وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 48ویں قسط
ساحل لڑکی کے بتائے ہوئے راستے پر چل رہا تھا مگر اس کا ذہن اس نوکری کی طرف ہی تھا۔’’میں اب اس انٹرویو کے لیے نہیں پہنچ سکتا نہ جانے ایسی نوکری دوبارہ ملے گی بھی یا نہیں۔‘‘ اس نے بیزاری سے راستے کی طرف دیکھا’’اور کتنی دور ہے تمہارا گھر۔۔۔‘‘
’’بس نزدیک ہی ہے۔۔۔آپ سیدھا جا کے دائیں طرف مڑجائیں۔‘‘ لڑکی نے انتہائی معصومیت سے کہا۔
ساحل نے تشویش بھرے لہجے میں پوچھا’’وہ سڑک تو قبرستان کی طرف جاتی ہے۔‘‘
’’کیوں کیا ہوا؟ کیا قبرستان کے پاس لوگ نہیں رہتے۔‘‘
وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 47ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
لڑکی نے ساحل کو خاموش کر دیا۔ ساحل سیدھا جا کے دائیں طرف مڑ گیا۔ تھوڑے ہی فاصلے کے بعد سڑک کے ساتھ ساتھ قبرستان کی دیوار شروع ہوگئی۔ لڑکی نے ساحل سے قبرستان کے داخلی دروازے کے قریب بائیک روکنے کے لیے کہا۔ ساحل نے بائیک روک دی۔ لڑکی بائیک سے اتری تو ساحل بھی بائیک سے اتر گیا۔
’’یہ تم قبرستان میں کہاں جا رہی ہو۔۔۔؟‘‘ گندمی رنگت والی دبلی پتلی سی وہ لڑکی اٹھارہ یا انیس سال کے لگ بھگ معلوم ہو رہی تھی۔ اس نے اپنی لمبی لمبی غزالی آنکھوں سے ساحل کی طرف دیکھا۔
’’اندر تو آؤ میں تمہیں سب سمجھا دوں گی۔‘‘
ساحل کے من میں سوال اٹھ رہا تھا کہ ماں کی بیماری کو لے کر اس قدر بے چین اور گھبرائی ہوئی لڑکی میں اچانک تحمل کیسے آگیا۔ ا س لڑکی کی بات میں نہ جانے ایسا کیا تھا کہ ساحل اسے منع نہ کر سکا اور اس کے ساتھ ساتھ چل پڑا۔
وہ دونوں چھوٹے سے تنگ سے راستے پر چل رہے تھے۔ اس راستے کے دونوں طرف قبریں تھیں۔ اکثر قبرستان میں کوئی نہ کوئی شخص دکھائی دیتا ہے مگر اس قبرستان میں مکمل سناٹا تھا۔ دور دور تک سوائے ان دونوں کے کوئی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
’’یہ قبریں جو عبرت کی کہانیاں سناتی ہیں۔ کبھی ڈارتی ہیں، کبھی رلاتی ہیں۔ انسان کے غم سے نڈھال چور چور وجود کو دنیا سے چھپا کے خود میں سمو لیتی ہیں۔‘‘ ساحل اپنے دھیان میں بول رہا تھا۔
لڑکی نے پلٹ کر پوچھا’’تم بھی ڈرتے ہو ان قبروں سے۔‘‘
’’نہیں۔۔۔! میں نہیں ڈرتا۔‘‘
’’اچھا۔۔۔آج پتہ چل جائیگا۔‘‘ لڑکی نے تمسخرانہ انداز میں کہا۔
’’کیا مطلب؟‘‘
لڑکی نے جواب دینے کے بجائے اپنی انگلی سے سامنے کی طرف اشارہ کیا’’وہ سامنے کوٹھڑی دیکھ رہے ہو۔۔۔وہی میرا گھر ہے۔‘‘
’’تمہارا بھائی یا والد گورکن ہوں گے اس لیے تم لوگ قبرستان میں رہتے ہو۔۔۔اور تم تو بہت پریشان اور جلدی میں تھیں۔ اب کیوں اتنا آہستہ چل رہی ہو، جا کے ماں کو دوا دو۔‘‘
لڑکی چلتے چلتے رک گئی۔ اس نے دوا کی بوتل ہوا میں اچھال دی۔’’دوا کا تو بہانہ تھا۔۔۔مجھے تو تم سے کسی کو ملوانا تھا۔‘‘
ساحل گھبرا سا گیا’’کیا بکواس کر رہی ہو۔‘‘
’’اندر کوٹھڑی میں کوئی تہارا بے چینی سے انتظار کر رہا ہے۔‘‘
ساحل کو تعویذ کا خیال آیا جو اس کے گلے میں نہیں تھا۔ وہ واپس پلٹنے لگ’’مجھے کسی سے نہیں ملنا۔‘‘
اچانک وشاء کی آوازاس کی سماعت سے ٹکرائی۔’’کہاں جا رہے ہو۔ صرف ایک بار مجھے اپنی جھلک دکھا دو۔‘‘
ساحل نے پلٹ کر پیچھے دیکھا تو وہ آواز کوٹھڑی کی طرف سے آرہی تھی۔ وشاء کی آواز نے ساحل کو بے چین کر دیا۔ اس پر عجب سا سحر طاری ہوگیا جس میں اس کے ذہن میں اسی وشاء کا خیال ابھرنے لگا جو اسے چاہتی تھی۔
اس کے قدم بے خودی میں اس کوٹھری کی طرف اٹھنے لگے۔ جونہی ساحل کو ٹھری میں داخل ہوا۔ جیسے اس کی سانسیں تھم گئیں۔ اس پر دل کے احساسات کا فسوں چھا گیا۔ اس کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش تکمیل کا روپ لیے اس کے سامنے بیٹھی تھی۔
وشاء دلہن کے سرخ لباس میں ایک پرانی سی چارپائی پر اس کے سامنے بیٹھی تھی۔
’’وشاء۔۔۔‘‘ جونہی ساحل کے منہ سے وشاء کا نام نکلا۔ کمرے کا ماحول کسی طلسم سے چند ہی ساعتوں میں بدل گیا۔ مٹی کی کوٹھری کسی شاندار کمرے میں تبدیل ہوگئی۔ وشاء دلہن بنی مخملی بستر کے خوبصورت پلنگ پر بیٹھی تھی۔ساحل نے مبہوت نظروں سے اپنے لباس کی طرف دیکھا، اسکا لباس بھی تبدیل ہو چکا تھا۔ اس نے براؤن شیروانی اور چوڑی دار پاجامہ پہنا ہوا تھا اس کے سر پر کلاہ تھا۔ یہ مبہم سی تبدیلی اسکی سماعت میں سرگوشیاں کر رہی تھی کہ آج اس کی اور وشاء کی شادی ہے آج وہ اور وشاء ایک ہونے والے ہیں۔ جس محبوب کا غم اس کے لیے عمر بھر کا روگ بن گیا تھا۔ آج وہ غم اسکی عمر بھر کی خوشی میں بدلنے جا رہا تھا۔
خوشی کے ایک خوبصورت احساس کے ساتھ ساتھ دماغ کی کوئی قوت تھی جو اسے وہاں سے جانے کے لیے کہہ رہی تھی مگر آہستہ آہستہ اس کی سوچیں کسی کی تابع ہوتی جا رہی تھیں۔
وہ دھیرے دھیرے وشاء کی طرف بڑھنے لگا اسے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ اس نے پلٹ کر دیکھا تو وہی کم سن لڑکی چادر اوڑھے دروازے پر کھڑی تھی۔
وہ لڑکی ساحل کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگی پھر اس نے آنکھیں بند کرلیں ایک ہی پل میں اس کا سادہ سا لباس سبز رنگ کی کرتی اور لہنگے میں بدل گیا۔ اس کا چہرہ بھی بدل گیا۔ ساحل کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ وہ حوریہ تھی۔ جس کے لبوں پہ شیطانی مسکراہٹ بکھری ہوئی تھی۔
اس بار اس کے ذہن نے اسے پوری طرح جھٹک دیا۔ اسے ہوش آنے لگا کہ وہ یہاں سے نکل جائے، وہ تیزی سے دروازے کی طرف بڑھا تو وشاء کی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔’’مجھے اس طرح چھوڑ کر جا رہے ہو۔‘‘
ایک بار پھر ساحل اپنے ہوش کھو گیا۔ وہ دوبارہ وشاء کی طرف بڑھنے لگا۔ وہ وشاء کے قریب بیٹھ گیا۔ وہ پری جیسی دکھ رہی تھی۔ خوبصورت اور معصوم۔۔۔وہ حسن اس دنیا کا تھا ہی نہیں۔۔۔وہ کسی کے خوابوں کی شہزادی تھی یا کسی مصور کا تخیل۔۔۔جو بھی تھی وہ ساحل کی تھی۔
اس نے اپنی دمکتی آنکھوں سے ساحل کی آنکھوں میں جھانکا۔’’اب یہ وشاء تم سے کبھی دور نہیں جائے گی۔ کچھ دیر کے بعد ہماری شادی ہو جائے گی اور ہم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک ہو جائیں گے۔‘‘
ساحل کی نظریں وشاء کے چہرے پر ٹھہر گئی تھیں خود پر رشک کرنے کو دل چاہ رہا تھا مگر کوئی شائبہ تھا جو دماغ میں کروٹیں بدل رہا تھا، ایسے سراپا حسن کا مالک بننے جا رہا تھا مگرخوشی کے اس احساس میں دبی چنگاریوں کو بھی محسوس کر رہا تھا۔
عجیب سا اضطرارتھا۔ وشاء نے آنکھوں ہی آنکھوں میں حوریہ کو کوئی اشارہ کیا حوریہ وہاں سے چلی گئی کچھ دیرکے بعد وہ کاغذ کی سجی ہوئی پلیٹ میں ایک گہنا لے کر آئی۔
وہ مسکراتی ہوئی ساحل کی طرف بڑھی۔ وہ پلیٹ لے کر اس کے قریب بیٹھ گئی۔’’اپنا ہاتھ اوپر کرو، میں تمہیں یہ گہنا پہنا دوں۔‘‘
وشاء نے شرماتے ہوئے پلکیں جھکا دیں۔ ساحل نے حوریہ سے موتیے کے پھولوں کا گہنا پہن لیا۔ گہنا پہنتے ہی اس کی مدہوشی کو جھنجھوڑتی ہوئی اس کی ذہنی قوتیں سو گئیں۔اسے وشاء کے علاوہ کچھ یاد نہیں رہا۔ وہ اپنی زندگی کے دوسرے رشتوں سے بے خبر ہوگیا۔
وشاء پلنگ سے نیچے اتری اوراپنے بھاری بھرکم عروسی جوڑے کو سنبھالتی ہوئی ساحل کے پاس کھڑی ہوگئی۔ا س نے ہاتھ ساحل کی طرف بڑھایا۔’’آؤ میرے ساتھ میں تمہیں ایک ایسی جگہ دکھاتی ہوں جسے دیکھ کر تم دنگ رہ جاؤ گے۔‘‘
ساحل مسکراتے ہوا وشاء کا ہاتھ تھام کر کھڑا ہوگیا۔ وشاء دروازے کی طرف بڑھی اور وہ دونوں کمرے سے باہر چلے گئے۔ باہر ایک خوبصورت لان تھا بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ باغ تھا جس میں بے شمار پھل دار درخت تھے۔ وہ ٹہلتے ٹہلتے مالٹوں کے درختوں کے قریب آگئے۔و شاء نے ایک لمحے کے لیے بھی ساحل کا ہاتھ نہیں چھوڑا۔ درختوں کے بیچ میں ہی نیچے جانے کا راستہ بنا ہوا تھا وہاں ایک سیڑھی بھی دکھائی دے رہی تھی۔ وشاء اس سیڑھی کی طرف بڑھی تو ساحل نے تعجب سے پوچھا۔
’’یہ ہم نیچے کہاں جا رہے ہیں۔۔۔؟‘‘
وشاء نے مسکراتی آنکھوں سے ساحل کی طرف دیکھا’’جو جگہ تمہیں دکھانا چاہتی ہوں، وہ یہیں تو ہے۔‘‘
ساحل بھی وشاء کے ساتھ ساتھ اس زینے سے نیچے اترنے لگا۔ حوریہ بھی ان کے ساتھ ساتھ تھی۔
(جاری ہے )