وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 39ویں قسط

وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 39ویں قسط
وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 39ویں قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ظفر،وقار احمد اور عارفین بھی اندر ہال میں ہی تھے۔ باقی ساتھی باہر لان میں تھے۔ عمارہ ہونٹوں کی تیز جنبش کے ساتھ کچھ پڑھتے ہوئے ہال میں گشت کر رہی تھی۔ پھر وہ ہال کے وسط میں کھڑی ہوگئی اور اوپر کی طرف دیکھتے ہوئے چلائی’’کون ہو تم، ہمارے سامنے آؤ۔۔۔‘‘
عمارہ نے یہ بات تین بار دہرائی مگر سے کوئی جواب نہ ملا۔ اس نے لمبا سانس کھینچا اور ایک بارپھر بلند آواز میں بولی۔’’میں جانتی ہوں کہ تم یہاں ہال میں موجود ہو اگر سامنے نہیں آنا چاہتے تو ہمیں اپنی موجودگی کا ثبوت دو۔۔۔‘‘
ہال کی چھت پر لگا ہوا کرسٹل کا فانونس بری طرح جھولنے لگا۔ جو خواتین ا س فانوس کے نیچے تھیں، وہ تیزی سے وہاں سے پیچھے ہٹ گئیں۔ فانوس زور دار دھماکے کے ساتھ زمین پر آگرا۔ اس پر لگی کرسٹل کی گولیاں دور دور تک بکھر گئیں۔
عورتیں چیختی چلاتی ہال سے باہر بھاگنے لگیں عمارہ انہیں روکنے کی کوشش کرتی رہی۔’’آپ اس طرح باہر نہ جائیں باہر بھی آپ کی جان کو خطرہ ہے آپ اسی جگہ پر رہیں تو میں آپ کی جانیں بچانے کی کوشش کروں گی۔‘‘

وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 38ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
مگر عورتیں عمارہ کی بات سننے کو تیار نہیں تھیں۔ پانی کے ریلے کی طرح باہر نکلتی عورتوں میں کب زرغام اندر گھس آیا کسی کو بھی خبر نہ ہوئی۔ کچھ خواتین نے عمارہ کی بات سمجھ لی اور وہیں رک گئیں۔ زرغام بے خوف سب کے سامنے آگیا اس نے اپنی جیب سے لوہے کی چمٹی نکالی۔ 
’’کون ہو تم۔۔۔؟‘‘ ساحل اشتعال میں زرغام کی طرف بڑھنے لگا تو ظفر نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔’’وہ جو کوئی بھی ہے کرنے دو وہ جو کر رہا ہے ۔اگر کوئی ایسی ویسی بات ہوئی تو وہ ہماری دسترس سے باہر نہیں ہے۔‘‘ وہ لوہے کی چمٹی کو مختلف زاویوں میں حرکت دینے لگا۔
ایک خاص سمت کی طرف وہ لوہے کی چمٹی اپنے آپ بجنے لگی۔ زرغام نے اپنی جیب سے ایک چھوٹا سا ڈبہ نکالا۔ اس نے جلدی سے اس ڈبے سے چٹکی بھر راکھ نکالی اور اسے اس سمت میں اچھال دیا۔
چمٹی بجنا بند ہوگئی اور اس کا رخ خود بخود دوسری جانب ہوگیا اور وہ پھر سے بجنے لگی۔ زرغام نے ایک لمحے کی تاخیر کیے بغیر اس سمت میں راکھ اچھال دی۔۔۔راکھ کے ذرات میں غیر مرئی وجود ظاہر ہوگیا۔
ماہین چیخ اٹھی’’خیام ! میرا بیٹا۔۔۔‘‘ فضا سے راکھ جھڑتے ہی وہ روحانی جسم غائب ہوگیا۔ زرغام نے پھر اپنی چمٹی کو حرکت دی اور خیام کی موجودگی ظاہر ہونے پر اس نے مٹھی بھر راکھ ہوا میں اچھال دی۔
خیام کا ہوا میں معلق روحانی جسم ایک بار پھر ظاہر ہوگیا۔ اس بار اس کی نظریں ماہین کی طرف تھیں۔ چہرے پر وفا کے احساسات اور آنکھوں میں چاہت کی تڑپ تھی۔ ماں کو سامنے دیکھ کر وہ زرغام جیسے حریف کو بھول گیا تھا۔
ماہین جذبات کی رو میں بہتی ہوئی اس سپید سائے کی طرف بھاگی جو چند ساعتوں میں ہی غائب ہویگا۔ وقار احمد آگے جا کے اسے لے آیا۔’’خود پر قابو رکھو۔ تمہاری غفلت سب کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔‘‘
زرغام تفتیش میں اپنے اصل روپ میں آگیا۔
’’جن طاقتوں پر تجھے اتنا گھمنڈ ہے یہ میری ہی دی ہوئی ہیں مجھ سے آنکھ مچولی نہ کھیل اگر واقعی طاقتوں کا حامل ہے تو آمجھ سے مقابلہ کر۔‘‘ ہوا میں ایک روشنی کی شعاع ظاہر ہوئی اور چھت کی طرف بڑھتی ہوئی غائب ہوگئی۔
زرغام سمجھ گیا کہ خیام نے اس کا چیلنج قبول کر لیا ہے۔ وہ ہال کے دروازے کی طرف بھاگا اور ہال سے باہر نکل کر کھلے میدان میں کھڑا ہوگیا۔ روشنی کی شعاع ایک بار پھر ظاہر ہوئی اور زرغام کے سامنے زمین کی طرف بڑھتی ہوئی خیام کے وجود میں تبدیل ہوگئی۔ اطراف میں کھڑے ہوئے لوگ چیختے چلاتے پیچھے ہٹنے لگے۔ ہال میں موجود تمام لوگ باہر آگئے۔
یہ سنسنی خیر منظر دیکھ کر لوگ خوف زیدہ ہوگئے۔ بیٹے کو سامنے دیکھ کر ماہین اور وقار احمد تڑپ کر رہ گئے۔ عمارہ نے تذبذب سی کیفیت میں ساحل کی طرف دیکھا’’یہ سب کیا ہو رہا ہے یہ دوسرا شخص کون ہے ہم ان دونوں میں سے کس کو اپنا دوست سمجھیں۔‘‘
’’ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ بہرحال آج بہت بڑے راز سے پردہ ہٹ جائے گا۔‘‘
***
زرغام نے قہقہہ بلند کیا’’مجھے پوری امید تھی کہ تم مجھے یہاں ضرور ملو گے۔ تمہیں میری طاقت کا اندازہ نہیں ہے۔۔۔ورنہ تم میرے اشاروں پہ چلنے پر کبھی انکار نہ کرتے۔‘‘
’’میرا راستہ وہ نہیں جو تو نے وشاء، فواد اور حوریہ کو دکھایا تھا میرا ہمزاد مسخر کرکے بے شک تم نے مجھے بہت سی طاقتیں دی ہیں مگر مجھ پر تیرا عمل الٹا ہوگیا میرے ساتھ جو روحانی طاقتیں ہیں وہ شیطانی نہیں ہیں۔ مجھے رب نے تیری موت کے لیے چنا ہے شاید اسی لیے مجھ سے میرا مادی وجود لے لیا ہے۔‘‘
زرغام نے تمسخرانہ انداز سے خیام کے روحانی جسم کو دیکھا جس میں سے آرپار کی چیزیں صاف دکھائی دے رہی تھیں۔
’’اگر مجھ سے مقابلہ کرنا ہے تو مادی وجود میں آؤ۔۔۔‘‘ خیام نے مسکراتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھوں کو آپس میں جوڑا اور اپنی پیشانی پر رکھ لیا۔ وہ ایک بھیانک بھیڑئیے کی صورت اختیار کر گیا ایسا بھیڑیا جس کا جسم تو انسان جیسا تھا مگر اس کی بالوں والی جلدا ور چہرہ بالکل بھیڑئیے جیسا تھا۔ زرغام نے بھی وہی عمل دہرایا اور ویسا ہی روپ دھار گیا۔ دو خونخوار بھیڑئیے ایک دوسرے پر جھپٹ پڑے۔
لوگوں نے خوفزدہ ہو کر بھاگنا شروع کر دیا۔ وہ ظفر کے گھر سے جلد از جلد باہر نکلنا چاہتے تھے لوگ اپنی اپنی سواریوں میں برقی سرعت سے وہاں سے نکل گئے۔ تھوڑے سے لوگ جو بچ گئے تھے وہ دہشت سے ایک دوسرے سے چپکے کھڑے تھے۔
دو خون آشام بھیڑئیے دھاڑتے ہوئے اپنے لمبے لمبے نوکیلے دانت ایک دوسرے کے جسم میں پیوست کر رہے تھے۔ ظفر نے ساحل سے اپنی پسٹل لانے کے لیے کہا ساحل جلدی سے اس کی پسٹل لے آیا اور اس کے ہاتھ میں تھما دی۔ اس نے پینٹ کی جیب میں پسٹل ڈال لی اور آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگا۔ ان خونخوار بھیڑوں کے قریب پہنچ کے ظفر نے اپنی پسٹل نکال لی ا ور بہت احتیاط سے لوگوں کے پیچھے چھپتے ہوئے اس نے اپنی پسٹل کا نشانہ سیٹ کیا۔ وہ بھیڑئیے بن مانسوں کی طرح چھلانگیں مارتے ہوئے ایک دوسرے پر جھپٹ رہے تھے۔ وہ خنجر جیسے نوکیلے پنجوں سے ایک دوسرے کو زمین پر پٹختے۔
ظفر تذبذب سی کیفیت میں ساحل کی دیکھنے لگا۔’’پتہ ہی نہیں چل رہا کہ ان دونوں میں زرغام کون ہے۔‘‘
ساحل نے ان کی پسٹل کی نال کو پیچھے کر دیا’’آپ اپنی پسٹل جیب میں واپس ڈال لیں ہمیں زرغام کو زندہ سلامت پکڑنا ہوگا۔’’ایک خونخوار بھیڑیا ہوا میں اڑتا ہوا گھر کی چھت پر جا کھڑا ہوا۔ دوسرا بھی دھاڑتا ہوا ہوا میں اڑتا ہوا چھت پر چلا گیا اور پھر ان کی خوفناک جنگ شروع ہوگئی۔ فضا میں خوفناک غرغراہٹ اور دلخراش چیخیں گونجنے لگیں بالکل ایسے ہی جیسے ایک درندہ مارے تکلیف کے تڑپتا ہے۔
دیکھتے ہی دیکھتے وہ دونوں لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ساحل اور ظفر بے چینی سے انہیں ڈھونڈنے لگے مگر اب وہ کہیں بھی دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ ساحل دوڑتا ہوا پورا پورچ کی طرف بڑھا۔ وہاں گاڑیوں کی لمبی قطار تھی۔ وہ ظفر کی گاڑی میں کاموشی سے بیٹھ گیا۔ اس کی نظر کبھی بائیں اطراف کی گاڑیوں کی طرف جاتی تو کبھی بائیں طرف کھڑی گاڑیوں کی طرف جاتی۔
کچھ ہی دیر بعد زرغام زخمی حالت میں اسے گاڑیوں کے قریب نظر آیا۔ وہ سلور کلر کی کلٹس میں بیٹھا اور اپنی گاڑی پارکنگ سے نکال کر وہاں سے نکل پڑا۔ ساحل نے فوراً اپنی گاڑی پارکنگ سے نہیں نکالی تھوڑی دیر کے بعد اس نے اپنی گاڑی وہاں سے نکالی اور بہت ہوشیاری کے ساتھ زرغام کی گاڑی کے پیچھے لگا دی۔
وہ زرغام کا ٹھکانا جاننا چاہتا تھا جہاں پر رہ کے وہ یہ شیطانی کھیل کھھیلتا تھا۔ زرغام کی گاڑی کے پیچھے ایک گاڑی تھی اس کے پیچھے ساحل کی گاڑی تھی۔ اس لیے زرغام کو شائبہ تک نہ ہوا وہ کافی دور تک زرغام کا پیچھا کرتا رہا۔
مگر اشارے کے لیے ٹریفک سگنلز پر گاڑیاں رکیں تو زرغام کو سائیڈ مرر سے ساحل کی گاڑی نظر آگئی۔ گرین سنگل کا شارہ ملتے ہی گاڑیاں دورنے لگیں زرغام انتہائی تیز سپیڈ سے وہاں سے نکل گیا ساحل نے دوسری گاڑیوں کو کراس کرکے گاڑی اس کے پیچھے لگا دی۔
CNGکی ریڈ لائٹ اشارہ دینے لگی کہ CNGختم ہوگئی ہے۔ گاڑی پٹرول پر کرنی ہوگی ساحل نے گاڑی پٹرول پر کر لی مگر کچھ گڑ بڑ ہوگئی گاری جھٹکے کھانے لگی اور پھر بند ہوگئی ساحل نے گاڑی دوبارہ سٹارٹ کرنے کی کوشش کی مگر گاڑی توجیسے جام ہوگئی۔اس نے اسٹیئرنگ پر زور سے ہاتھ مارا۔’’اوہ میرے خدایا! یہ موقع ہاتھ سے نکل گیا۔‘‘
زرغام وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہو چکا تھا۔ عمارہ نے وہاں پر موجود مردوں اور خواتین کو تسلی دی’’آپ سب اطمینان سے بیٹھ جائیں خطرہ ٹل گیا ہے۔‘‘
اس نے خواتین سے التماس کی کہ وہ ہال میں بیٹھ کر قرآن پاک پڑھیں۔ ’’یہ قرآن پاک کی برکت ہی ہے کہ ہم لوگوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ ہم سب محفوظ ہیں۔ آئیے ہم سب خدا کی عبادت کرکے دعا مانگتے ہیں کہ خدا ہمیں ان شیطانی طاقتوں سے بچنے کا راستہ بتائے۔‘‘
رخسانہ اور ایمن نے بھی خواتین کو حوصلہ دیا اور وہ سب دوبارہ ہال میں بیٹھ کرقرآن پاک پڑھنے لگیں۔
کوئی نہیں جان سکا کہ جیت خیال کی ہوئی یا زرغام کی۔ سب کے دل و دماغ میں بس تجسس بھرا خوف رہ گیا۔ بچنے کی راہ ملی بھی اور گم بھی ہوگئی۔ خیام کی جھلک دیکھنے کے بعد سے ہی ماہین کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ ڈیپریشن سے اس کا بلڈ پریشر ہائی ہوگیا۔ وقار احمد نے اسے بیڈ پر لٹایا۔ اسے میڈیسن دی۔ عمارہ بھی ماہین کے قریب بیٹھ گئی۔ اس نے خلوص سے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا’’آپ پریشان کیوں ہو رہی ہیں۔ یہ بات تو آپ نے تسلیم کر لی تھی نا کہ خیام اب دنیا میں نہیں ہے مگر آپکو اس بات پر فخر ہونا چاہئے کہ خیام کی روح نیک مقصد کی طرف مسخر ہے۔ وہ ان بدروحوں میں سے نہیں ہے جو لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار رہی ہیں بلکہ شاید وہ ہم سب کے لیے مسیحا بن کے آیا ہے۔‘‘
پھر عمارہ نے ساحل کی طرف دیکھا’’تم کہہ رہے تھے نا کہ ہم بغیر ہتھیارکے جنگ لڑ رہے ہیں اور ہمیں وہ راہ بھی معلوم نہں جس سے ہم دشمن تک پہنچ سکیں۔ اب ہمارے پاس ہتھیار بھی ہوں گے اور وہ راستے بھی جن سے ہم اپنے دشمن تک پہنچ سکیں گے میں دھیان گیان کے ذریعے خیام کی روح سے رابطہ کروں گی۔‘‘
’’تم روح کا نام لیتی ہو تو میرا کلیجہ کٹتا ہے میری آنکھوں میں میرا جیتا جاگتا خیام ہی بسا ہے۔ رب میری جان لے لیتا مگر میرے بیٹے کو کچھ نہ ہوتا۔‘‘ ماہین پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ وقار احمد اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلا گیا۔ ظفر اور عمارہ بھی اس کے پیچھے پیچھے چل پڑے ، وقار احمد نے ٹھنڈی آہ بھری۔’’ناسمجھ عورت، خدا سے گلے کر رہی ہے۔ فواد، حوریہ، وشاء اور خیام تو حرام موت مرے ہیں۔۔۔ان کی موت خودکشی ہی ہے نہ ہی ان کی روحوں کو چین آئے گا اور نہ ہمیں۔‘‘
ظفر نے اس کے شانے پہ ہاتھ رکھا’’ماہین تو عورت ہے کمزور ہے تم تو حوصلہ رکھو۔‘‘
پھر ظفر، عمارہ سے مخاطب ہوا۔’’تم جو بات کہہ رہی تھی وہ ٹھیک ہے لیکن میرے خیال میں ہمیں دیکھنا چاہئے کہ آج کے عمل کے بعد وہ روحیں ہمیں نقصان پہنچاتی ہیں یا نہیں۔ ہمیں انہیں خود سے چھیڑنا نہیں چاہئے۔ اگر ہمیں ان کی طرف سے کوئی خطرہ محسوس ہو تو ہم کوئی اقدام کریں گے۔‘‘
عمارہ تمسخر آمیز انداز میں مسکرائی’’روشنی کی رفتار سے سفر کرنے والی بدروحیں ہمیں اتنی مہلت نہیں دیں گی کہ ہم کوئی اقدام کر سکیں۔ آپ لوگ بس اتنا کریں کہ روزانہ قرآن پاک پڑھیں نماز باقاعدگی سے ادا کریں۔مجھے جو کرنا ہے وہ مین نے سوچ لیا ہے۔ جب بھی آپ کو کوئی خطرہ محسوس ہو آپ نے مجھ سے رابطہ کرنا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر عمارہ نے اپنا کارڈ ظفر کی طرف بڑھایا’’اس میں میرے کلینک کا بھی نمبر ہے اور گھر کا بھی۔‘‘
ساحل، عمارہ کی طرف بڑھا’’آپ تو ابھی کچھ دیر رکیں گی نا۔۔۔‘‘
’’نہیں۔۔۔مجھے جانا ہوگا۔ میں نے ایک Patientکو وقت دیا ہے۔ وہ کلینک میں میرا ویٹ کر رہا ہوگا آپ لوگ مجھ سے ہر وقت رابطہ رکھیں جب کہیں گے، میں آجوءں گی۔ میں سمجھ سکتی ہوں کہ آپ لوگ کس قدر گمبھیر صورت حال سے گزر رہے ہیں۔ اب میں چلتی ہوں۔‘‘
عمارہ نے جاتے ہوئے پلٹ کر ساحل کی طرف دیکھا’’تم نے زرغام کا پتہ لگانا ہے ہمارا اس تک پہنچنا بہت ضروری ہے۔‘‘
’’اس شیطانی درندے کا پتہ تو میں ضرور لگاؤں گا۔ میں اور عارفین مل کر یہ کام کریں گے۔‘‘ ساحل نے کہا۔
عمارہ وہاں سے چلی گئی۔ رخسانہ، ماہین کے پاس بیٹھ گئی اور اس کا سردا بنے لگی۔ رخسانہ کی اپنی بھی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں۔ ان سب کا درد مشترک تھا۔
***(جاری ہے )

وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 40 ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں