وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 47ویں قسط
زرغام کا یہ شاگرد اپنا کام بڑی مہارت سے کر رہا تھا۔ ان دونوں کو اپنا یہ کالا جادو طلوع آفتاب سے قبل مکمل کرنا تھا۔ زرغام نے تھوڑا سا پانی ڈال کر اس خون ملے آٹے کو گوند دیا۔ پھر اس نے لکڑی کی ایک ٹرے پر اس آٹے کو رکھ کر اس کا ایک پتلا بنا دیا۔ اس نے اس پتلے کے جسم پر بہت سی سوئیاں لگا دیں۔
اس نے دلہن بنی گڑیا اس پتلے کے ساتھ رکھ دی۔ اس نے وہ لکڑی کی ٹرے دریا میں بہادی اور انتہائی سفاکی سے ہنسنے لگا۔’’جاؤ دلہن اپنا دلہا ساتھ لے جاؤ۔ اس بار کام الٹا ہے۔ دولہا، دلہن کو لے کر نہیں جائے گا بلکہ دلہن دولہے کو لے جائے گی مگر دھیان رہے کہ کچھ دیر بعد یہ کشتی ڈوب جائے گی اور آٹے کا دولہا پانی میں گھل جائے گا۔‘‘
نوجوان کے لبوں پہ بھی شیطانی مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس نے زرغام کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔ ’’سر! اپنا سامان سمیٹتے ہیں، سورج نکلنے والا ہے۔‘‘ ان دونوں نے اپنا سامان سمیٹا اور وہاں سے نکل گئے۔
وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 46ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
***
اسامہ حسب معمول صبح کے چھے بجے واک کے لیے گھر سے نکلا۔ گھر کے قریب ہی ایک کھلا میدان تھا۔ واک کے بعد وہ میدان میں ورزش کرنے لگا۔ وہ خود میں غیر معمولی تبدیلی محسوس کر رہا تھا۔ سرچ کیے بغیر کچھ معلومات اس کے ذہن میں خود بخود جمع ہوگئی تھیں۔
اس کا ذہن اسے مجبور کر رہا تھا کہ وہ ان سب حقائق پر یقین کرے۔ ایک رات میں وہ اسامہ، اسامہ نہیں رہا تھا۔ وہ یوگا کے انداز میں ہاتھوں کی انگلیوں اور پیروں کے پنجوں پر وزن ڈالتے ہوئے جھکا ہوا تھا۔
اچانک سے اس کا پھولا ہوا سانس بحال ہوگیا۔ اس کی جسمانی قوت بڑھ گئی۔ آنکھوں کی پتلی کا رنگ سیاہ سے نیلا ہوگیا۔ وہ سیدھا کھڑا ہوگیا۔ اس کاذہن اپنے کسی ادھورے کام کی طرف مائل ہوگیا۔ وہ بے چینی سے اپنے ٹراؤزر کی جیبیں ٹٹولنے لگا۔ اس کے ہاتھ ایک چیز لگی۔ یہ کپڑے کا پاؤچ تھا اسنے وہ باہر نکالا اسے کھولا تو اسمیں نگینوں سے جڑا پنجا لگا تھا۔ جس میں عقیق، نیلم اور یاقوت کے پتھروں کو باریک باریک زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔ یہ زنجیریں ایک طرف ایک انگوٹھی سے منسوب تھی جس میں زرقون لگا تھا اور دوسری طرف وہ ایک کڑے سے جڑی تھیں۔ اسامہ کے لیے وہ نئی چیز تھی مگر اس کے ذہن میں اس چیز کی یادداشت موجود تھی۔ وہ اسے پہچانتا تھا۔ اس نے وہ پنجا گلا اپنے ہاتھ میں پہن لیا۔
گھر سے نکلتے ہوئے اس کے ٹراؤزر میں کوئی چیز نہیں تھی مگر اس کا وقت لمحہ بہ لمحہ بدل رہا تھا۔ اس نئی تبدیلی کے ساتھ ساتھ وہ اپنے موجود وقت سے بھی نہیں کٹا تھا مگر کوئی تھا جو اس کے ذہن میں داخل ہوکے اسے نئے راستے پر چلارہا تھا۔
***
عمارہ اپنے کلینک میں گم صم سی بیٹھی تھی۔ صبح کے نو بجرہے تھے اس لیے وہ ابھی فارغ تھی ابھی اس کے کلینک میں کوئی مریض نہیں تھا۔ وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی کہ فون کی بیل بجی۔ اس نے فون اٹھایا تو ظفر لائن پر تھا۔
’’کیسی ہو۔۔۔؟‘‘ ظفر نے پوچھا۔
’’بس ٹھیک ہوں۔۔۔‘‘ عمارہ نے رندھی ہوئی آواز میں کہا۔
ظفر نے ٹھنڈی آہ بھری’’ہم ابھی تک کچھ بھی نہیں کر سکے۔ ابھی مل کر کچھ کرنے کا وقت ہے اور ساحل۔۔۔‘‘
’’ساحل کو کیا ہوا۔۔۔؟‘‘ عمارہ نے پوچھا۔
’’تم تو سائیکاٹرسٹ ہو تم اس کا علاج کر سکتی ہو۔۔۔‘‘
’’لیکن مسئلہ کیا ہے۔۔۔؟‘‘
ظفر نے عمارہ کو ساری بات بتائی کہ کس طرح ساحل کو وشاء نظر آئی۔ عمارہ سب سن کر سخت پریشان ہوگئی۔
’’یہ توبہت خطرناک بات ہے۔ ساحل کو تو سمجھایا جا سکتا ہے مگر وشاء اس کو پیچھا اتنی آسانی سے نہیں چھوڑے گی۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ ساحل کی جان کو خطرہ ہے۔‘‘ ظفر بھی پریشان ہوگیا۔
’’اب ہمیں کیا کرنا چاہئے۔‘‘
’’فی الحال تو آپ ساحل کو میرے پاس بھیجیں۔ میں اسے سمجھا دوں پھر دیکھتے ہیں کہ کیا کرنا چاہئے۔ مجھے بہت امید تھی کہ خیام ہماری مدد کرے گا مگر پچاس لوگوں کو اموات کے بعد مجھے اس سے بھی کوئی امید نہیں رہی۔‘‘
ظفر نے عمارہ کی بات کی تردید کی’’یہ بہت پیچیدہ اور راز کی باتیں ہیں۔ ہم نہیں جان سکتے ہیں کہ خیام نے ایسا کیوں کیا تم اس سے روحانی عمل کے ذریعے سے بات کرو۔‘‘
’’اس نے مجھے منع کیا تھا کہا سے عمل سے بلانے کی کوشش نہ کی جائے۔ اس نے کہا تھا کہ جب ہمیں اس کی مدد کی ضرورت ہوگی تو وہ آجائے گا۔‘‘ عمارہ نے بتایا۔
ظفر نے اسے تسلی دی’’خدا پر بھروسا رکھو وہ ضرور کسی نہ کسی کو مسیحا بنا کے بھیجے گا ہم نے جومیڈیا کے ذریعے مدد کی اپیل کی ہے اس سے ہمیں فائدہ ضرور ہوگا۔ ہم خیام کے بارے میں کوئی اندازہ نہیں لگا سکتے کیونکہ وہ کوئی انسان نہیں ہمزاد ہے۔ ہماری سوچ اور ہمارا علم محدود ہے۔‘‘
عمارہ نے لمبا سانس کھینچا۔’’شاید میں زیادہ جذباتی ہو رہی ہوں بہرحال ساحل والا مسئلہ تو پریشان کن ہے۔ آپ جتنی جلدی ہو سکے ساحل کو میرے پاس بھجیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے میں آج ہی ساحل سے بات کرتا ہوں۔‘‘ ظفر نے فون بند کردیا۔
ساحل اپنے کپڑے استری کر رہا تھا ، ردا کالج جا چکی تھی۔ راحت ساحل کے پاس آئی۔ ’’چھوڑو! میں استری کرتی ہوں۔‘‘
ساحل نے بہت پیار سے ماں کا ہاتھ پیچھے کیا’’میری پیاری امی جان میں کر لوں گا۔ آپ میری جرابیں اور بوٹ نکال دیں۔‘‘
’’کہاں جا رہے ہو؟‘‘ راحت نے پوچھا۔
’’ایک جاب کے لیے اپلائی کیا ہے اسی کے انٹرویو کے لیے جا رہا ہوں۔‘‘
’’اور تمہاریCSSکی تیاری۔۔۔؟‘‘
’’وہ تیاری بھی ہوتی رہے گی۔۔۔میرے لیے چھوٹی سی جاب بہت ضروری ہے۔ جس سے میں گھر کا کچھ خرچہ بھی نکال سکوں اور پڑھائی کے لیے بھی وقت نکال سکوں۔ آپ بے فکر رہیں۔ پہلے جو بھی ہوا اس پر میرا بس نہیں تھا میں CSSکی تیاری نہیں کر سکا۔ مگر اب میں نے سوچ لیا ہے کہ کسی کے جانے سے زندگی ختم ہیں ہوتی۔ آپ اور ردا بھی میری ذمہ داری ہیں۔ میں پوری محنت سے اب CSS کی تیاری کروں گا۔‘‘ ساحل نے استری کی ہوئی پینٹ ہینگر پر لٹکاتے ہوئے کہا۔
راحت کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ اس نے ساحل کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا۔’’خدا تمہیں کامیاب کرے۔‘‘ پھر وہ کمرے میں گئی اور وہاں سے تعویذ اٹھا کے لے آئی۔
اس نے تعویذ ساحل کے گلے میں ڈالا’’تم سے میں نے کتنی بار کہا ہے کہ یہ تعویذ گلے میں پہن کے رکھو۔ خدا تمہیں ہر مصیبت سے بچائے گا۔‘‘
ساحل نے مسکراتے ہوئے ماں کی طرف دیکھا’’نہ اتناوہم کیا کریں۔۔۔مجھے کچھ نہیں ہو گا‘‘ یہ کہہ کر ساحل دوبارہ اپنی شرٹ استری کرنے لگا۔
راحت گھر کے کاموں میں مصروف ہوگئی۔ ساحل کپڑے تبدیل کرنے لگا تو اس نے اپنے چہرے کو چھوا۔’’اوہ میں نے تو شیو کی ہی نہیں۔‘‘
اس نے کپڑے استری اسٹینڈ پر رکھے اور واش روم کی طرف بڑھا۔ اسے تعویذ کا خیال آیا واش روم میں جانے سے کہیں تعویذ کی بے ادبی نہ ہو اس خیال سے اس نے تعویذ گلے سے اتار کر استری اسٹینڈ پر رکھ دیا۔
اس نے شیو کی اور پھر کپڑے تبدیل کرلیے۔ پھر وہ تیزی سے اپنی موٹر بائیک کی طرف بڑھا’’امی دروازہ بندکرلیں۔ مجھے دیر ہو رہی ہے۔ میں جا رہا ہوں۔‘‘
راحت، بیٹے کی آواز سن کر سارے کام چھوڑ کر باہر آگئی۔ ساحل جا چکا تھا’’اللہ کے حوالے‘‘ یہ کہہ کر اس نے دروازہ بند کرد یا۔
تقریباً بیس منٹ کے بعد ساحل مین روڈ پر تھا جہاں خاصی ٹریفک تھی۔ اس کی موٹر بائیک بھی اب آہستہ چل رہی تھی۔ اس نے ہینڈل پر زور سے ہاتھ مارا۔’’کیا مصیبت ہے، سارا وقت تو میرا یہیں لگ جائے گا۔ مجھے ذرا پہلے نکلنا چاہئے تھا۔ کچھ دیر بعد گاڑیوں کی بھیڑ ذرا کم ہوئی تو اس نے اپنی بائیک کی سپیڈ دوبارہ تیز کر دی۔
نہ جانے کہاں سے اچانک سفید چادر اوڑھے ایک لڑکی ہاتھ کو لہراتی ہوئی اس کی بائیک کے آگے آگئی۔ فاصلہ کم ہونے کی وجہ سے ساحل نے بمشکل بریک لگائی ممکن تھا کہ بائیک اس لڑکی سے جا ٹکراتی۔ ساحل غصے میں بائیک سے اترا اور لڑکی پربرس پڑا۔
’’اندھی ہو یا مرنے کا شوق ہے۔ جانتی ہو جس طرح میں نے بریک لگائی ہے یا میں مرتا یا تم۔‘‘ لڑکی کے ہاتھ میں دوائی کی بوتل تھی اور وہ مسلسل رو رہی تھی۔
اس نے دوا کی بوتل ساحل کو دکھائی اور گلوگیر لہجے میں بولی’’میری ماں سخت بیمار ہے اگر میں نے یہ دوا بروقت نہ پہنچائی تو وہ مر جائے گی۔ میں نے کتنے لوگوں کو روکنے کی کوشش کی مگر کوئی نہیں رکتا۔ دور دور تک کوئی راستہ بھی نہیں ملا۔‘‘
لڑکی نے روتے روتے ساحل کے آگے ہاتھ جوڑ لیے’’میں آپ کی منت کرتی ہوں، آپ مجھے میرے گھر تک چھوڑ دیں۔‘‘
ساحل نے گھڑی دیکھی’’مجھے تو انٹرویو کے لیے جانا ہے مجھے دیر ہو جائے گی۔‘‘
’آپ کو تو نوکری اور بھی مل جائے گی مگر مجھے میری ماں نہیں ملے گی‘‘ لڑکی نے پھر منت کی۔
ساحل نے ٹھنڈی آہ بھری’’اچھا۔۔۔آجاؤ بیٹھ جاؤ میرے ساتھ۔‘‘
ساحل نے بائیک سٹارٹ کی تو لڑکی جلدی سے اس کے پیچھے بیٹھ گئی۔ ادھر راحت گھر کی چیزیں سمیٹ رہی تھی۔ اس نے استری اسٹینڈ سے کپڑے اٹھائے تو اس کی نظر تعویذ پر پڑی اس نے تعویذ اٹھایا’’یہ لڑکا کبھی میرے بات سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ میرے کہنے کے باوجود اس نے تعویذ اتار دیا۔‘‘
وہ تعویذ اٹھا کے اندر لے گئی۔(جاری ہے )
وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 48ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں