وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 45ویں قسط
ساحل جیسے اس ساحرہ کی باتوں کے طلسم میں گم تھا۔ راحت نے دیکھاکہ ساحل انار کے درخت کے قریب کھڑا ہے۔ وہ تعویذ لے کر اس کی طرف بڑھی۔ وشاء ساحل کے اور قریب ہوگئی۔ اس نے اپنا چہرہ ساحل کی گردن کے قریب کیا تو اس کی نظر راحت کے ہاتھ میں تھامے ہوئے تعویذ پر پڑی وہ ایک ساعت میں ہی وہاں سے غائب ہوگئی۔
’’ساحل۔۔۔‘‘راحت نے اسے پکارا مگر وہ جیسے کچھ سن ہی نہیں رہا تھا۔
راحت اس کے قریب آئی اور اس کے گلے میں تعویذ پہنچا دیا۔ ساحل نے جھرجھری سی لی اور گھبراہٹ سے انار کے درخت کے آس پاس دیکھنے لگا’’وشاء ! کہاں گئی۔‘‘
راحت نے اس کے منہ پرہاتھ رکھ دیا۔’’کس چڑیل کا نام لے رہا ہے چل اندر چل۔۔۔‘‘
اس نے ساحل کا ہاتھ پکڑا اور تیز تیز قدم چلتی ہوئی اسے اندر لے گئی اور آیت الکرسی پڑھ کر اس پر دم کرنے لگی۔
وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 44ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اگلے روز دس بجے ظفر نے اپنے سارے دوستوں کو اپنے گھر بلایا۔ ساحل کے نہ پہنچنے پر اسے تشویش ہوئی۔ اس نے ساحل کے گھر فون کیا’’ہیلو۔۔۔‘‘ راحت نے فون سنا۔
’’میں ظفر بول رہا ہوں۔ ساحل کو میں نے اپنے گھر بلایا تھا کہاں ہے وہ۔‘‘
بھائی کی آواز سن کر راحت رونے لگی’’کیا بات ہے خیریت ہے۔۔۔؟‘‘
’’ساحل کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔‘‘ راحت نے گلوگیر لہجے میں جواب دیا۔
’’میں ایک گھنٹے کے بعد چکر لگاؤں گا‘‘ یہ کہہ کر ظفر نے فون بند کر دیا۔
مہمانوں سے فارغ ہونے کے بعد ظفر، ساحل کے گھر گیا ، رداکالج گئی ہوئی تھی۔ ظفر، ساحل کے پلنگ کے قریب بیٹھا’’یہ کیا بھئی ہمارا سولجر بیمار ہوگیا ہے۔‘‘
ساحل مسکراتا ہوا پلنگ سے پشت لگا کے بیٹھ گیا’’میں بیمار نہیں ہوں۔بس معمولی سی کمزوری محسوس ہورہی ہے اور سر میں درد ہے امی خواہ مخواہ پریشان ہو رہی ہیں۔‘‘
’’کہاں ہے راحت؟‘‘ ظفرنے پوچھا۔
’’امی کچن میں ہیں۔‘‘ ساحل نے بتایا۔
ظفر وہاں سے اٹھ کر کچن میں چلا گیا۔
راحت اس کے لیے چائے بنا رہی تھی’’تم کن تکلفات میں پڑ گئی ہو۔ ابھی تھوری دیر پہلے ہی میں نے چائے پی تھی۔ اور تم رو کیوں رہی تھی۔ ساحل تو ماشاء اللہ ٹھیک ہے۔ معمولی سی کمزوری ہے۔ یخنی وغیرہ دو ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘ ظفر نے کہا۔
راحت کی آنکھیں ابھی بھی اشکبار تھیں اس نے ظفر کی طرف دیکھا’’ظفر بھائی! میں کسی اور وجہ سے پریشان ہوں۔‘‘
’’کس وجہ سے‘‘ ظفر نے پوچھا۔
راحت نے پیالیوں میں چائے ڈالی اور ہاتھ میں ٹرے اٹھائے کہنے لگی’’آئیے ساحل کے پاس بیٹھتے ہیں وہ آپ کو خود بتائے گا کہ رات کو اس نے کسے دیکھا ہے۔‘‘
راحت چائے لے کر ساحل کے پاس آگئی۔ اس نے چھوٹے سے میز پر چائے رکھی۔ ظفر بھی ادھر ہی بیٹھ گیا۔
ساحل بے حد الجھا ہوا اور پریشانی دکھائی دے رہا تھا۔ ظفر نے اس کے چہرے پر گہری نظر ڈالی’’کوئی پریشانی ہے؟‘‘
ساحل جیسے پہلے سے ہی بیتاب تھا وہ بلا تامل بولا’’انکل رات میں نے وشاء کودیکھا۔‘‘
’’خواب میں؟‘‘ ظفر نے پوچھا۔
’’نہیں انکل میں نے اسے پورے ہوش و حواس میں دیکھا ہے وہ انار کے درخت کے قریب کھڑی تھی رات کے گیارہ بج رہے تھے میں صحن میں تنہا تھا۔‘‘
ساحل کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی اس نے آگے بڑھ کر ظفر کے ہاتھ تھام لیے۔
’’انکل وہ وہی وشاء تھی حساس اورجذبات سے بھرپور۔۔۔‘‘
ظفر نے ساحل سے اپنے ہاتھ چھڑا لیے۔’’تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے۔ دل میں احساسات رکھنے والی وشاء مر چکی ہے جسے تم نے دیکھا ہے وہ اس کا شیطانی ہمزاد ہے۔‘‘
ساحل ایک بار پھر جذبات کی رو میں بہنے لگا’’انکل میرا یقین کریں وہ رو رہی تھی وہ کہہ رہی تھی کہ اس کا یہ روپ شیطانی ہمزاد میں کہیں گم ہوگیا ہے وہ بمشکل اس روپ میں مجھ سے ملنے آئی تھی۔‘‘
ظفر نے ساحل کے شانوں پر ہاتھ رکھے اور اسے سمجھانے لگا’’دیکھو بیٹا! میں نے تسلیم کر لیا ہے کہ میری وشاء مر چکی ہے۔ جسے تم نے دیکھا ہے وہ ایک خوبصورت بلا ہے جو کتنے ہی لوگوں کو اپنا شکار بنا چکی ہے۔ وہ تمہیں دھوکہ دے رہی ہے ہمزاد یا تو اچھا ہوتا ہے یا برا دونوں خصوصیات ایک ہمزاد میں نہیں ہوتیں۔ کالے علم کرنے والے عامل کسی مرے ہوئے انسان کے اسی شیطانی ہمزاد کو قابو کرتے ہیں جو زندگی میں اسے برے کاموں کے لیے اکساتا ہے۔ عامل اس شیطانی ہمزاد کو سفلی کاموں کے لیے استعمال کرتے ہیں تم نے آئندہ یہ غلطی نہیں کرنی اگر تمہیں وشاء نظر آئے تو سورۃ الناس پڑھنا شروع کر دینا اور اس کے قریب مت جانا۔‘‘
ساحل پر جیسے ظفر کی باتوں کا کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا وہ ابھی تک اپنی ہی بات پر قائم تھا، اس کی سوچیں وشاء کے خیال میں ہی غرق تھیں۔’’میں نے وشاء کے بھیانک روپ دیکھے ہیں مگر اس بار جس طرح میں نے اس کو دیکھا ہے وہ دھوکہ ہیں ہے۔ وہ واقعی اذیت میں ہے۔‘‘
ظفر غصے سے کھڑا ہوگیا’’اذیت میں وہ نہیں ہے، وہ دوسروں کو اذیتیں دے رہی ہے۔ اپنی سوچ تبدیل کرو ورنہ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی موت کی طرف دھکیل دو گے۔‘‘
راحت، ظفر کو باہر تک چھوڑنے گئی’’دیکھا ہے بھائی آپ نے ساحل کی انہی باتوں کی وجہ سے میں پریشان تھا۔‘‘
ظفر نے راحت کے سر پر ہاتھ رکھا’’ابھی تازہ بات ہے ٹھیک ہو جائے گا۔ کوشش کرنا کہ وہ اکیلا نہ رہے۔ قرآنی آیات پڑھ کر پانی دم کرکے اسے پلایا کرو اس ناگہانی آفت سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہمارے پاس بس یہی راستہ ہے۔ تم دعا کرنا کہ لوگوں کو ہم ان بدروحوں سے بچانے میں کامیاب ہو جائیں۔ہم سب نے تو سروں پر کفن باندھ لیے ہیں۔ ہم میں سے کون کب لقمہ اجل ہو جائے کوئی نہیں جانتا۔‘‘
راحت نے بھائی کا ہاتھ تھام لیا’’ایسی باتیں نہ کریں ، جب اس کے بندوں پر ایسی مصیبت آجائے جس سے مقابلے کی سکت نہ رہے تو وہ کسی نہ کسی کو مسیحا بنا کے بھتیجا ہے آپ ایک کام کریں۔‘‘
’’کیا؟‘‘ ظفر نے پوچھا۔
’’میڈیا میں اس خبر نے سنسنی پھیلا دی ہے نمائش میں ہونے والے قتل کسی انسان نے نہیں بلکہ ہمزاد نے کیے ہیں۔ آپ اس بات سے نہ ڈریں کہ میڈیا والے آپ لوگوں کوپریشان کریں گے۔ آپ اور عمارہ ایک پریس کانفرنس کریں آپ سارا مسئلہ لوگوں کے سامنے بیان کریں اور مدد مانگیں کہ کوئی ایسا عامل یا کوئی بھی شخص جو اس معاملے میں ان کی مدد کر سکتا ہے۔ آپ لوگوں سے رابطہ کرے۔‘‘
ظفر نے اثبات میں سر ہلایا’’ہاں۔۔۔یہ مشورہ مجھے توقیر نے بھی دیا ہے۔ میں نے یہ سوچ کر اس بات پر دھیان نہیں دیا کہ میڈیا والے ہمیں ہمارا کام نہیں کرنے دیں گے مگر صورت حال اس قدر گمبھیر ہے کہ کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے اور ہمارے پاس سوائے ارادے کے اور کچھ نہیں ہے۔ اس لیے سوچ رہا ہوں کہ پریس کانفرنس کر لینی چاہئے۔ شاید کوئی راستہ نکل آئے۔‘‘
’’آپ بس دیر نہ لگائیں، خدا کرم کرے گا۔ اب معاملہ آپ لوگوں کے بس کا نہیں رہا اور عمارہ تو خود اس فیلڈ میں نئی ہے۔ اس کا تجربہ محدود ہے۔‘‘ راحت نے ظفر کو ایک بار پھر سمجھایا۔
’’ٹھیک ہے میں توقیر اور زبیر سے بات کرتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر ظفر وہاں سے چلا گیا۔
ساحل کو کوئی بیماری نہیں تھی مگر ایسی نقاہت تھی کہ اس کے اعصاب شل ہو گئے تھے۔ وہ چار روز تک ایسی ہی کیفیت میں رہا۔ پانچویں روز وہ خود کو کافی بہتر محسوس کرنے لگا۔
۔۔۔
میجر اسامہ اپنے کلب میں لڑکوں کو مارشل آرٹ کی ٹریننگ دے رہا تھا، صبح کے دس بج رہے تھے اس نے لڑکوں کو دو گروپوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ دونوں گروپ ایک دوسرے کے بالمقابل کھڑے تھے۔ ایک طرف سے ایک لڑکا آگے بڑھتا تو اس سے مقابلے کے لیے مخالف گروپ سے دوسرا لڑکا میدان میں آتا پھر ان کے درمیان کراٹے کا چھوٹا سا مقابلہ ہونے لگتا۔
میجر اسامہ ان کے قریب کھڑا انہیں مختلف داؤ پیچ یاد کر رہا تھا۔ دو لڑکے کراٹے کے خاص سفید لباس میں ننجا کے خاص انداز میں ایک دوسرے کے سامنے کھڑے تھے۔ لڑکوں نے اپنے پیروں کو ایک دوسرے سے کافی فاصلے پر کرتے ہوئے اپنی ٹانگوں کو پھیلا لیا۔ انہوں نے بازوؤں کا کراس بناتے ہوئے اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو سیدھا کرتے ہوئے انگوٹھے سمیت آپس میں جوڑ لیا، اور پھر کیٹ سٹائل میں اچھلتے ہوئے ایک دوسرے پر جھپٹ پڑے۔ چھوٹے سے مقابلے کے بعد انہوں نے سیدھا کھڑا ہو کے سروں کو جھکا کے ایک دوسرے کو دوستی کا پیغام دیا۔
اسامہ نے ایسے ہی چھوٹے چھوٹے تین مقابلے اور کرائے پھر اس نے انہیں بریک دے دی۔ وہ کرسی پر بیٹھ کے اپنا پسینہ پونچھنے لگا۔ دو لڑکے کولڈ ڈرنک لے کر اس کی طرف بڑھے۔ ان کے پاس پیپسی کے تین ٹن پیک تھے۔ ایک انہوں نے اسامہ کو دیا اور سامنے پڑی ہوئی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔
’’سر! آپ نے دس سال آرمی میں گزارے ہیں ہمیں کوئی دلچسپ واقعہ سنائیں۔‘‘
اسامہ نے اپنا کٹے ہوئے ہاتھ والا بازو ان لڑکوں کے سامنے کیا’’یہ تمغہ ہے میری شجاعت کا ‘‘
لڑکے نے سر جھکاتے ہوئے معذرت کی ’’سوری سر! ہم آپ کو ہرٹ کرنا نہیں چاہتے تھے۔۔۔ ‘‘
اسامہ نے ٹھنڈی آہ بھری’’اسی بات کا تو افسوس ہے کہ میری طاقت میں اور تجربے میں کوئی کمی نہیں مگر میں لوگوں کے اس طرح کام نہیں آسکتا جس طرح پہلے فوج میں رہ کر ان کا تحفظ کرتا تھا۔‘‘
دوسرے لڑکے نے معنی خیز انداز میں کہا’’سر اس کلب کے ذریعے بھی آپ اپنا فن دوسروں کو دے کر لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں۔‘‘
ایک لڑکے نے ریموٹ سے دیوار پر لگا Led Tvآن کر دیا۔ نیوز چینل چل رہا تھا ایک سنسنی خیز خبر نے ان سب کو اپنی طرف متوجہ کر دیا۔(جاری ہے )
وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 46ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں