وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 38ویں قسط

وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 38ویں قسط
وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 38ویں قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لان میں اشخاص کی تعداد کافی زیادہ تھی۔ خواتین بھی کمروں میں کھچا کھچ بھری ہوئی تھیں ۔ ابھی مزید اور لوگ بھی آرہے تھے۔ ساحل اور عارفین کی ڈیوٹی میں یہ بھی شامل تھا کہ گیٹ سے داخل ہونے والے لوگوں پر نظر رکھیں۔
لیکن یہ کام ان کے لیے انتہائی مشکل تھا۔ ظفر ، وقار، زبیر اور توقیر کے جان پہچان والے سب ادھر ہی آرہے تھے جن میں سے زیادہ تر لوگوں کو ساحل اور عارفین نہیں جانتے تھے۔۔۔بس وہ اتنا ہی خیال رکھ رہے تھے کہ اگر کوئی مشکوک شخص نظر آئے تو چوکنا ہو جائیں۔
تقریباً ایک بجے کے قریب ایک بوڑھا شخص کوٹھی میں داخل ہوا۔ ساحل اور عارفین نے اسے بھی ان لوگوں کی طرح نظر انداز کیا جنہیں وہ جانتے نہیں تھے۔ وہ بوڑھا شخص دوسرے مردوں کے ساتھ دردی پہ بیٹھ گیا اور گٹھلیاں پڑھنے لگا۔

وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 37ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
جس جگہ وہ بوڑھا شخص بیٹھا تھا، اس کے بالکل سامنے ساحل اور عارفین کرسیوں پر بیٹھنے آپس میں کوئی بات کر رہے تھے۔ بوڑھے شخص کی نظریں ان دونوں پر ٹھہر گئیں۔ وہ اپنے دانے اٹھا رہا تھا اور پھینک رہا تھا مگر اس کی زبان پہ کوئی لغزش نہیں تھی اور کچھ نہیں پڑھ رہا تھا مگر اس کی آنکھوں میں عجیب سی بے چینی تھی۔
ساحل نے تاسف بھرے انداز میں اردگرد کے ماحول پر نظر دوڑائی اور ٹھنڈی آہ بھر کر تھکے تھکے لہجے میں بولا’’ہم کیسے ان شیطانی طاقتوں کا مقابلہ کریں گے جو کچھ ہو چکا ہے وہ سب اس قدر اذیت ناک ہے کہ اس کا خیال ایک پل کو سونے نہیں دیتا اور نہ جانے آگے کیا ہونے والا ہے۔مادی وجود رکھنے والے حریف کو تو ہتھیار سے چھلنی چھلنی کیا جا سکتا ہے مگر یہ سفید ہیولے جوموت کے سائے بن کے ہمارے اردگرد منڈلا رہے ہیں انہیں کیسے ختم کیا جا سکتاہے۔‘‘
عارفین نے آسمان کی طرف دیکھا’’جنگ صرف ہتھیار سے نہیں لڑی جاتی۔۔۔جنگ تو جذبوں کی بھی ہوتی ہے ۔۔۔قلم کی بھی۔۔۔تصورات کی بھی۔۔۔مگر ہر جنگ میں راہ رکھانے والی ذات اس پروردگار کی ہی ہے۔۔۔اس پر بھروسا رکھو۔ مایوسی ہمت توڑتی ہے۔ خدا پر بھروسا ہی راہ دکھاتا ہے۔ ہمیں بھی کوئی نہ کوئی راہ مل جائے گی۔ جس سے ہم ان بدروحوں سے نجات حاصل کر سکیں گے۔‘‘ ساحل اور عارفین کی نظر اس بوڑھے شخص کی طرف نہیں تھی۔
بوڑھا شخص اپنی جگہ سے اٹھ کر ایسی جگہ پر بیٹھا جہاں سے ہال کا داخلی دروازہ صاف دکھائی دے رہا تھا۔ ہال میں خواتین بیٹھی تھیں۔ ساحل عارفین سے باتیں کر رہا تھا اور عارفین خاموشی سے اس کی باتیں سن رہا تھا۔ اس کی نظریںA-meterکی طرف تھیں۔ A-meterکی سوئیاں بالکل ساکن تھیں۔ اچانک ہی A-meterکی سوئیاں جنبش کرنے لگیں۔
عارفین کے دل کی دھڑکن یک تیز ہوگئی اس نے ساحل کے شانے کو جھٹکا دیا اور A-meterکی طرف اشارہ کیا۔ ساحل نے جنبش کرتی ہوئی سوئی کی طرف دیکھا تو اس نے موبائل نکالاا ور فوراً عمارہ کو فون کیا۔
عمارہ نے فون سنا اور آہستگی سے بولی’’ٹھیک ہے تم ظفر اور حسنان کو بتا دو اور بہت محتاط ہو کے اردگرد کے ماحول پر نظر رکھو۔‘‘ یہ کہہ کر عمارہ نے موبائل بند کردیا۔
وہ تیز تیز قدموں سے ہال کے داخلی دروازے کی طرف بڑھی۔
وہ اس جگہ پہنچی جہاںA-meterلگا تھاA-meterکی سوئیاں جامد تھیں۔ اسے اس بات کی تسلی ہوئی۔ مافوق الفطرت مخلوق جس کا اشارہ باہر ہوا ہے وہ ابھی ہال میں داخل نہیں ہوئی۔
***
مشکوک بوڑھا شخص اپنی جگہ پر اس طرح کھڑا ہوگیا جیسے اسے کوئی خاص اطلاع مل گئی ہے۔ وہ تیز قدم چلتا ہوا لوگوں کے بیچ میں سے نکلتا ہوا ٹینٹ سے باہر آگیا۔
اس کی متلاشی نگاہیں چاروں اور گھومنے لگیں۔ اس وقت وہ لوگوں کی نظروں سے بے نیاز بے خوف و خطر کسی کی تلاش میں تھا۔ وہ کسی جوان کی طرح مستعد تھا۔ ایک دم سے اس کے بوڑھے جسم میں کسی نوجوان جیسی توانائی اور پھرتی آگئی تھی مگر وہ ابھی تک کسی کی نظر میں نہیں آیا تھا۔ وہ باربار اپنی جیب میں ہاتھ ڈالنے کی کوشش کرتا جیسے اس کے پاس کوئی ہتھیار ہو مگر اردگرد لوگوں کی موجودگی میں وہ کچھ کر نہیں کر پا رہا تھا۔
دروازے کے قریب ہی وہ کھڑی تھی۔ اس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔اس کی سب سے بڑی قوت اس کا خدا پر بھروسا اور حوصلہ ہی تھا ورنہ اس طرح کے معاملات کا اس کے پاس کوئی خاص تجربہ نہ تھا۔
وہ جس طرح بے چینی سے ٹہل رہی تھی۔ عورتوں کی نظریں اس پر ٹھہر گئی تھیں۔ ان میں سرگوشیاں ہونے لگی تھیں۔
ماہین اور رخسانہ اس کے پاس آئیں۔’’خیریت ہے۔۔۔‘‘ رخسانہ نے پوچھا۔
عمارہ کے چہرے سے پریشانی صاف عیاں ہو رہی تھی اس نے نفی کے انداز میں سر ہلایا۔’’نہیں خیریت نہیں ہے۔ باہر A-meterکی سوئیاں بتا رہی ہیں کہ کوئی غیبی مخلوق لان میں موجود ہے۔ شاید گھر کے دوسرے حصوں میں بھی ہو۔‘‘
پھر اس نے گملے کے پیچھے لگے ہوئے A-meterکی طرف اشارہ کیا، اگر وہ غیبی مخلوق اس کمرے میں داخل ہوئی تو اس کی سوئیاں جنبش کرنے لگیں گی۔
ماہین اور رخسانہ کی خوف سے آنکھیں پھیل گئیں۔’’اب کیا ہوگا، اگر ان شیطانی طاقتوں نے ادھر حملہ کر دیا تو یہاں تو لوگوں کا ہجوم ہے۔ ہم کیسے لوگوں کو ان بدروحوں سے بچائیں گے۔‘‘
رخسانہ کے لہجے میں بھی کپکپاہٹ تھی۔ عمارہ نے تسبیح پڑھتے ہوئے ایک نظر رخسانہ کی طرف دیکھا’’اس طرح کی باتیں کرکے آپ میرا حوصلہ کم نہ کریں بس دعا کریں۔ سورۃ الناس پڑھیں وہ شیطانی مخلوق ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی۔ ویسے بھی یہ ضروری نہیں کہ وہ غیبی مخلوق شیطانی مخلوق ہی ہو۔‘‘
اس دوران میں A-meterکی سوئیاں جنبش کرنے لگیں۔ کپکپاہٹ کا جھٹکا رخسانہ کے وجود سے گزر گیا اور ماہین بھی خوف سے جیسے پتھر کی ہوگئی۔ عمارہ نے فوراً ظفر کو فون کیا۔ چند ساعتوں میں ہی ظفر اور حسنان ہال میں پہنچ گئے۔
توقیر اور وقار گھر کے دوسرے حصوں میں چلے گئے۔ وہ سب پورے گھر میں تقسیم ہوگئے ابھی تک غیبی مخلوق کا بس اشارہ ملا تھا مگر کوئی عجیب حرکت سامنے نہیں آئی تھی۔ ظفر عمارہ کے پاس آیا تو عمارہ نے گھبراہٹ سے کہا’’وہ غیبی مخلوق ہال میں داخل ہوگئی ہے۔‘‘
’’ہمت سے کام لیں، عورتوں پر نظر رکھیں ہم دونوں ادھر ہی ہیں۔‘‘
عورتوں تک یہ بات پہنچ گئی۔ ان میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ بوڑھا شخص تیزی سے ہال کی طرف بڑھنے لگا تو ساحل کی نظر اس پر پڑ گئی۔ ساحل تیزی سے اس کی طرف بڑھا’’بابا جی آپ کہاں جا رہے ہیں؟‘‘
’’اندر میری بیوی ہے، اسے بلانا تھا۔‘‘
’’آپ اپنی بیوی کا نام بتائیں، میں بلا لاتا ہوں۔‘‘ یہ کہتے ہیں ساحل نے اسے قریب سے دیکھا تو اسے بوڑھے کا چہرہ مصنوعی سا لگا۔ اس نے بہت ہوشیاری سے اس کے چہرے پر چٹکی بھر دی۔ بوڑھے نے ساحل کا ہاتھ پیچھے کیا تو اس کے چہرے کا ماسک ساحل کے ہاتھ میں آگیا۔ زرغام بے نقاب ہوگیا۔
زرغام برقی سرعت سے وہاں سے بھاگا، ساحل اس کے پیچھے بھاگنے لگا۔ زرغام لوگوں کو دھکیلتا ہوا، گرتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔۔۔ساحل بھی لوگوں کو دھکیلتا ہوا اس کا تعاقب کر رہا تھا۔ لوگوں کے ہجوم کی وجہ سے ساحل کے لیے اسے پکڑنا مشکل تھا لیکن وہ ساحل کی نظروں سے دور نہیں گیا تھا۔ ساحل مسلسل اس کے پیچھے بھاگ رہا تھا۔
پھر اچانک ہی وہ اس کی نظروں سے اوجھل ہوگیا’’اوہ شٹ‘‘ ساحل نے درخت سے مکا ٹکرایا۔ وہ کچھ دیر تک اسے ڈھونڈتا رہا پھر اسے ہال کا خیال آیا کہ خواتین کسی مشکل میں نہ ہوں۔ وہ تیزی سے واپس ہال کی طرف بڑھا۔ اندر ہال میں سکوت چھایا ہوا تھا۔ ساری خواتین کو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔(جاری ہے )

وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 39ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں