اور مٹانے کی پالیسیوں نے اسے ایک بار زندہ کر دیا۔ اب پی ٹی آئی ایک بار پھر دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر گرینڈ اپوزیشن الائنس ترتیب دینے جا رہی ہے وہ شاید اس میں کامیابی حاصل نہ کر سکے لیکن حکومت جس طرح اس کے ساتھ غیر جمہوری رویہ اختیار کررہی ہے اس سے لگتا ہے کہ پی ٹی آئی گرینڈ اپوزیشن الائنس بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔