وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 43ویں قسط
دو لڑکیاں ینگ ایج کے عنوان سے لگی پینٹنگ کے بارے میں اظہار خیال کر رہی تھی۔ اچانک دونوں اپنے منہ پر ہاتھ رکھے چیخنے لگیں۔ لوگ ان کی چیخ و پکار سن کر ان کی طرف متوجہ ہوگئے۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے پینٹنگ کی طرف اشارہ کر رہی تھیں۔
لڑکیوں کے گرد جمع ہونے والے لوگ بھی اپنی جگہ جامد ہوکے رہ گئے تھے۔ پینٹنگ میں جو ایک لڑکی کا محض سراپا دکھایا گیا تھا وہ ایک خوبصورت لڑکی کی تصویر میں بدل گیا تھا جس کے پر بھی تھے۔۔۔پوری تصویر میں خون کے چھینٹے تھے۔ نمائش میں آئے ہوئے تقریباً سبھی لوگ اس پینٹنگ کے گرد جمع تھے۔
صحافی بھی اس پینٹنگ کی تصاویر لے رہے تھے لوگ خوفزدہ سہمے سہمے کھڑے تھے۔ مگرنوشی جس پینٹنگ کے سامنے کھڑی تھی۔ اس کے قدم وہیں منجمد ہوگئے تھے۔ اس کا چہرہ پسینے سے تر تھا۔ اس کی قوت گویائی سلب ہوگئی تھی۔ اسے کچھ ہوش نہیں تھی کہ آرٹ گیلری میں کیا ہو رہا ہے اس کی تو نظریں اپنے سامنے والی پینٹنگ میں جڑی تھیں۔ کسی خوفناک مصور نے اس پینٹنگ کا منظر ہی بدل دیا تھا۔
وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 42ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
وہ پینٹنگ جس میں غروب آفتاب کا منظر تھا یک لخت دہکتی آگ کے منظر میں بدل گیا۔ سر کنڈے کی فصل کو آگ لگی ہوئی تھی اور اس کا سیاہ دھواں پوری فضا میں پھیلا ہوا تھا۔ جس نے ہر جگہ سیاہی بھر دی تھی۔
وہ تھرتھر کانپ رہی تھی۔ ایک شخص کی نظر اس پر پڑی تو اس نے اس کے قریب آکر وہ پینٹنگ دیکھی۔ وہ بے ساختہ چلایا۔ ’’یہ دیکھو اس پینٹنگ کا منظر بھی تبدیل ہوگیا ہے۔‘‘
پچھلی پینٹنگ کو چھوڑ کے لوگ اس پینٹنگ کے گرد جمع ہوگئے مگر نوشی پتھر کی بنی اپنی جگہ پر ہی کھڑی تھی۔ لوگوں کے دلوں میں تجسس بھی تھا اور خوف بھی صحافی بھی دھڑا دھڑ تصاویر کھینچ رہے تھے۔ ابھی لوگ اپنے دلوں کو سنبھال بھی نہ پائے تھے کہ ہال میں دل کو مدہوش کرنے والی خوبصورت نسوانی آواز گونجنے لگی۔
کوئی لڑکی اپنی مسحور کن آواز میں کوئی گیت گا رہی تھی جو لوگوں کے دلوں کو کھینچ رہا تھا مگر وہ زبان سمجھ میں نہیں آرہی تھی جس میں وہ گیت گا رہی تھی۔ اس آواز میں ایسی کشش تھی کہ لوگ دیوانوں کی طرح اس آواز کی طرف کھنچے جا رہے تھے۔
اس آواز کے پیچھے چلتے ہوئے لوگ اس پینٹنگ تک پہنچ گئے جس میں گاؤں کے فطری ماحول کی عکاسی کی گئی تھی مگر اب اس پینٹنگ کا منظر ہیبت ناک تھا۔ پینٹنگ میں اپنے اپنے کاموں میں مصروف دکھائے گئے لوگ خون میں لت پت گرے ہوئے تھے۔ پرندے بھی زخمی حالت میں آسمان سے زمین کی طرف گر رہے تھے۔
یہ خوفناک بدلا ہوا منظر لوگوں کو حیران نہیں کر رہا تھا کیونکہ وہ سب لوگ جادوئی آواز کے سحرمیں مبتلا تھے۔
***
عمارہ اپنی مریضہ کے ساتھ مصروف تھی۔ اس سے فارغ ہونے کے بعد اس نے نوشی کے نمبر پر فون کیا۔ بیل جارہی تھی مگر کوئی فون نہیں اٹھا رہا تھا۔’’کیسی لاپروا لڑکی ہے۔‘‘
عمارہ نے دوبارہ فون ملایا مگر اب بھی یہی صورتحال تھی۔ اس نے موبائل پر ٹائم دیکھا ’’اوہ نو بج گئے ہیں آج تو وقت کا پتہ ہی نہیں چلا۔‘‘ اس نے عنبر کی مدد سے آفس کا سامان سمیٹا اور پھر وہاں سے نکل گئی۔ عنبر بھی اس کے ساتھ تھی حسب معمول اس نے پہلے عنبر کو ڈراپ کیا پھر اپنے گھر کی طرف چل پڑی۔
گھر پہنچ کر اس نے پھرتی سے اپنے کپڑے چینج کیے۔ اپنا ہینڈ بیگ لیا اور اپنی والدہ کو بتا کر گاڑی میں بیٹھ گئی۔ رابعہ اس کے پیچھے پیچھے پورچ تک آگئیں۔’’اتنی دیر سے جا رہی ہو اب وہاں زیادہ وقت نہ لگانا اور گاڑی آہستہ آہستہ چلانا۔‘‘
’’اوکے مما!‘‘ عمارہ نے مسکراتے ہوئے گاڑی ریورس کی اور پھر تیزی سے وہاں سے نکل گئی۔ اسے بھی پینٹنگ سے خاصا لگاؤ تھا۔ وہ ہوٹل کی طرف جا رہی تھی۔ وہ ہوٹل کے قریب پہنچی تو اس کا دل دھک سے رہ گیا۔
ہوٹل کے آگے لوگوں کاہجوم تھا۔ 1122کی گاڑیاں، پولیس کی گاڑیاں، ایمبولینس گاڑیاں لوگوں میں گھری کھڑی تھیں۔لوگوں کے ہجوم کو پولیس والوں نے لوہے کی زنجیر سے روکا ہوا تھا۔
کچھ لوگ جو امدادی کارروائیوں میں مدد کررہے تھے کسی نہ کسی طریقے سے اندر چلے گئے تھے۔ عمارہ کا چہرہ پسینے سے تر ہوگیا وہ گاڑی بند کرکے لوگوں کے ہجوم کی طرف بڑھی۔ وہ لوگوں کو دھکیلتے ہوئے آگے بڑھ رہی تھی۔ درد میں ڈوبی ہوئی آوازیں اس کی سماعت سے ٹکرا رہی تھیں۔
’’میرا بیٹا اندر ہے۔۔۔پلیز آپ مجھے اندر جانے دیں‘‘ کوئی اپنی بہن کے لیے رو رہا تھا۔ اس کا تو بس دل گھبرا رہا تھا جو کسی خطرے کی طرف اشارہ تھا۔ وہ لوگوں کوپیچھے دھکیلتی ہوئی لوہے کی زبجیر کے قریب پہنچ گئی اور انسپکٹر سے کہنے لگی۔
’’یہ سب کیا ہے؟ اندر کیا ہوا ہے؟‘‘
’’ابھی ہم آپ کو کچھ نہیں بتا سکتے۔‘‘ انسپکٹر نے جواب دیا۔
عمارہ نے التجا کی’’پلیز آپ مجھے اندر جانے دیں۔‘‘
انسپکٹر نے نفی میں سر ہلایا’’ہم کسی کو اندر نہیں بھیج سکتے، پولیس کی کارروائی ہو رہی ہے۔‘‘
عمارہ نے اپنا کارڈ دکھایا۔’’میں ایک ڈاکٹر ہوں۔ آپ لوگوں کی مدد کر سکتی ہوں۔‘‘
انسپکٹر نے اسے اندر آنے کی اجازت دے دی اور اسے بمشکل زنجیر میں سے گزار دیا۔ عجیب افراتفری کا عالم تھا۔۔۔کوئی کہیں بیٹھا رو رہا تھا اور کوئی کہیں مگر عمارہ کو کوئی کچھ نہیں بتا رہا تھا کہ آخر ہوا کیا ہے ایک پولیس سولجر عمارہ کے پاس سے گزرا تو عمارہ نے اسے بلایا۔’’ایکسکیوزمی!‘‘
وہ عمارہ کے قریب آیا۔’’جی فرمائیے۔‘‘
’’میں اندر جانا چاہتی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر عمارہ نے اسے اپنا کارڈ دکھایا۔
سولجر نے وہ کارڈ لے لیا’’آپ ادھر ہی رکیں میں پرمیشن لے کر آتا ہوں۔‘‘
عمارہ اسی جگہ کھڑی رہی۔ کچھ دیر کے بعد وہ سولجر عمارہ کے قریب آیا۔’’آپ آئیں میرے ساتھ۔‘‘
عمارہ اس شخص کے پیچھے یچھے چل پڑی۔ وہ شخص ہال کے قریب جا کے رک گیا۔’’آپ اندر جائیں۔‘‘
یہ کہہ کر وہ شخص وہاں سے چلا گیا۔ اندر کا ہولناک منظر دیکھ کر اس کی آنکھیں دھندلاگئیں۔ سر چکرایا اور وہ لڑکھڑا کے رہ گئی۔ ہال میں لوگوں کی لاشیں بچھی ہوئی تھیں۔ دیواروں پر پینٹنگ لگی تھیں مگر فرش لوگوں کے خون سے رنگا ہوا تھا۔
ہال میں انویسٹی گیشن کے لیے پولیس کے چار افراد اور دو ڈاکٹرز تھے۔
لوگوں کی اموات بہت عجیب طریقے سے ہوئی تھیں۔ کسی کے کانوں سے خون بہہ رہا تھا۔اور ساتھ ساتھ ناک سے بھی بہہ رہا تھا جس سے اندازہ ہو رہا تھا کہ ان کی موت دماغ کی رگیں پھٹنے سے ہوئی ہے۔ کسی کی گردن پر دو دانتوں کے نشان تھے جس سے اس کا جسم اس طرح نیلا پڑ گیا تھا جیسے کسی نے اس کا خون چوس لیا ہو اور کوئی جھلسا ہوا تھا۔
عمارہ کی آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے تھے مگر وہ دل پرہاتھ رکھ کے آگے بڑھ رہی تھی۔چلتے چلتے ایک دم اس کے قدم رک گئے وہ خود پر قابو نہ رکھ سکی اور اونچا اونچا رونے لگی۔ نوشی خون میں لت پت زمین پر ڈھیر تھی۔ اس کی بھی موت دماغ کی رگیں پھٹنے سے ہوئی تھی۔ وہ اس لاش کے قریب دوزانو بیٹھ گئی۔
’’مجھ سے ایسی بھی کیا ناراضگی کہ اتنی دور چلی گئی‘‘ ایک آفیسر عمارہ کے قریب آیا’’یہ آپ کی کیا لگتی ہیں۔‘‘
’’یہ میری دوست ہے۔‘‘ عمارہ گلوگیر لہجے میں بولی۔
’’آپ خود کو سنبھالیں۔ آپ جیسے لوگ بھی ہمت چھوڑ دیں گے تو کمزور دل لوگوں کو کون سنبھالے گا۔ آپ ان کے گھر والوں کو بھی اطلاع کردیں۔پچاس لوگوں کا مرڈر ہوا ہے۔ صورت حال بہت گمبھیر ہے۔ پولیس کی ضروری کارروائی پوری ہو جائے تو لاشیں ان کے لواحقین کے سپرد کر دی جائیں گی۔‘‘ یہ کہہ کر وہ آفیسر اپنے باقی ساتھیوں کے ساتھ دوبارہ مصروف ہوگیا۔ نوشی کی آوازیں ابھی بھی عمارہ کے ذہن میں گونج رہی تھیں کہ کس طرح وہ اسے نمائش میں آنے کے لیے مجبور کر رہی تھی۔
وہ کچھ دیر نوشی کی لاش کے پاس بیٹھی رہی پھر اٹھ کر باقی لاشوں کی طرف دیکھنے لگی۔ اسے صرف اپنی دوست کی موت کا غم نہیں تھا مرنے والے تمام لوگوں کے لیے اس کا دل چُور چُور تھا۔ جسم اس طرح نڈھال تھا جیسے وہ اپنے قدموں کو گھسٹیتے ہوئے چل رہی تھی۔ اس نے اپنا زمین پر لٹکتا ہوا دوپٹہ اکٹھا کیا تو اس کا دوپٹہ سیاہ راکھ سے بھر گیا۔ اس نے اپنے دوپٹے کو چھوا تو اس کے ہاتھ بھی سیاہ ہوگئے۔
اس نے سراسیمہ نگاہوں سے چاروں اور دیکھا۔ ہال کی کتنی ہی چیزیں سیاہ دھویں سے کالی ہوگئی تھیں۔ اس نے گروہ کی شکل میں کھڑے ہوئے آفیسر سے بلا تامل پوچھا’’ادھر آگ لگی تھی؟‘‘
آفیسرنے فوری جواب دیا’’نہیں‘‘ پھر وہ عمارہ کے قریب آیا’’اس طرح معلوم ہو رہا ہے جسیے سیاہ دھواں کھڑکیوں اور دروازوں سے اندر داخل ہوا ہے جبکہ نہ تو باہر آگ لگی ہے اور نہ ہی اس ہوٹل کے آس پاس اور نہ ہی الیکٹرک تار جلی ہے ۔ کوئی ایک شخص بھی نہیں بچا جس سے پوچھا جائے کہ آخر ہوا کیا تھا اس کیس میں بہت ایسی چیزیں ہیں جس سے عقل دنگ رہ جاتی ہے ابھی کچھ دیر پہلے آرٹسٹ آئے تھے جن کی پینٹنگ کی نمائش تھی۔ ان میں سے ایک دو اشخاص نے تو سب کو حیران کر دیا ان کا کہنا تھا کہ تین پینٹنگز کے مناظر چینج ہوگئے ہیں۔ یہ کام اس قدر صفائی سے کوئی انسان نہیں کر سکتا۔ آپ ایک عاملہ بھی ہیں آپ ہماری مدد کریں۔‘‘
وہ آفیسر عمارہ کو ان پینٹنگز کے پاس لے گیا۔ عمارہ نے وہ تینوں پینٹنگز دیکھیں تو اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ تینوں پینٹنگز میں ایک خوفناک پیغام تھا۔ پروں والی لڑکی، آگ سے اٹھتا سیاہ دھواں اور موت کی نیند سلا دینے والی خوبصورت آواز۔
عمارہ کھوئے کھوئے سے انداز میں بولی’’مارنے والوں نے ان پینٹنگز کے ذریعے پہلے ہی موت کا اعلان کر دیا تھا۔‘‘
آفیسر بوکھلا سا گیا’’کیاآپ ہمیں بتا سکتی ہیں کہ یہ قتل کیسے ہوئے؟‘‘
’’میں فی الحال کچھ نہیں بتا سکتی سوائے اس کے کہ یہ سب کالے جادو سے کیا گیا ہے’’یہ کہہ کر وہ تیز تیز قدموں سے داخلی دروازے کی طرف بڑھنے لگی۔ گروپ میں کھڑا ہوا ایک آفیسر تضحیک آمیز انداز میں مسکرایا۔’’ہم یہاں قاتل ڈھونڈ رہے ہیں کہ اسے ہتھکڑی پہنائی جائے اور آپ کالے جادو کی بات کر رہی ہیں۔‘‘
عمارہ نے باہر کی طرف جاتے ہوئے قدم روک لیے اور پلٹ کر آفیسر کی طرف دیکھا اور معنی خیز انداز میں بولی’’قتل کرنے والا کوئی انسان نہیں جسے آپ ہتھکڑی پہنا دیں، وہ ایک ہمزاد ہے۔‘‘
عمارہ خوف سے تھرتھراتا ہوا اس فقرے کا تیر ہوا میں چھوڑ کر وہاں سے چلی گئی۔ اس ساری صورتحال میں ٹی وی چینل کی ریکارڈنگ ہو رہی تھی، کیمرہ آن تھا۔ میڈیا کے ذریعے یہ خبر لوگوں میں پھیل گئی۔ لوگ خوفزدہ ہو کے من گھڑت کہانیاں گھڑنے لگے۔ ہمزاد موت کا سایہ بن کر ہر ایک کے حواس پر سوار ہوگیا۔
ظفر، توقیر اور اس کے دوسرے دوستوں نے بھی یہ ریکارڈنگ دیکھی، ان کی تو جیسے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ ظفر نے عمارہ سے رابطہ کیا۔ عمارہ نے موبائل اٹھایا اور تھکے تھکے لہجے میں بولی’’وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا۔ زرغام نے ان تینوں کے ہمزاد کو اپنے خطرناک مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے اور آپ جانتے ہیں کہ خوف و ہراس ایک شیطان کی طاقت کو بڑھا دیتا ہے اتنے لوگوں کے قتل کے بعد بھی ان کی طاقتیں بڑھ گئی ہوں گی۔ آپ وشاء ، فواد اور حوریہ کے گھر والوں کو یہ ہدایت کریں کہ وہ محتاط ہوکے رہیں آپ اور ساحل میرے گھر آئیں۔‘‘
یہ کہہ کر عمارہ نے فون بند کر دیا۔ عمارہ نے صوفے سے پشت لگالی اور سر کر جھٹکے سے پیچھے کی طرف رکھ دیا۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد ظفر اور ساحل اس کے گھر آگئے۔ عمارہ نے انہیں مہمان خانہ میں بٹھایا۔ عمارہ کی والدہ بھی وہیں آگئیں۔
وہ بھی اس خوفناک واقعہ پربہت رنجیدہ تھیں مگر اصل حقائق سے بے خبر تھیں۔’’تم عمارہ سے باتیں کرو میں ملازمہ کے ہاتھ چائے بھیجتی ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر عمارہ کی والدہ وہاں سے چلی گئیں۔ ساحل نے عمارہ کے پریشان چہرے کی طرف دیکھا’’آپ کی دوست کے بارے میں سن کر بہت افسوس ہوا۔‘‘
عمارہ کانپتی آواز میں بولی۔ ’’وہ پچاس لاشیں ابھی بھی میری آنکھوں کے سامنے آرہی ہیں ان کے لواحقین کے بین ابھی بھی میری سماعتوں میں گونج رہے ہیں۔ میں نے آپ دونوں کو اس لیے بلایا ہے کہ کسی بھی طریقیسے ہمیں زرغام تک پہنچنا ہے۔ ہمارے لیے ہمزاد سے مقابلہ کرنا مشکل ہے مگر مادی وجود رکھنے والے ایک انسان کو تو ہم قابو کر سکتے ہیں۔ اگر ہم نے اس شخص کو ختم کر دیا تو یہ قتل و غارت بھی ختم ہو جائے گی۔‘‘
ساحل کی پیشانی پہ شکنیں ابھر آئیں۔’’اس خبیث کو میں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔‘‘
ظفر نے فوراً ساحل کو ٹوکا’’یہ معاملے جوش سے نہیں ہوش سے ہینڈل کیے جاتے ہیں۔‘‘
ساحل ایک بار پھر تپ کر بولا’’ہم ہاتھ پر ہاتھ دھیرے بیٹھے ہیں اور خون آشام درندہ سر عام پھر رہا ہے۔ ایک دفعہ ہی موقع ملا تھا زرغام کے ٹھکانے تک پہنچنے کا نہ جانے کیسے وہ چند منٹوں میں نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ ان پچاس لوگوں کا قتل وشاء، فواد اور حوریہ نے کیا ہے مگر کچھ نہیں کر سکتے۔‘‘
عمارہ نے پریشان کن لہجے میں کہا’’ساحل یہ بھی یاد رکھو کہ وہ تینوں مر چکے ہیں اور مرے ہوئے لوگوں پر پولیس کیس نہیں کرتی۔ مجھے آپ لوگوں سے بس یہی کہنا ہے کہ کچھ بھی تدبیر سوچیں مگر ہمیں زرغام تک پہنچنا ہے۔ اتنے بڑے واقعہ کے بعد کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ ان کا اگلا نشانہ کون ہوگا۔‘‘
’’ایک اور پریشانی کی بات ہے۔‘‘ ظفر نے جبیں پیمائی کی۔
’’کیا۔۔۔؟‘‘ عمارہ نے پوچھا۔
ظفر نے ٹھنڈی آہ بھری۔’’وینا کے والدین نے وینا اور عارفین کی شادی کی تاریخ رکھ دی ہے اسی مہینے کی پندرہ تاریخ۔‘‘
’’اوہ میرے خدایا! آج جمعرات ہے اور اگلے جمعہ کو وینا کی شادی ہے۔ ان حالات میں انہیں تاریخ رکھنے کی کیا ضرورت تھی۔ ہم اس مسئلے کا کوئی حل تو ڈھونڈ لیتے۔‘‘
’’وہ لوگ کہتے ہیں کہ عارفین نے انگلینڈ جانا ہے۔ شادی جلدی کرنا ان کی مجبوری ہے۔‘‘ساحل نے کہا۔
عمارہ بے چینی سے چہل قدمی کرنے لگی’’بے شک عارفین شادی کے بغیر انگلینڈ چلا جاتا، وہ لوگ کوئی بھی حل نکالتے مگر ابھی وینا کے نکاح کا مطلب ہے کہ فواد کو للکارنا۔‘‘
ساحل نے بے چینی سے اپنے ہاتھوں کو حرکت دی’’کیا ہم بدروحوں کے خوف سے اپنی زندگی کے معاملات ہی ختم کر دیں۔‘‘
عمارہ نے اپنا ہاتھ میز پر مارا’’جب تک ہم ان کے شیطانی ہمزاد کو قابو نہیں کر لیتے ہم لاپروا نہیں ہو سکتے۔ ہماری تھوڑی سی غفلت کئی لوگوں کی موت کا سبب بن سکتی ہے۔‘‘
ظفر نے عمارہ کی تائید کی’’ساحل! عمارہ ٹھیک کہہ رہی ہے میں وینا کے گھر والوں سے بات کروں گا کہ فی الحال اس شادی کا ارادہ ترک کر دیں نمائش میں ہونے والے واقعے سے وہ پہلے ہی بہت خوفزدہ ہیں یقینا! میری بات سمجھنے کی کوشش کریں گے۔‘‘
ساحل اور ظفر کچھ دیر کے بعد عمارہ کے گھر س چل پڑے۔ دونوں بے حد پریشان تھے۔ حالات نے سنگین ترین صورت اختیار کر لی تھی۔(جاری ہے )
وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 44ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں