وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 40ویں قسط
عمارہ کے والد فوت ہوئے نو برس ہو چکے تھے۔ وہ اپنی والدہ کا واحد سہارا تھی۔ ظفر کے گھر سے وہ سیدھی اپنے کلینک گئی۔ دو خواتین مریضہ اس کا انتظار کر رہی تھیں۔ اس نے ان دونوں کو باری باری چیک کیا۔ فارغ ہونے کے بعد اس نے اپنی اسٹنٹ سے چائے منگوانے کو کہا۔ اس کی اسسٹنٹ عنبر اس کے لئے چائے لائی تو عمارہ سر پکڑے بیٹھی تھی۔
’’خیریت ہے آپ پریشان لگ رہی ہیں۔‘‘ عنبر نے پوچھا۔
عمارہ نے اپنی انگلیوں کی پوروں سے اپنی آنکھوں کے پپوٹوں کو دھیرے دھیرے سے دباؤ دیا اور اپنے سر کو کرسی کی پشت سے ٹکا لیا۔
’’بہت پیچیدہ مسئلہ ہے، میں نے اپنی آٹھ سال کی پریکٹس میں ایسا مسئلہhandleنہیں کیا۔ مگر وہ خاندان اتنی مشکل میں ہے کہ میں ہر حال میں ان کی مدد کروں گی۔‘‘
’’آخر ایسا کیا معاملہ ہے؟‘‘
’’بتاؤں گی تمہیں۔۔۔کیونکہ مجھے تمہاری مدد بھی چاہئے ہوگی۔‘‘
اسی دوران عمارہ کے گھر سے فون آگیا۔ اس کی والدہ رابعہ آن لائن تھیں۔
وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 39ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’جی امی جان۔۔۔‘‘ عمارہ نے فون ریسیو کیا۔
’’امی کی جان! تم نے پورے سات بجے گھر آجانا ہے۔۔۔کسی مریض کو چیک نہیں کرنا۔۔۔تمہیں معلوم ہے کہ تمہاری امی بالکل اکیلی ہوتی ہے۔‘‘
عمارہ نے ہونٹوں کو چباتے ہوئے عنبر کی طرف دیکھا اور بھنوؤں کو اچکاتے سوچنے لگی کہ ماں کو کیسے مناؤں کہ آج اسے نو بجے تک کلینک میں ہی رہنا ہے۔ اس نے ہمت کرکے بات شروع کی۔
’’امی جان! آپ کی بات درست ہے۔ میں پوری کوشش کرتی ہوں کہ سات بجے آپ کے پاس پہنچ جاؤں مگر کبھی کوئی ایسا مریض آجاتا ہے کہ رکنا پڑتا ہے آپ سے بڑی معذرت چاہتی ہوں۔ مجھے نو بجے تک کلینک میں رکنا ہوگا۔میں گھر آکے آپ کو سب کچھ سمجھا دیں گی پلیز امی جان۔۔۔آپ کے پاس ملازمہ ہے نا، آپ اسے نو بجے سے پہلے گھر مت بھیجنا۔‘‘
’’جو مرضی کرو، تمہارے پاس اپنی ماں کے لیے وقت ہی نہیں ہے۔‘‘ رابعہ نے خفگی سے فون بند کر دیا۔
’’امی۔۔۔‘‘ عمارہ بس بولتی ہی رہ گئی۔ اس نے رسیور رکھا اور بک شیلف سے کوئی کتاب ڈھونڈنے لگی۔
اسے اپنی مطلوبہ کتاب مل گئی ۔ وہ کتاب لے کر پڑھنے بیٹھ گئی۔ عنبر الماری کی کتابیں ترتیب سے رکھنے لگی توعمارہ نے ترچھی نظر سے عنبر کی طرف دیکھا۔’’تم ایسا کرو سٹور روم میں جتنی بھی ہمزاد سے متعلق کتابیں ہیں سب لے آؤ۔۔۔‘‘
عنبر نے بھنوؤں کو اچکاتے ہوئے پھٹی پھٹی آنکھوں سے عمارہ کی طرف دیکھا’’ہمزاد۔۔۔؟ عمارہ باجی! آپ کس قسم کا کیس ہینڈل کر رہی ہیں۔‘‘
’’فی الحال میں نے جو تم سے کہا ہے وہ کرو، باقی باتیں میں تمہیں بعد میں سمجھا دوں گی۔‘‘ عمارہ کتاب کے صفحات تیزی سے پلٹ رہی تھی شاید اسے وہ موضوع نہیں مل رہا تھا جس کی اسے تلاش تھی۔ عنبر کمرے سے جا چکی تھی اسے سٹور روم میں کتابیں ڈھونڈنے میں کافی وقت لگ گیا۔ عمارہ نے اتنی دیر میں بک شیلف سے دو کتابیں اور نکال لیں۔
عنبر دھول سے اٹی ہوئی چار کتابیں لے کر آفس میں داخل ہوئی تو عمارہ کی ہنسی چھوٹ گئی۔ عنبر خود دھول سے اٹی آثار قدیمہ کا کوئی مجسمہ دکھائی دے رہی تھی۔
’’ہنس لیں آپ اتنا تو ہوتا نہیں کہ ملازمہ سے کہہ کے سٹور روم کی صفائی کروالیں۔‘‘
اس نے ٹھپ سے دھول سے اٹی کتابیں میز پر رکھ دیں عمارہ بیزاری سے کھانسنے لگی۔ ’’کتابیں تو صاف کر دیتیں، سارا ٹیبل گندا ہوگیا ہے۔ مجھے پکڑا دو میں صاف کر دیتی ہوں۔ تم جا کے اپنا حلیہ ٹھیک کرو۔‘‘
عنبر وہاں سے چلی گئی۔ عمارہ نے کتابیں صاف کیں اور پھر ان کا مطالعہ شروع کر دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد عنبر بھی آگئی۔ عمارہ نے ایک کتاب عنبر کی طرف بڑھائی۔’’تم یہ کتاب پڑھو، کوئی خاص بات نظر آئے تو مجھے بتانا۔’’عنبر بھی عمارہ کیس اتھ مطالعہ میں مصروف ہوگئی۔
عمارہ نے اپنا لیپ ٹاپ آن کیا اور خاص خاص معلومات جو اس نے کتابوں سے اکٹھی کیں، لیپ ٹاپ میں Saveکرنے لگی۔
عنبر نے کتاب عمارہ کی طرف بڑھائی’’یہ دیکھو ہمزاد مسخر کرنے کا طریقہ۔‘‘
عمارہ نے کتاب سامنے رکھی اور وہ معلومات بھی Save کرلی۔ اس نے کتاب عنبر کی طرف بڑھائی۔‘‘ اس کتاب میں ڈھونڈو کہ شیطانی عملوں میں سرگرم ہمزاد کو کس طرح قابو کیا جا سکتا ہے۔‘‘
عنبر نے کتاب لی اور دوبارہ پڑھنے میں مصروف ہوگئی۔ اس نے تقریباً ہر کتاب کا مطالعہ کیا مگر اسے ایسی کوئی معلومات نہ ملی۔ اس نے کتاب بند کی اور عمارہ سے مخاطب ہوئی’’تم نیٹ پر ڈھونڈو۔۔۔‘‘
’’نیٹ پرکام تو میں گھر جا کے بھی کر سکتی ہوں۔ مجھے بس آفس کی کتابیں چیک کرنی ہیں۔‘‘ عمارہKey boardپر انگلیوں کو جنبش دیتے ہوئے بولی۔ اسی مصروفیات میں کب اٹھ بج گئے پتہ ہی نہیں چلا۔ عمارہ اپنے کلینک کا چکر لگا کے دوبارہ آفس میں آکر بیٹھ گئی۔
عنبر نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا’’ہم دونوں اکیلے اس کلینک میں کیا کریں گے تم نے Receptionوالوں کو اورGate Keeperکو بھیج دیا ہے۔ یہاں تک کہ میڈیسنز کے سٹور میں بھی کوئی نہیں ہے۔‘‘
عمارہ اپنی کرسی سے اٹھی اور دھیرے دھیرے سے چلتی ہوئی اس کے قریب آئی’’جو کام ہم نے کرنا ہے اس کے لیے تنہائی بہت ضروری ہے۔ تم نئی ہو اس لیے گھبرا رہی ہو تم نے تو اسی کمرے میں رہنا ہے بس یہ خیال رکھنا ہے کہ مجھے کوئی ڈسٹرب نہ کرے۔ کلینک کو کھلا دیکھ کر کوئی بھی آسکتا ہے۔۔۔اور پھر جو کام میں کرنے جا رہی ہوں اس میں کوئی بھی گڑ بڑ ہو سکتی ہے۔‘‘
عمارہ نے اپنا کوٹ اتارا اوراپنا دوپٹہ سر پر اوڑھ لیا اسنے آفس کی دیوار میں لگا دروازہ کھولا اور اس کمرے میں داخل ہوگئی۔ جو اس نے خاص طور پر روحانی علاج کے لیے مخصوص کیا تھا۔
کمرے کی دیواروں پہ قرآنی آیات آویزاں تھی۔ کمرے میں کوئی الیکٹرک لائٹ آن نہیں تھی۔ بڑی کینڈلز پینل کے اور لکڑی کے اسٹینڈز پر لگی ہوئی تھیں۔ زمین پر بھی دائروں میں بے شمار دیے اور کینڈلز پڑی ہوئی تھیں کمرے میں خاص فرنیچر نہیں تھا۔
ایک دیوان سیٹ تھا اور ایک سنگل پلنگ جس پر مریض کو لٹا کے عمارہ روحانی اور نفسیاتی دونوں طرح کے علاج کرتی تھی۔ عمارہ کینڈلز جلانے لگی۔ عنبر اس کے کہنے کے مطابق اس دوسرے کمرے میں ہی بیٹھی تھی۔ کمرے میں کچھ روشنی ہوگئی تو عمارہ نے دروازہ بند کرلیا اور باقی کینڈلز بھی جلانے لگی۔ کمرے میں اس کی ضرورت کی ہر چیز موجود تھی۔
ساری کینڈلز جلانے کے بعد وہ دائرے میں پڑے ہوئے دیوں اور کینڈلز کی طرف آئی۔ اس نے دیے روشن کیے اور کینڈلز بھی جلا دیں۔ پورے کمرے میں موم بتیوں کی ملگجی سی پراسرار روشنی پھیل گئی۔
عمارہ موم بتیوں اور دیوں کی روشنی سے جگمگاتے ہوئے دائرے میں داخل ہوگئی اور پھر زمین پر بیٹھ گئی۔ اس کے پاس ہی ایک شیشے کا گلاس اور تاش کے پتے پڑے ہوئے تھے۔اس نے ایک نظر اس سامان کی طرف دیکھا اور پھرآنکھیں بند کرکے کچھ پڑھنے لگی۔ وہ کافی دیر تک اسی طرح کچھ پڑھتی رہی پھر اس نے آنکھیں کھول دیں۔
اس نے زمین پر ایک چھوٹی سی شیٹ بچھائی۔ شیٹ پر کچھ زائچے سے کھینچے ہوئے تھے۔ اس نے شیٹ کے درمیان میں شیشے کا گلاس رکھ دیا اور اس کے چاروں طرف تاش کے پتے رکھ دیئے تاش کے پتوں کو اس نے اس طرح رکھا کہ Kingsکی تصاویر اوپر تھیں اور تاش کے نمبر اور پان والی سائیڈ نیچے تھی۔
اسنے تاش کے پتوں کے اوپر اپنی انگلیاں رکھیں اور پتوں کے اوپر اپنی انگلیوں کو اس طرح حرکت دینے لگی گویا کہ وہ پیانو بجا رہی ہو۔ اس عمل کے ساتھ ساتھ وہ کچھ پڑھ بھی رہی تھی۔ اس کے عمل کے مطابق اس کے ہاتھوں کی انگلیوں کی حرکت کے ساتھ تاش کے پتوں میں بھی حرکت ہونی چاہئے تھی مگر تاش کے پتے ساکت ہی رہے۔ پھر اس نے الٹے رکھے ہوئے گلاس کے اوپر اپنی انگشت رکھی اور آنکھیں بند کرکے کچھ پڑھنے لگی وہ خاصی دیر تک اپنا خاص عمل پڑھتی رہی مگر گلاس میں بھی کوئی حرکت نہیں آئی۔ اس نے آنکھیں کھولیں اور مبہوت نظروں سے گلاس اور تاش کے پتوں کی طرف دیکھنے لگی۔
’’اس طریقے سے میں نے کئی بار روحوں سے بات کی ہے مگر آج کیا بات ہے میرا عمل کام نہیں کر رہا۔‘‘
اس نے وہی سارا عمل دوبارہ دہرایا مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا آخر کار وہ مایوس ہو کے اٹھ گئی۔ اس نے کمرے کا دروازہ کھول دیا اور ساری کینڈلز بجھا دیں۔ وہ بجھی بجھی سی کمرے سے باہر نکلی تو عنبر نے حیرت سے پوچھا’’اتنی جلدی عمل ختم ہوگیا۔‘‘
’’بات نہیں بنی، سات دن کے بعد دوبارہ کوشش کروں گی۔ اب گھر چلتے ہیں۔‘‘ عمارہ نے اپنا ہینڈ بیگ اٹھا لیا۔
عنبر نے سکھ کر سانس لیا’’شکر ہے۔۔۔‘‘ عمارہ نے اسے گھور کر دیکھا۔
’’پلیز اس طرح گھور کر مت دیکھو یوں لگتا ہے کہ آپ کے اندر کوئی روح آگئی ہے۔‘‘ عنبر نے آفس کا سامان سمیٹتے ہوئے کہا۔
’’بکواس بند کرو اور جلدی چیزیں سیمٹو۔‘‘ عمارہ نے کہا اور پھر خود بھی اس کی مدد کرنے لگی۔
دونوں نے مل کر ساری چیزیں سمیٹیں اور پھر آفس بند کرکے دونوں گاڑی میں بیٹھ گئیں، عمارہ گاڑی ڈرائیور کر رہی تھی۔۔۔وہ سارے راستے خاموش ہی رہی۔ اس نے پہلے عنبر کو ڈراپ کیا اس کے بعد اپنے گھر کے راستے کی طرف چل پڑی۔(جاری ہے )
وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 41ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں