پی ٹی آئی،ہائی جیک ہو گئی؟

   پی ٹی آئی،ہائی جیک ہو گئی؟
   پی ٹی آئی،ہائی جیک ہو گئی؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سینئر شہریوں یا بوڑھے افراد کا بھی عجیب سلسلہ ہوتا ہے۔ جب بھی ان کی چلتی زندگی میں کوئی نیا واقعہ ہوتو ان کو گزری عمر یا وقت کا کوئی اور سلسلہ یاد آ جاتا ہے، میں بھی اب زندگی کے ایسے حصے میں ہوں جہاں ہر روز ایسا ہی ہوتا ہے، عمر کی چھ دہائیوں سے بھی چند سال زیادہ پیشہ صحافت سے وابستگی ہے اور اللہ کے کرم سے اب بھی ماضی یاد ہے اور اسی کی ذات باری کے طفیل تا حال ذہنی ورزش اور تحریری سلسلہ جاری ہے۔تازہ ترین بات یہ ہے کہ اسلام آباد میں اپوزیشن نے قومی کانفرنس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا۔ معمول کے مطابق  انتظامیہ نے ایسے موقع پر جب بقول اس کے معزز مہمانوں کی آمد اور سرمایہ کاری کے حوالے سے کئی وفود شہر اقتدار میں موجود تھے وہ کسی ایسی سیاسی کانفرنس کی اجازت نہیں دے سکتے جس سے ماحول میں کشیدگی محسوس ہو، اب یہ دعویٰ تو اپوزیشن کا ہے کہ انتظامیہ یہ بھی گوارا نہیں کرتی کہ چند لوگ مل بیٹھ کر بات ہی کرلیں، چنانچہ ہوٹلوں کی بکنگ کینسل کرا دی گئی اور دوسرے روز تو ہوٹل ہی بندکرا دیا گیا۔ اپوزیشن کے مطابق مرکزی راہنما گیٹ پھلانگ کر اندر داخل ہوئے اور ہوٹل کی لابی ہی میں تقریریں کیں۔

اس تازہ ترین وقوعے کے بارے میں بعد میں بات کرتا ہوں، پہلے یہ بتا دوں کہ اس سے مجھے جنرل ضیاء الحق کا دور اور پیپلزپارٹی کی جدوجہد یاد آ گئی جس کے ساتھ ایک اسی طرح کا حادثہ جڑا ہوا ہے۔ خبروں کے مطابق یہاں تو پولیس اور رینجرز کے لوگ موجود تھے مگر انہوں نے کسی کو نہیں روکا، لیکن ضیائی دور میں یہ ممکن ہی نہیں تھا، یہ ان دنوں کی بات ہے جب بیگم نصرت بھٹو، اپنے سر کے تاج ذوالفقار علی بھٹو کی حراست کے خلاف اور ان کی رہائی کے لئے تحریک کی کوشش کررہی تھیں، پارٹی والوں کو کارکنوں کا اجلاس بھی منعقد نہیں کرنے دیا جاتا تھا، اس کے لئے بھی کوئی مخصوص جگہ ڈھونڈ کر کارکنوں تک اطلاع پہنچائی جاتی کہ وہاں آ جائیں اور وہ خفیہ طور پر وہاں پہنچنے کی کوشش کرتے، ایسے ہی ایک روز اطلاع ملی کہ گلبرگ(3)کی ایک کوٹھی میں اجلاس ہوگا جس میں بیگم نصرت بھٹو شریک ہوں گی۔ بیٹ میری تھی اس لئے کوریج کے لئے جانا ہوا تو متعلقہ کوٹھی والی سڑک کے تمام کونوں پر پولیس کے جوان کھڑے تھے اور راستہ بند کیا ہوا تھا، میں نے اپنی شناخت کے بعد اجازت چاہی تو ایک اے ایس آئی نے ہنس کر کہا آپ کو تو بالکل اجازت نہیں، ہلکی  پھلکی تکرار جاری تھی کہ اتنے میں ملک معراج خالد ٹہلتے ہوئے چلے آئے۔ سلام دعا کے بعد ان کی وساطت سے کوٹھی تک پہنچا تو یہاں گیٹ بند اور باہر پولیس کی نفری تھی، ملک معراج خالد کو بھی روک لیا گیا۔ پولیس والوں سے تکرارہوئی وہ مان نہیں رہے تھے۔ گھر کے اندر کافی کارکن جمع اور نعرے لگا رہے تھے، ہماری بات چیت چل رہی تھی کہ ہلچل مچ گئی اور دو تین کاریں نمودار ہوئیں۔ ایک میں خود بیگم نصرت بھٹو تھیں وہ باہر نکلیں ان کو روکنے کی کوشش کی گئی تو وہ برہم ہو گئیں، چنانچہ کارکنوں اور پارٹی اکابرین کی مداخلت پر دروازہ کھل گیا اور یہ قافلہ اندر چلا گیا۔ بیگم نصرت  بھٹو نے کارکنوں کو حوصلہ دیا، تاہم اس عرصہ میں ان کی نظر بندی کے احکام آگئے اور ان کو اسی گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔ کارکن گرفتار ہوئے اور میرے سمیت جو ایک دو رپورٹر تھے وہ بمشکل بحث کے بعد واپس دفاتر آئے اور خبریں فائل کیں۔

یہ اس لئے عرض کیا کہ اسلام آباد میں جو ہوا وہ کوئی انوکھا قصہ نہیں یہ تو خوش نصیب لوگ ہیں کہ گیٹ پھلانگ کر داخل ہوئے اور سخت خطاب بھی کیا جس کی کوریج بھی ہوئی۔ ضیاء دور میں تو ایسا بھی نہیں ہوتا تھا، بہرحال فیلڈ مارشل کے پوتے عمر ایوب نے دعویٰ کیاکہ کانفرنس کرلی، کامیاب ہو گئی، اب حکومت جائے اور نئے انتخابات کرائے۔ اس حد تک تو اسے کامیاب کہا جا سکتا ہے کہ وہاں عبدالغفور حیدری، لیاقت بلوچ، سردار مہتاب عباسی، شاہد خاقان عباسی، مصطفی نواز اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل بھی موجود تھے، تاہم اس کامیابی سے جو تاثر ابھرا اور ایک سیانے نے جو کہا مجھے تو وہی درست محسوس ہو رہا ہے بلکہ اگر فیصل واؤڈا کی بات پر کان دھرے جائیں تو یہی درست محسوس ہوگا کہ پی ٹی آئی کی آزاد قیادت کمپرومائزڈ ہے۔ ذرا غور کیا جائے تو صورت حال کچھ یوں نظر آتی ہے کہ تحریک انصاف کو جو ملک کی سب سے بڑی جماعت ہونے کی دعویدار ہے، افراد نے ناک آؤٹ کر دیا اور اب اس کی جگہ متحدہ اپوزیشن کے نام پر شاہد خاقان عباسی اور مصطفی نواز اس اپوزیشن کو لے کر چل رہے اور پی ٹی آئی پچھلے صفوں میں ہے،بلکہ تحریک تحفظ آئین کے سربراہ اور قوم پرست محمود اچکزئی بھی اب پچھلی صفوں میں نظر آتے ہیں اور اب ترجمانی کے فرائض بھی شاہد خاقان عباسی ہی ادا کر رہے ہیں ان کی موجودگی میں سلمان اکرم راجہ تو کجا عمر ایوب بھی دب جاتے ہیں اور اچکزئی صاحب تو پیچھے نظر آتے ان کو آواز دے کر بلایا جاتا ہے۔

قارئین! بہت معذرت کے ساتھ اب ایک اور حقیقت کی نشاندہی پر مجبور ہوں کہ شاہد خاقان عباسی قابل تعریف ہیں کہ مسلم لیگ (ن) اور حالات سے افسردہ اور ناراض ہو کر بائیں طرف والی باتیں کرنے لگے اگرچہ محمد نوازشریف کو اب بھی لیڈر مانتے ہیں۔ قارئین! ذرا ذہن پر زور دیں تو آپ کو ماضی قریب میں نظر آئے گا کہ مصطفی نواز، شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل آزاد سیاسی رہنما کے طو رپر سامنے آئے۔ مصطفی نواز تو پیپلزپارٹی کی طرف سے دی گئی سینیٹرشپ اور جماعت چھوڑ کر آزاد ہوئے تو یہ دو حضرات مسلم لیگ(ن) سے ناراض ہوئے تاہم علیحدگی کا باقاعدہ اعلان کئے بغیر آزاد نظر آنے لگے۔ پھر یہ خبریں چلیں کہ یہ حضرات نئی جماعت بنائیں گے اور ان کے ساتھ محمد زبیر سمیت اور بھی بہت لوگ مل جائیں گے لیکن چشم فلک نے دیکھا کہ ان حضرات نے سیاسی جماعت بنا ہی لی(اگرچہ معقول نام نہ ملا، پاکستان عوام پارٹی کو انگریزی میں پاکستان پیپلزپارٹی کہا جاتا ہے) تاہم ان کے ساتھ صرف مفتاح اسماعیل نظر آئے۔ مصطفی نواز شامل نہ ہوئے اور نہ ہی محمد زبیر کی طرف سے بھی گرم جوشی کا مظاہرہ ہوا اور صرف دو حضرات پاکستان عوام پارٹی لئے پھرتے رہے، ادھر پی ٹی آئی کو ضرورت محسوس ہوئی اور وہ گرینڈ اپوزیشن بنانے چلے تو ان کو یہ جماعت اور رہنما تھالی میں سجے سجائے مل گئے اور اب یہ اپنی جماعت کی جگہ تحریک انصاف کی قیادت کر رہے ہیں اور تحریک انصاف بتدریج محتاجی کی طرف بڑھ رہی، پہلے محمود اچکزئی کو لیا، مولانا کی سماجت کی جواب بھی جاری ہے لیکن بات نہیں بن پا رہی، البتہ جماعتی حیثیت متاثر ہوئی اور کسی نے کہا تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ہائی جیک ہو گئی ہے۔ قارئین! ذرا غور تو فرمائیں۔

ویسے میں نے پیپلزپارٹی سے جس مماثلت کا واقعہ بیان کیا اس سے یہ بھی یقین ابھرتا ہے کہ حقیقی سیاسی جماعت اور سیاسی کارکن دبانے سے نہیں ختم ہوتے اور نہ جماعت ٹوٹ کر بکھرتی ہے، اسی لئے ذمہ دار حضرات کو بھی اپنے سلوک پر نظرثانی کرنا چاہیے۔ اب بھی وقت ہے قومی اتفاق رائے پیدا کریں۔

(قارئین کرام، رمضان المبارک کی آمد اور نماز تراویح شروع ہونے کے باعث روزانہ تراویح میں پڑھی جانے والی آیات کا خلاصہ جایا کرے گا، تب تک یہ کالم موخر رہے گا)

مزید :

رائے -کالم -