وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 44ویں قسط

وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 44ویں قسط
وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 44ویں قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ظفر نے کار ڈرائیو کرتے ہوئے ساحل کی طرف دیکھا جس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں’’میرے گھر ہی چلو مل کر کچھ سوچتے ہیں اس مسئلے کے بارے میں۔‘‘
ساحل نے ظفر کی طرف دیکھے بغیرجواب دیا’’میں باتیں کرکرکے تھک گیا ہوں اب کچھ عملی طور پر کرنا چاہتا ہوں۔ آپ مجھے میرے گھر چھوڑ دیں پلیز آپ سب سے رابطہ کریں۔ ہمیں مل کر اس مصیبت سے نبرد آزما ہونا ہے۔ ہمارے پاس اب وقت نہیں ہے جس سے جو ہوتا ہے وہ کریں۔‘‘
ظفر، ساحل کی بات سن کر سوچ میں پڑ گیا۔ پھر اچانک اس نے اسٹیئرنگ پر ہاتھ مارا۔’’ایک تجویز ہے میرے ذہن میں۔‘‘
’’کیا۔۔۔؟‘‘

وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 43ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’عمارہ کے منہ سے ’’ہمزاد‘‘ کا نام سن کر ہر طرف میڈیا میں سنسنی خیز خبریں پھیل گئی ہیں۔لوگوں میں خوف و ہراس پھیل چکا ہے۔ پولیس اور رینجرز تو اسے محض توہمات پرستی سمجھتے ہیں مگر کچھ ایسے عالم ہوں گے جنہوں نے اس بات کو سنجیدگی سے لیا ہوگا۔ کیوں نہ ہم ایک پریس کانفرنس کریں اور میڈیا کے ذریعے کسی کو مدد کے لیے پکاریں۔‘‘
ساحل نے اثبات میں سر ہلایا’’آپ کی بات میں دم ہے مگر میڈیا والے ہمارے لیے مسائل پیدا کر دیں گے۔ ہماری مدد کرنے کے بجائے اس معاملے کوIntertainmentکے لیے استعمال کریں گے۔ مرچ مصالحے لگا کر سنسنی خیز خبروں کے ذریعے لوگوں کی دلچسپی حاصل کریں گے۔ ہمیں اپنا کام نہیں کرنے دیں گے۔ ہمیں لوگوں کے سامنے نہیں آنا چاہئے۔
عمارہ تو لوگوں کے سامنے آچکی ہے اگر کسی نے ہماری مدد کرنی ہوگی تو وہ خود سامنے آجائے گا ہمیں صرف یہ سوچنا ہے کہ زرغام کو کیسے ڈھونڈا جائے۔ کس طرح انسانوں کا قتل عام روکا جائے۔‘‘ انہی باتوں میں ساحل کا گھر آگیا۔
ظفرنے گاڑی روک دی۔ ساحل گاڑی سے اتر گیا۔ اس نے گاڑی کے دروازے پر بازو رکھا۔’’کل دس بجے آپ سب کو بلا لیں۔‘‘
ظفر نے اثبات میں سر ہلایا’’ٹھیک ہے۔‘‘
ساحل گھر میں داخل ہوا تو اس کی والدہ تیزی سے اس کی طرف بڑھی’’کہاں تھے تم، کب سے میں تمہیں فون کر رہی ہوں۔‘‘
’’کیوں خیریت تھی؟‘‘ ساحل نے پلنگ پر بیٹھتے ہوئے کہا
راحت اس کے ساتھ بیٹھ گئی۔’’جب تم موبائل رسیو نہیں کرتے تو طرح طرح کے اوہام میرا سینہ چیرتے ہیں۔ کتنے لوگ لقمۂ اجل ہوگئے ہیں۔ مجھے تو اس فکر میں نیند نہیں آتی کہ میرا بیٹا خود ان بدروحوں سے مقابلہ کر رہا ہے خدا نہ کرے کہ میرے بیٹے۔۔۔‘‘
ساحل نے ماں کو اپنی بانہوں کے حصار میں لے لیا’’آپ کو تو فخر ہونا چاہئے کہ آپ کا بیٹا لوگوں کی حفاظت کر رہا ہے۔ یہ شیطانی مخلوقات کتنی ہی طاقتور کیوں نہ ہوں، قرآن پاک اور نماز پڑھنے والے مومن یا مومنہ کا کچھ نہیں بھگاڑ سکتیں۔ آپ آیتیں پڑھ کر مجھ پر پھونک دیا کریں اور اپنے بیٹے کو اللہ کے سپرد کرکے مطمئن ہو جایا کریں۔ یہ بدروحیں آپ کے بیٹے کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گی۔‘‘
ردا کھانا لے کر کمرے میں داخل ہوئی۔ ’’اماں ! بھائی ٹھیک کہہ رہا ہے آپ خدا پر بھروسا رکھیں اور دعا کریں کہ خدا کوئی ایسا راستہ دکھائے کہ ہم سب کو ان شیطانی ہمزاد سے نجات مل جائے۔‘‘ 
ردا نے کھانا ساحل کے سامنے رکھا اور راحت کے پاس بیٹھ گئی’’آپ کی دعا اس وقت ساحل کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔‘‘
راحت نے ٹھنڈی آہ بھری’’ماں ہوں نا اس لی پریشان ہو جاتی ہوں۔ نہ جانے کیسی آزمائشیں آگئی ہیں ہم سب کے لیے ۔‘‘ یہ کہہ کر راحت وہاں سے اٹھ گئی۔
ساحل اور ردا اسی موضوع پر آپس میں باتیں کرتے رہے۔ ردا سے باتیں کرکے ساحل کے دل کا بوجھ کچھ کم ہوا۔
اکتوبر کا مہینہ تھا۔۔۔موسم خوشگوار تھا۔۔۔نہ ہی سردی تھی اور نہ ہی گرمی۔۔۔خصوصاً راتیں ٹھنڈی تھیں۔ رات کے دس بج رہے تھے، راحت اور ردا اندر کمرے میں اپنے اپنے بستر میں گھسی ہوئی تھیں۔
ساحل اپنے کمرے میں لیٹا گہری سوچ میں گم تھا نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ عجیب سی بے چینی تھی جو ذہن کو الجھائے جا رہی تھی ۔ اسے گھٹن سی محسوس ہونے لگی۔ وہ کمرے سے نکل کر صحن میں آگیا۔ اسے باہر کھلی ہوا میں قدرے سکون محسوس ہوا۔ اس نے صحن میں چارپائی بچھا لی اور اندر سے تکیہ بھی لے آیا۔
سرہانہ چارپائی پہ رکھ کر وہ چت لیٹ گیا۔ آسمان پر ستارے کسی سیاہ چادر پر چمکتے نگینوں کی طرح دکھائی دے رہے تھے۔ اس کی بے خواب آنکھوں میں وشاء کا خوبصورت چہرہ جھلملانے لگا۔ اس کی خوبصورت مسکراہٹ کے خیال نے ساحل کے لبوں پر بھی مسکراہٹ بکھیر دی۔ ایک خوبصورت خیال نے ساحل کے دل کے دھڑکنوں میں ہلچل سی مچا دی۔
جب وشاء ان کے گھر آئی تھی۔ باتوں ہی باتوں میں اسے علم ہوا کہ مجھے گاجر کا حلوہ بہت پسند ہے اس نے ضد کی کہ ردا اسے گاجر کا حلوہ بنانا سکھائے۔
ردا نے مجھ سے حلوے کا سامان منگوایا۔ میں سامان لے تو آیا مگر من ہی من میں ہنس رہا تھا ک جس لڑکی نے کبھی چولہا نہیں جلایا۔ وہ حلوہ کیسے بنائے گی۔ امی نے گاجریں کش کر دیں۔۔۔ردا اور وشاء کچن میں چلی گئیں حلوہ بنانے کے لیے۔
ردا نے کڑاہی چولہے پر رکھی اور اس میں گھی ڈال دیا گھی کڑکڑانے کے بعد اس میں کش کی ہوئی گاجریں ڈال دیں اور وشاء کو چمچ دے کر چوہلے کے پا س کھڑا کر دیا۔ میں بھی ان دونوں کی کارستانیاں دیکھنے کے لیے کچن میں ہی آگیا’میں نے سوچا کہ میں بھی حلوہ بنانا سیکھ لوں۔‘‘
میں نے وشاء کے قریب کھڑے ہوئے ہوئے جو حلوہ میں چمچ بھی پین کی طرح چلا رہی تھی ردا کسی کام سے باہر چلی گئی تھی۔ میری ہنسی چھوٹ گئی۔
’’یہ تم حلوہ بنا رہی ہو یا کڑاہی میں نقش و نگار بنا رہی ہو۔‘‘
وشاء نروس ہوکے چمچ ٹھیک طرح سے چلانے لگی تو اس کا ہاتھ کڑاہی سے لگ گیا۔ وشاء چیخ کو پیچھے ہٹی تو مجھ سے جا لگی۔ میں نے چولہا بند کیا اور جلدی سے ٹیوب لے آیا میں نے اس کا ہاتھ تھاما اور زخم پہ ٹیوب لگانے لگا۔ میں اس سے تلخ روئی سے بولنے لگا۔’’کیا ضرورت تھی چولہے کا کام کرنے کی جبکہ تم نے گھر میں کبھی کہ کام نہیں کہے۔‘‘
وشاء کی آنکھوں میں آنسو تھے، معمولی زخم سے بھی وہ چھوٹی سی بچی کی طرح رونے لگی تھی۔ میں اس کی ڈریسنگ کر رہا تھا اور وہ بھیگی آنکھوں سے میری طرف دیکھ رکا س طرح مسکرانے لگی جیسے کہہ رہی ہو کہ ایسا زخم تو بار بار لگے۔ ڈریسنگ پوری ہوئی تو وہ تیز تیز قدموں سے وہاں سے چلی گئی۔ راحت کی آواز سے ساحل اپنے خیال سے چونک گیا۔
’’ساحل بیٹا! باہر کیا کر رہے ہو اندر آجاؤ۔‘‘ ساحل نے اونچی آواز سے کہا’’تھوڑی دیر بعد آجاؤں گا۔ اندر گھٹن ہو رہی تھی باہر کافی سکون ہے۔‘‘
’’تھوڑی دیر بعد آجانا۔۔۔‘‘ راحت نے کہا ۔ ساحل نے پھر سے ستاروں پر نظر ٹکا دی۔ اس کی آنکھوں میں دلکش رنگ سے چمکائے اس نے ستاروں سے نظر ہٹالی تو ایک خوبصورت تتلی اس کے قریب قریب اڑ رہی تھی۔
تتلی کے دیدہ زیب رنگوں پر تو نظریں جمانے کو دل چاہ رہا تھا مگر من میں خوف کی ایک ٹیس بھی اٹھ رہی تھی۔۔۔دھڑکنیں کسی انجانے سے خوف کا احساس دلا رہی تھیں۔ وہ تتلی اڑتے اڑتے انار کے درخت پر بیٹھ گئی۔ ساحل کچھ دیر خاموشی سے تتلی کی طرف دیکھتا رہا پھر اپنا چہرہ دوسری طرف کرلیا۔
’’ہر تتلی وشاء تو نہیں ہوسکتی۔‘‘
’’میں وشاء ہی ہوں۔‘‘ ساحل کو اپنے عقب سے آواز آئی۔ وہ خوف کے جھٹکے سے پیچھے پلٹا مگر جونہی اس نے وشاء کو دیکھا اس کا خوف ہوا ہوگیا۔
وشاء انار کے درخت کی شاخ کو تھامے اس کے قریب کھڑی تھی۔ جو خیال ساحل دیکھ رہا تھا وشاء جیسے اس خیال سے نکل کر باہر آگئی تھی کیونکہ اس نے وہی لباس زیب تین کیا ہوا تھا۔ اس کے چہرے پہ وہی معصومیت آنکھوں میں وہی وفا کی چمک تھی۔ وہ دھیرے سے بولی۔
’’پہلے تو میرے معمولی سے زخم سے تڑپ اٹھتے تھے اور اب مجھے اس طرح میرے حال میں چھوڑ دیا ہے۔ تم ہی تو میرے پرسان حال تھے مگر تم نے ایک بار بھی نہ پوچھا کہ میں کس اذیت سے گزر رہی ہوں۔‘‘
اس کے لہجے میں عجیب سی مقناطیسیت تھی۔ ساحل اس کی طرح کھینچتا ہوا اس کے قریب چلا گیا۔ ساحل نے اس کی بھیگی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔’’تم اذیت کی بات کر رہی ہو تم تو خوبصورت بلا ہو جو لوگوں کو اپنے رنگوں میں محو کرکے انہیں سرخ خون میں نہلا دیتی ہو۔‘‘
وشاء نے ایک ساعت میں ہی ساحل کے شانے پر سر رکھ دیا’’تمہارے پاس اس وقت وہی وشاء ہے۔ جو تمہیں اپنی جان سے زیادہ پیار کرتی تھی۔ بڑی مشکل سے اپنے ہمزاد سے کچھ دیر کے لیے یہ روپ چرایا ہے۔ صرف ایک سوال پوچھنے کے لیے۔‘‘
ساحل جذبات سے سلگتی کسی موم کی طرح پگھلنے لگا۔ اس نے وشاء کے شانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے خود سے پیچھے کیا۔ وشاء کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔ تھوری دیر کے لیے ساحل نے خود کو اور وشاء کو اسی مقام پر محسوس کیا جب ان دونوں کے دل ایک ہی جذبے کے لیے دھڑکتے تھے۔
ساحل نے رندھی ہوئی آواز میں پوچھا’’کیسا سوال؟‘‘
’’تم نے مجھ سے شادی کرنے سے انکار کیوں کیا تھا۔ کیا کمی تھی میرے اندر۔۔۔کیا تم میری وفا کی حدت سے واقف نہیں تھے؟‘‘
ساحل نے وشاء کے آنسو پونچھے۔’’اگر تم وہی وشاء بن کر مجھ سے یہ سوال کر رہی ہو تو میں بھی وہی ساحل ہوں۔ کمی تم میں نہیں تھی مجھ میں تھی۔ میں تمہیں تمہارے ملازموں کے کوارٹرز جیسی جگہ پر نہیں رکھ سکتا تھا۔معاشی طور پر اس قدر بدحال تھا کہ وہ آسائشیں تمہیں نہیں دے سکتا تھا جس کی تم عادی تھیں۔
ایسی محبت کیا جو اپنے محبوب کومشکل میں ڈال دے۔ تم تو سردی کی وہ دھوپ تھی جو جس کے آنگن میں بھی اترتی ہر طرف تسکین بھر دیتی۔ غریب تو اپنے جذبات امیروں سے چھپا چھپا کے رکھتا ہے تاکہ کوئی اس کی ہنسی نہ اڑا دے۔‘‘
وشاء نے ساحل کا ہاتھ تھام لیا’’آؤ میرے ساتھ میں جس دنیا میں رہتی ہوں وہاں رشتے دولت کی ڈور سے نہیں بندھتے۔ وہاں احساسات کے رنگ ہیں۔ وفاؤں کی خوشبو ہے ادھر کی فضا محبت کے گینوں سے مہکتی ہے۔ ہم ایک نئی زندگی شروع کریں گے۔‘‘
اندرراحت کو اچانک خیال آیا کہ اس نے مولوی صاحب سے ساحل کے لیے تعویذ بنوایا تھا۔ وہ تعویذ اسے ساحل کو پہنا دینا چاہئے۔ وہ اپنے بستر سے اٹھی۔ اس نے الماری سے تعویذ نکالا اور باہر صحن میں آگئی۔(جاری ہے )

وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 45ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں