وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 46ویں قسط
نیوز کاسٹر ہاتھ میں مائیک لیے رومان ہوٹل کے باہر اپنی باتوں سے لوگوں کو چونکا رہی تھی۔
’’آرٹ کی نمائش میں ہونیو الے پچاس لوگوں کے قتل کی تحقیقات کے لیے بہت سی ٹیمیں کام کر رہی ہیں۔ پولیس، سی بی آئی، رینجرز سب اس Crimnelکو ڈھونڈ رہے ہیں جس نے معصوم لوگوں کی جانیں لیں۔ ہمارے چینل پر ایک خبر نے لوگوں کو نیند یں اڑا دیں۔ سائیکاٹرسٹ اور exorcistڈاکٹر عمارہ کا کہنا ہے کہ ان سب اموات کے پیچھے کسی انسان کا ہاتھ ہے مگر لوگوں کی جانیں لینے والا کوئی انسان نہیں بلکہ ایک ہمزاد ہے۔ ڈاکٹر عمارہ اور مسٹر ظفر نے ایک پریس کانفرنس کی ہے دیکھتے ہیں کہ وہ ہم سب سے کیا کہنا چاہتے ہیں۔‘‘ اسامہ سمیت سب کی کولڈ ڈرنکس ان کے ہاتھوں میں ہی رہ گئیں۔
وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 45ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
عمارہ سامنے آئی۔ ظفر اور وہ وہیں بیٹھے تھے۔ عمارہ نے اپنی بات شروع کی۔’’ہمارا مقصد لوگوں میں خوف و ہراس پھیلانا نہیں بلکہ ہم تو اس شیطان کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں جو معصوم لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہا ہے۔ ہم پولیس کی بات کو رد نہیں کر رہے۔ انہیں جس پر شک ہے وہ اپنے طور پر تحقیقات کریں مگر جو کچھ ہم جانتے ہیں ہم اس کے مطابق اس قاتل کو ڈھونڈیں گے۔‘‘ میرے پاس ٹھوس ثبوت ہیں جس کے مطابق نمائش میں لوگوں کا قتل جنہوں نے کیا ہے وہ تین ہمزاد ہیں۔
ہمزاد انسان کا ہی ایک روپ ہے۔ جو مرنے کے بعد انسان کے مردہ جسم سے الگ ہو جاتا ہے وہ ایک انسان کا ہی روپ ہے تو ہم کیوں اس کے آگے ہتھیار ڈال دیں۔ ہمیں ان شیطانوں سے مقابلہ کرنا ہے۔۔۔ہمیں آپ لوگوں کی مدد کی ضرورت ہے۔ اگر کوئی ہماری مدد کرنا چاہتا ہے تو آگے بڑھے اور اس جنگ میں ہمارا ساتھ دے۔‘‘
سکرین پر عمارہ کا موبائل نمبر اور گھر کا ایڈریس لکھا تھا۔ اسامہ نے اپنے موبائل پر وہ سب نوٹ کر لیا۔ اس خبر کے بعد مختلف لوگوں کے Comentsآنے لگے ۔ کسی نے عمارہ کی بات کا مذاق اڑایا اور کسی نے عمارہ کی باتوں کو سچ مانتے ہوئے اسے گہرائی سے لیا۔ اسامہ نے ٹی وی بند کر دیا اور گہری سوچ میں پڑ گیا۔
اس کی ٹیم کے کئی لڑکے عمارہ کی باتوں پر ہنس رہے تھے اور کئی خاموش بیٹھے اس کی باتوں کے متعلق سوچ رہے تھے اسامہ واش روم گیا۔ اس نے سنک کا نل کھولا اور مہ دھونے لگا۔ اس نے ایک ہاتھ سے ہی منہ دھویا اور اپنی آنکھوں میں چھینٹے مارنے لگا۔ اس نے تولیہ اٹھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو وہاں تو لیہ نہیں تھا۔ اس نے دوسرے اسٹینڈ سے تولیہ اٹھایا اور آئینے میں دیکھتے ہوئے چہرہ خشک کرنے لگا۔ اسے نل میں سے پانی گرنے کی آواز آئی۔ اس نے چونکتے ہوئے نل کی طرف دیکھا کیونکہ اس نے اچھی طرح سے نل بند کر دیا تھا۔ نل پوری طرح کھلا ہوا تھا اور اس سے کافی پانی نکل رہا تھا۔
اسامہ سینک کی طرف بڑھا اور دوبارہ نل بند کرنے لگا مگر اس کا وال اس قدر سخت تھا کہ اپنی جگہ سے ہل نہیں رہا تھا۔ سینک کے سوراخ میں ربڑ نہیں لگایا تھا اس کے باوجود سینک میں پانی جمع ہو رہا تھا، پانی پائپ کی طرف نہیں جا رہا تھا۔
’’یہ کیا گڑ بڑ ہوگئی ہے۔‘‘ اسامہ سینک کی جالی چیک کرنیلگا۔ کہ اچانک سے واش روم کا دروازہ خود بخود بند ہوگیا اور چٹخنی بھی لگ گئی۔ اسامہ کو خوف محسوس ہونے لگا۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے چاروں طرف دیکھنے لگا۔
’’کون ہے ۔۔۔‘‘
سینک اوپر تک پانی سے بھر گیا اور پانی اچھل اچھل کر باہر گرنے لگا۔ وہ ایک بار پھر سینک کا سوراخ کھولنے کی کوشش کرنے لگا۔ اچانک زلزلے کی سی گڑگڑاہٹ کے ساتھ باتھ روم کے دروازے اور کھڑکیاں ہلنے لگیں۔ باتھ روم کی کھڑکی جو باہر کی طرف کھلتی تھی چٹاخ سے کھل گئی۔
اسامہ کو محسوس ہوا جیسے آئینے میں کسی کا عکس ہے اس نے سر اوپر کرتے ہوئے آئینے کی طرف دیکھا تو پلک جھپکتے ہی وہ عکس غائب ہوگیا اور روشنی کی ایک تیز شعاع باہر سے کھڑکی کی جالی کو چیرتی ہوئی آئینے کی طرف بڑھی اور اس سے منعکس ہو کر اسامہ کی بائیں آنکھ میں داخل ہوگئی۔
اسامہ جیسے پتھر کا ہوگیا۔ قدموں کو تھوڑا تھوڑا موڑتے ہوئے اس نے کھڑکی کی طرف منہ کر لیا کھڑکی کے ساتھ دیوار پر کوئی سایہ تھا جو اس کا نہیں تھا کیونکہ سائے کے دونوں ہاتھ تھے۔ وہ سایہ دھیرے دھیرے اسامہ کی طرف بڑھتا گیا اور پھر اس کے جسم میں داخل ہوگیا۔ جس کے ساتھ ہی اسامہ بیہوش ہوگیا۔
دروازے کی چٹخنی خود بخود کھل گئی۔ کافی دیر اسامہ کے باہر نہ آنے پر شاگردوں کو تشویش ہوئی۔ ایک لڑکا باتھ کی طرف بڑھا۔ اس نے دروازے پر ہاتھ رکھا تو دروازہ کھل گیا۔ سامنے میجر اسامہ بیہوش پڑا تھا۔ لڑکے نے آگے بڑھ کر چیک کیا پھر اس نے دوسرے لڑکوں کو بلایا۔ تین لڑکوں نے مل کر اسامہ کو اٹھایا۔ وہ اسے اندر ہال میں لے گئے۔ انہوں نے اسے صوفے پر لٹایا۔ ایک لڑکا جلدی سے میڈیکل بکس لے آیا۔ انہوں نے اسے معمولی سی ٹریٹمنٹ دی جس سے اسے ہوش آگیا۔
اس نے کانپتے ہونٹوں سے چاروں اور دیکھا جیسے تھوڑی دیر کے لیے اس کا ذہن سو گیا ہو، کچھ دیر بعد اس کی آنکھوں میں شناسائی سی جھانکنے لگی۔’’مجھے کیا ہوا تھا؟‘‘ اسامہ نے لڑکوں کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’سر آپ بیہوش پڑے تھے۔ شکر ہے خدا کا کہ آپ کوہوش آگیا ہے۔ اوپر جا کے آپ آرام کر لیں۔ ہم سب خود ہی پریکٹس کر لیں گے۔‘‘ ایک لڑکے نے کہا۔
اسامہ اٹھنے لگا تو اسے خاصی نڈھا لگی محسوس ہو رہی تھی۔ ایک لڑکا آگے بڑھا’’سر میں آپ کو اوپر تک چھوڑ آتا ہوں۔‘‘
لڑکا اسامہ کو سہارا دیتا ہوا بالائی منزل تک چھوڑ آیا۔ سارے شاگرد دوبارہ اپنی پریکٹس میں مشغول ہو گئے۔ اسامہ اپنے بستر پر لیٹ کر سوچتا رہا کہ واش روم میں کیا تھا وہ کون سی پراسرار طاقت تھی۔ جسنے اس کے فولاد جیسے وجود کو ایک ہی جھٹکے میں نڈھال کر دیا۔ ایسے ہی سوچتے سوچتے اس کی آنکھ لگ گئی۔ وہ اس وقت جاگا جب ایک لڑکے کی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔
’’سر۔۔۔‘‘
اسامہ نے آنکھیں کھولیں’’سر ہم سب جا رہے ہیں ہماری پریکٹس مکمل ہوگئی ہے۔‘‘ لڑکے نے بتایا۔
’’ٹھیک ہے تم لوگ جاؤ۔‘‘ اسامہ نے کہا۔
لڑکے کے جانے کے بعد اسامہ اپنے بستر سے اٹھا اب وہ خود کو تندرست و توانا محسوس کر رہا تھا۔ وہ کھڑکی کی طرف بڑھا۔ اس نے پردے پیچھے کیے۔ شہر کا خوبصورت نظارہ اس کی آنکھوں کے سامنے تھا۔ اس کا ذہن ایک بار پھر اس خبرکی طرف چلا گیا۔ اس بار اسے یہ خبر کسی پہیلی کی طرح نہیں لگ رہی تھی بلکہ اس کا ذہن اسے بار ہا یقین دلا رہا تھا کہ واقعی ہمزاد یہ سب کچھ کر سکتا ہے۔ اس خبر میں کہیں بھی کوئی جھوٹ نہیں ہے یہ ایک خوفناک حقیقت ہے۔
یہ ایک ناگہانی آفت ہے جو دھیرے دھیرے پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ اس نے وال کلاک کی طرف دیکھا۔ دوپہر کے تین بج رہے تھے۔’’میں اتنی دیر تک سوتا رہا۔‘‘
اس نے خود کلامی کی۔ اسے بھوک لگ رہی تھی۔ اس نے فریج سے برگر نکالا اور اسے اوون میں گرم کر لیا۔ اس نے فریج سے کیچپ بھی نکال لیا۔ وہ اپنا یہ مختصر سا لنچ لے کر صوفے پر بیٹھ گیا۔
***
اگلی صبح ہونے سے پہلے جب لوگ فجر کی نماز کی تیاری میں مصروف تھے۔ زرغام اپنے ناپاک ارادوں کی تکمیل میں مصروف تھا۔ وہ دریا کے کنارے ایک نوجوان کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ نوجوان کے ہاتھ میں ایک الو تھا۔ سورج طلوع نہیں ہوا تھا اس لیے ابھی اندھیرے کا ہی راج تھا۔
لڑکے نے ایک ہاتھ میں ایمرجنسی لائٹ پکڑی ہوئی تھی۔ دھیرے دھیرے یہ اندھیرا چھٹ رہا تھا اور مدھم مدھم روشنی ہونے لگی تھی۔ زرغام نے جینز اور شرٹ کے ساتھ لانگ کوٹ پہنچا ہوا تھا جبکہ لڑکا قمیص شلوار میں تھا۔
زرغام کے ہاتھ میں ایک گڑیا تھی جس نے سرخ رنگ کا دلہن کا لباس پہنا ہوا تھا۔ زرغام کے پاس ایک ڈبیہ میں بہت سی سوئیاں تھیں۔ اس نے ڈبیہ کھول کر زمین پر رکھ دی۔ اس نے گڑیا زمین پرلٹائی اور ڈبیہ سے سوئیاں نکالنے لگا۔
اس نے ہنستے ہوئے نوجوان کی طرف دیکھا’’ایک سوئی دلہن کے دماغ پر اور ایک سوئی دلہن کے دل پر‘‘یہ کہہ کر اسنے ایک سوئی گڑیا کے سر پر لگائی اور ایک سوئی گڑیا کے سینے پر لگا دی۔ پھر زرغام نے وہ گڑیا ایک طرف رکھ دی اور ایک بڑی سی پلیٹ نکالی ساتھ ہی ایک چھوٹا سا شاپر نکالا۔ شاپر میں آٹا تھا اس نے آٹا پلیٹ میں ڈال دیا۔
نوجوان نے الو کو بمشکل قابو کرکے اس کے گلے پر چھری پھیر دی۔ الو تڑپنے لگا۔ نوجوان نے سرکٹے تڑپتے الو کو خشک آٹے کے اوپر لٹکا دیا۔ الو کے پنجے نوجوان کے ہاتھوں میں تھے، وہ اسے آٹے پر دائرے میں گھمانے لگا جس سے الو کے جسم سے نکلتا خون آٹے پر دائرے بنانے لگا۔ ساتھ ساتھ وہ نوجوان اپنا ناپک منتر بھی پڑھتا جا رہا تھا۔(جاری ہے )
وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 47ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں