وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 42ویں قسط
چھ ماہ گزر گئے۔ سب دوست معمولات زندگی میں مصروف رہے۔ اس دوران کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں ہوا۔ عمارہ نے بھی ان دوستوں کے ہاں کئی چکر لگایا مگر کسی غیبی مخلوق یا روحانی اجسام کی موجودگی کے کوئی اثرات نہیں ملے۔
ان سب کو ایک اطمینان سا ہوگیا کہ شاید وشاء، فواد، حوری کی روحیں آخری رسومات کے بعد کسی خاص مقام پر چلی گئی ہیں۔ ان کے دل و دماغ پر محیط ڈر ابھی ختم نہیں ہوا تھا لیکن انہوں نے خود فریبی کے احساس میں اپنا دھیان روزمرہ کے کاموں میں لگا لیا تھا۔ عمارہ انہیں یہی سمجھاتی تھی کہ وہ کبھی بھی لاپروانہ ہوں وہ تین ہمزاد کسی بھی وقت دوبارہ ان کی زندگی میں آسکتے ہیں۔
مگر وہ جیسے ڈر کے احساس سے نکل کر دوبارہ اس میں مبتلا ہونا نہیں چاہتے تھے۔ اتنے عرصے میں انہوں نے زرغام کا پتہ لگانے کی کوشش بھی نہیں کی۔
وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 41ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
خیام کے منع کرنے کی وجہ سے عمارہ نے بھی ا سے بلانے کی کوشش نہیں کی۔ وہ بھی اپنے کلینک میں مصروف ہوگئی۔ عمارہ اپنے کلینک میں مصروف تھی۔ کوئی خاتون تھیں جو اپنے کسی نفسیاتی مسئلے کے سلسلے میں آئی تھیں۔ عمارہ اس خاتون کی گفتگو بہ توجہ سے سن رہی تھی کہ اس کی دوست کا فون آیا۔
عمارہ نے فون سنا’’میں ابھی مصروف ہوں کچھ دیر کے بعد خود فون کرلوں گی۔‘‘
’’پلیز فون بند نہ کرنا میں تمہارا زیادہ ٹائم نہیں لوں گی صرف تمہیں یہ بتاناکہ رومان ہوٹل میں مصوری کی نمائش ہے۔۔۔سنا ہے کہ بہت اچھی اچھی پینٹنگز لگانی ہیں انہوں نے نمائش میں۔۔۔شام چار بجے کا وقت ہے بس تم نے میرے ساتھ چلنا ہے۔‘‘
عمارہ نے دوست سے معذرت کے ساتھ کہا’’آج تو رات تک میرے پاس وقت ہیں ہے۔۔۔تم کسی اور کو لے جاؤ۔‘‘
اس کی دوست نے غصے سے فون بند کر دیا۔ عمارہ نے خفیف سے انداز میں سر کو جھٹکا اور پھر اس خاتون کے ساتھ مصروف ہوگئی۔
رومان ہوٹل شہر کا مہنگا ترین ہوٹل تھا اس لیے یہ نمائش بھی خاص تھی۔ باذوق لوگوں کے لیے جنہیں آرٹ سے خاص لگاؤ تھا۔ لوگ اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر اس نمائش میں جانے کے لیے تیار تھے۔ نمائش کا وقت شام چار بجے سے لے کر رات دس بجے تک تھا۔
چار بجے تک تو ہوٹل میں دو یا تین لوگ ہی پہنچے تھے مگر آٹھ بجے ہال لوگوں سے فل تھا۔
نمائش میں تعلیمی اداروں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی تعداد زیادہ تھی۔ شائقین بہت دلچسپی سے پینٹنگ دیکھ رہے تھے۔ پینٹنگز مختلف موضوعات کی عکاسی کر رہی تھیں کچھ کا مطلب صاف اور واضح تھا مگر کچھ تصاویر مخفی خصوصیات کی حامل تھیں۔ جنہیں دیکھ کر لوگ بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہو گئے تھے ان میں زیادہ تر ایبسٹریکٹ آرٹ کا نمونہ تھی۔
چائے کا بندوبست ہوٹل والوں کی طرف سے تھا جس کے ساتھ sweetsاور بیکری کی اشیاء تھیں۔ باقی لوگوں کی اپنی مرضی تھی وہ ہوٹل سے کچھ بھی آرڈر کرسکتے تھے۔ تین پینٹنگز خاص طور پر لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھیں۔
ایک پینٹنگ وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے فیشن کی عکاس تھی۔ جس کا عنوان ینگ ایج تھا۔ رنگوں کو مختلف زاویوں سے پھینک کر ایک لڑکی کا سراپا وجود ظاہرکیا گیا تھا۔ مصور کی تخلیقی صلاحیتیں نکھر کر سامنے آرہی تھیں۔دوسری پینٹنگ میں غروب آفتاب کا منظر تھا جس میں زندگی کی رعنائیاں دم توڑتی دکھائی گئی تھیں۔ کیسے سورج اپنی چلچلاتی روشنی سمیٹ کر بھیگی آنکھوں جیسی سرخی فضا میں بھر دیتا ہے۔ سرخی مائل سورج کا عکس جھیل پر پڑ رہا تھا گویا جھیل اس کی غم گسار تھی۔ نزدیک ہی ایک چھوٹی سی کٹیا تھی جس کے آس پاس سرکنڈے کی فصل تھی۔ اس نظارے میں خاس مقناطیسیت تھی۔
تیری خوبصورت پینٹنگ میں صبح کا منظر تھا۔ اس کلچر پینٹنگ میں گاؤں کا ماحول دکھایا گیا تھا۔ آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے۔ پرندوں کے غول کے غول مستی میں مخمور محو پرواز تھے۔ تصویر بول نہیں سکتی مگر مصور نے فضا میں سروں کے نشان دے کر ظاہر کیا تھا کہ پر مسرت صبح پرندوں کی چہچہاہٹ سے بھرپور ہے۔ بھرے بھرے کھیتوں میں لوگوں کو اپنے کاموں میں مشغول دکھایا گیا تھا۔
خواتین بھی مختلف کاموں میں مشغول دکھائی گئی تھیں۔ اس نمائش میں دو اخباروں کے صحافی بھی موجود تھے جو ان پینٹنگ کی تصاویر لے رہے تھے۔ عمارہ کی دوست نوشی بھی اس نمائش میں موجود تھی۔ پانچ منزلہ عمارت کا یہ ہوٹل روشینوں سے جگمگا رہا تھا۔
سب سے اوپر کی منزل بالکل خالی تھی وہاں باتھ روم اور سٹور روم کے علاوہ کوئی کمزہ نہیں تھا کھلی چھت میں خوبصورت پودوں کی بہترین کولیکشن تھی۔ چھت پر بے شمار گملے تھے۔ اس بلند بالا عمارت کے اس حصے سے شہر کا نظارہ بہت خوب دکھائی دیتا تھا۔ مگر رات کے اس پہر میں یہ حصہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔
ہوٹل کے نچلے حصوں میں لوگوں کی چہل پہل اور رونق تھی جبکہ اس حصے میں سناتے کی سرسراہٹیں تھیں۔ صحافی مائیک لے کر نوشی کی طرف بڑھا’’آپ کا نام۔‘‘
’’میرا نام نوشی ہے۔‘‘
’’آپ کیا کرتی ہیں۔‘‘
’’جی میں بی کام کر رہی ہوں۔‘‘
’’بہت خوب۔۔۔ہم ایکسپریس نیوز کے لیے ریکارڈنگ کر رہے ہیں۔ آپ کا اس نمائش کے بارے میں کیا خیال ہے۔‘‘
نوشی نے مسکراتے ہوئے کہا’’آج کی نمائش بہت زبردست ہے۔ مجھے ساری پینٹنگز ہی بہت اچھی لگی ہیں لیکن حامد صاحب اور وجاہت صاحب کی پینٹنگز منفرد ہیں۔ خوبصورتی کے ساتھ ساتھ ان میں ایک پیغام بھی ہے۔‘‘
’’آپ ہماری ٹیم کے ذریعے کئی پیغام لوگوں تک پہنچانا چاہتی ہیں۔‘‘
نوشی نے کیمرے کی طرف دیکھا’’اس طرح کی exibitions منعقد کرکے ہمیں آرٹسٹوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے اس طرح نیا ٹیلنٹ بھی سامنے آئے گا بلاشبہ یہ لوگ بھی معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے سرگرداں ہیں۔‘‘
’’Thanks۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر express newsکا نمائندہ دوسرے لوگوں کی طرف متوجہ ہوا اور ان سے ان کی رائے معلوم کرنے لگا۔ نوشی کے موبائل کی رنگ بجی۔ نوشی نے موبائل دیکھا تو سکرین پر عمارہ کا نام تھا۔۔۔اس نے منہ بسورتے ہوئے کال کاٹ دی۔
عمارہ نے پھر نمبر ملایا۔۔۔نوشی نے ہونٹ بھینچتے ہوئے اس کا فون سنا’’اب کیوں فون کیا ہے جب میں نے آنے کو کہا تو صاف انکار کر دیا۔‘‘
عمارہ نے ٹھنڈی آہ بھری۔’’اتنی جلدی خفا ہو جاتی ہو میں جونہی فارغ ہو جاؤں گی تھوڑی دیر کے لیے آجاؤں گی۔‘‘
’’ہاتھ لگانے آؤ گی تو ایسے آنے کا کوئی فائدہ نہیں۔‘‘
’’ابھی مریض بیٹھے ہیں، میں کوشش کروں گی۔‘‘
’’اچھا ٹھیک ہے میں ایک گھنٹے تک ادھر ہوں اگر تم آگئی تو ٹھیک ہے ورنہ میں گھر چلی جاؤں گی۔‘‘ نوشی نے موڈ ٹھیک کرتے ہوئے کہا۔
عمارہ نے فون بند کر دیا اور اپنے کام میں مصروف ہوگئی۔ کچھ لوگ نمائش دیکھ کر جا رہے تھے اور کچھ آرہے تھے۔ دھیمی دھیمی موسیقی نے فضا میں سرور بھر دیا تھا۔ لوگ خوشگوار ماحول میں اس تقریب سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔
ہوٹل کی آخری منزل جہاں سناٹے اور تاریکی کا راج تھا دیوار پر لگے الیکٹرک ساکٹ سے شعلے نکل رہے تھے۔۔۔جس کا تعلق نچلی منزلوں سے تھا۔
سب سے نچلے حصے کا میٹر الگ تھا مگر اوپر کی منزلوں میں بجلی کم تیز ہونے لگی تھی۔ چھت پر لگے الیکٹرک ساکٹ کے شعلے بڑھنے لگے تھے ہوٹل کے فرنٹ پر چھت کی طرف لگی ہوئی دیکوریشنز لائیٹز بجھ گئی تھیں۔ ہوٹل کا اوپر کا حصہ باہر سے بھی اندھیرے میں ڈوب گیا تھا۔
اندھیرے میں ڈوبی ہوئی چھت کے اوپر آسمان میں عجیب پراسرار سی حرکات ہو رہی تھیں۔ روشنی کے تین دائرے ایک دوسرے کے آگے پیچھے تیزی سے حرکت کر رہے تھے۔ رفتہ رفتہ روشنی کے وہ دائرے چھت کی طرف بڑھنے لگے اور پھر چھت کے وسط میں روشنی کے تین ہالے نمودار ہوئے۔
ہوٹل کی درمیانی منزل میں بجلی کبھی بند ہوجاتی اور کبھی آجاتی۔ ان جلتی بجھتی روشنیوں میں لوگوں نے شور مچا دیا۔ الیکٹریشن اپنے اوزار لے کر چھت پر پہنچے اور ساکٹ بورڈ ٹھیک کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ الیکٹرک ساکٹ سے چنگاریاں نکل کر دور دور گر رہی تھیں۔
بالآخر مین سوئچ زور دار دھماکے کے ساتھ پھٹ گیا۔ نچلی دونوں منزلیں اندھیرے میں ڈوب گئیں۔ ان حالات میں نہ تو جنریٹر چلایا جا سکتا تھا اور نہ ہی UPSاستعمال ہو سکتا تھا۔ ایمرجنسی لائٹس استعمال کرکے لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی جانیلگی۔
ہوٹل کے دوسرے حصوں میں لوگوں کو منتقل کیا جائے گا۔ الیکٹریشن اپنے کام میں مصروف تھے مگر اب ان کا کام لمبا ہوگیا بجلی کی دوبارہ بحالی کے لیے اب انہیں خاصا وقت درکار تھا۔ پینٹنگز کی نمائش اسی طرح جاری تھی لوگ بہت دلچسپی سے یہ تصاویر دیکھ رہے تھے۔ پینٹنگز کے ساتھ ان کی قیمت بھی درج تھی۔ بہت سی پینٹنگز لوگوں نے خرید لی تھیں مگر نمائش ختم ہونے تک وہ پینٹنگز اپنی جگہ پر ہی رہنی تھیں۔(جاری ہے )
وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 43 ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں