وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 41ویں قسط

May 01, 2018 | 02:20 PM

وجیہہ سحر

اس کے ذہن میں سوچوں کا ایک جال سا بن گیا تھا جس میں وہ الجھی جا رہی تھی۔
عمارہ اپنے دھیان میں گاڑی چلا رہی تھی کہ اچانک اس کا ذہن سو گیا۔۔۔اس کے اعصاب جیسے کسی اور کے ذہن کے تابع ہوگئے۔ اس نے گاڑی کسی اور سمت موڑ لی۔
شہر کی آبادی سے دور اس کی گاڑی دھول اڑاتی ہوئی کچی زمین میں رک گئی۔ خواب سے بیدار ہونے جیسی کیفیت میں اس کے ذہن کو جھٹکا سا لگا۔
اس نے اپنے چاروں اور دیکھا تو خوف و تھرتھراہٹ کی جھرجھری اس کے پورے وجود سے گزر گئی۔ وہ قبرستان میں تھی۔ اس نے اسٹیئرنگ پر رکھے اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھا’’میں یہاں کیسے آگئی ۔۔۔‘‘

وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 40ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اس نے گاڑی سٹارٹ کی اور ریورس گیئر لگایا مگر اس کے ذہن میں خیال سا ابھرا۔’’کہ کوئی طاقت ہے جو اسے یہاں تک لائی ہے اسے کچھ دیر یہاں رکنا چاہئے۔‘‘
اس نے گاڑی روک لی اور گیئر نارمل کرتے ہوئے ہینڈ بریک کھینچ لیا۔ وہ گاڑی سے اتری تو ایک بار پھر قبرستان کے خوفناک سناٹے نے اس کے قدم روکے۔
اس نے حوصلے کا لمبا سانس کھینچا اور چل پڑی۔ قبرستان میں خوف سے تھرتھراتی خاموشی، گمبھیر تاریکی اور چھوٹے چھوٹے جانوروں کی سناٹے کو چیرتی ہوئی بری بری آوازیں گونج رہی تھیں۔
چاند کی چودھویں رات تھی۔ اتنی روشنی تھی کہ عمارہ باآسانی چل سکتی تھی۔ اس کے ہاتھ میں ٹارچ تھی مگر اسے ابھی اس کی ضرورت نہیں محسوس ہوئی تھی۔ وہ فضا میں سہمی سہمی نظریں گھماتے ہوئے دھیرے دھیرے چل رہی تھی ۔ تنگ کچا راستہ تھا جس کے دونوں اطراف قبریں تھیں۔۔۔وہ بہت احتیاط سے چل رہی تھی۔ وہ ذہنی طور پر کسی بھی پراسرار قوت کا سامنا کرنے کے لیے تیار تھی جو اسے یہاں تک لے آئی تھی۔
اسے کسی لڑکی کے چیخنے کی آواز آئی۔ اس کا دل دھک سے رہ گیا۔ وہ لمبے لمبے سانس لیتی ہوئی بوکھلائی ہوئی بولی’’کون ہے وہاں۔۔۔؟‘‘
وہ آواز قبرستان کے دائیں جانب سے آئی تھی۔ وہ دائیں جانب کی قبروں کی طرف بڑھنے لگی۔ اس جگہ چلنا بہت مشکل تھا۔ قبریں بہت قریب قریب تھیں اس کا پاؤں کبھی کسی قبر پر اور کبھی کسی قبر پر رکھا جاتا۔
وہ اپنے قدموں کو سکیڑ کر احتیاط سے چلنے لگی۔ کافی دیر چلنے کے بعد اسے ایک قبر دکھائی دی جس کے اوپر چراغ جل رہا تھا۔ اس قبرکے آس پاس کافی کھلی جگہ تھی۔ وہ قبر عمارہ کی توجہ کا مرکز بن گئی وہ اس قبر کے قریب گئی۔ قبر کے اوپر تازہ پھول کی پتیاں تھیں۔
اس نے پھول کی پتیوں کو ہاتھ میں لیا’’لگتا ہے کہ یہ قبر آج ہی بنی ہے۔ مگر لڑکی کے چیخنے کی آواز کہاں سے آئی تھی۔‘‘
یہ سوال اس کے ذہن میں گونج ہی رہا تھا کہ لڑکی کی چیخ کی آواز ایک بار پھر اس کی سماعت سے ٹکرائی۔ اس بار وہ آواز اس کے پیروں کے پاس سے زمین سے آرہی تھی۔
وہ لمبے لمبے سانس لیتے ہوئے اپنے قدموں کو پیچھے سکیڑنے لگی کہ اچانک اس کے قدموں کے قریب زمین کے نیچے سے درجنوں بلیاں نکلنے لگیں۔ یہ سب کچھ اس قدر تیزی سے ہورہا تھا کہ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ بلیاں زمین سے سوراخ کرکے نکل رہی ہیں یا زمین سے ابھر رہی ہیں وہ خونخوار بلیاں اس پر جھپٹ پڑیں۔ عمارہ سر کے بل زمین پر گر پڑی۔ بلیوں کے ناخن چھری کی دھار جیسے تیز تھے۔
کچھ بلیاں اس کے پیروں کو چمٹی ہوئی تھیں کچھ اس کے بازوؤں پر اور دو بلیاں اس کی گردن پر جھپٹ پڑیں۔ عمارہ نے اپنے بازوؤں پر چمٹی بلیوں کو جھٹکے سے دور پھینکا اور اپنے گلے میں چمٹی ہوئی بلیوں کو ہاتھوں سے کھینچنے لگی۔ اس کے گلے سے خون بہنے لگا اور پاؤں بھی زخمی ہوگئے۔
عمارہ ساتھ ساتھ خاص آیتیں پڑھنے لگی، آہستہ آہستہ وہ خونخوار بلیاں غائب ہوگئیں۔
عمارہ کھانستی ہوئی اٹھ بیٹھی۔ وہ یہ دیکھ کر دنگ رہ گئی کہ اس کے جسم کے سارے زخم اس طرح بھر گئے تھے گویا کہ زخم لگے ہی نہ ہوں۔ اس نے سہمی سہمی نظروں سے اپنے اردگرد دیکھا اور اسی جگہ یوگا کے سٹائل میں آلتی پالتی مار کے اپنے بازوؤں کو گٹھنوں سیدھا کرکے اپنی بڑی انگلی اور انگوٹھے کو آپس میں جوڑ لیا اور آنکھیں بند کرلیں۔ اس سے پہلے کہ اس پر کوئی اور حملہ ہوتا اس نے دھیان لگانا شروع کر دیا۔
اس نے اپنی کمر اور سر کو سیدھا کیا اور لمبے لمبے سانس لینے لگی۔ اس نے اپنا سارا دھیان اپنی سانسوں کی طرف کر دیا۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ اردگرد کے ماحول سے بے خبر ہوگئی اور روحانی دنیا میں داخل ہوگئی۔ اس کا مادی وجود بے وقعت ہوگیا اور لطیف وجود حرکت میں آگیا۔ اس نے اپنے من کی آواز سے کسی سے بات کی’’تم جو کوئی بھی ہو، میرے سامنے آؤ۔ مجھ سے بات کرو اس طرح چھپ چھپ کر مجھ پر وار نہ کرو۔۔۔میں تم سے بات کرنا چاہتی ہوں۔‘‘
عمارہ کی آنکھیں بند تھیں مگر اس کی وجدانی آنکھ کھل گئی تھی۔ وہ جس جگہ بیٹھی تھی اس جگہ کو دیکھ رہی تھی۔ اس کی اس بات کے جواب میں کوئی سامنے نہیں آیا۔ اس نے ایک بار پھر سب کچھ ایسے ہی دہرایا۔
اس کے سامنے درخت سے ایک شعاع زمین کی طرف بڑھی اور پھر وہ شعاع خیام کے روحانی وجود میں تبدیل ہوگئی۔ ایسا روشنی کا وجود جس سے اس کے پیچھے کی چیزیں بھی دکھائی دے رہی تھیں۔۔۔جس سے آر پا جایا جا سکتا تھا۔ عمارہ دھیرے سے مسکرائی۔
’’اچھا تو یہ تم ہو۔۔۔‘‘خیام تمسخرانہ انداز میں مسکراتا ہوا عمارہ کی طرف دیکھ رہا تھا۔
’’مجھ پر اس طرح حملہ کرانے کا مقصد۔۔۔؟‘‘ عمارہ نے سوال کیا۔
خیام ابھی بھی تمسخرانہ انداز میں عمارہ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ عمارہ نے اپنا سوال پھر دہرایا ’’مجھ پر حملہ کیوں کرایا۔‘‘
خیام نے مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا’’آپ اس چھوٹے سے واقعے کو حملہ کیوں کہہ رہی ہیں۔۔۔میں تو صرف دیکھ رہا تھا کہ جس لڑکی نے زرغام سے مقابلہ کرنے کی ٹھانی ہے وہ کتنی حوصلہ مند ہے۔‘‘
عمارہ نے اپنی سانسوں کی مشق جاری رکھی’’میں حوصلہ مند ہونے کا دعویٰ نہیں کرتی۔ بس ایک ارادہ لے کر نکلی ہوں اور پر امید ہوں کہ خدا میرا ساتھ دے گا۔ کوشش ہے اور تمہارے لیے بس اتنا ہی بتا سکتی ہوں کہ مجھے اپنی زندگی پیاری نہیں۔ نیک مقصد کے لیے جان چلی جائے تو چلی جائے۔ تم بتاؤ کہ زرغام کے خلاف اس جنگ میں ہمارا ساتھ دو گے۔‘‘
خیام کچھ دیر کے توقف کے بعد بولا’’میں تو اس میدان جنگ میں اس وقت سے ہوں جب آپ نہیں آئی تھیں۔ میں زرغام کے خلاف کیسے لڑتا ہوں کیسے نہیں۔ یہ کسی کو معلوم نہیں ہوگا۔ یہ نیک ہمزاد کی شیطان ہمزاد سے جنگ ہے۔ آپ سے میں صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ مجھے آپ اور آپ کی ٹیم کی ہر لمحے کی خبر ہے جس وقت آپ کو میری ضرورت ہوگی میں خود آجاؤں گا۔۔۔آپ مجھے بلانے کی کوشش مت کرنا۔‘‘
’’کیوں۔۔۔؟‘‘ عمارہ نے پوچھا۔
’’روحانی دنیا بہت پیچیدہ ہے ، راز و گیان کی باتیں آپ نہیں سمجھ سکتیں۔ آپ اب گھر جائیں۔‘‘ یہ کہہ کر خیام غائب ہوگیا۔
عمارہ نے بھی آنکھیں کھول لیں۔ وہ جلد از جلد قبرستان سے نکل گئی اور گھر کی طرف روانہ ہوگئی۔(جاری ہے )

وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 42ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

مزیدخبریں