وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 37ویں قسط
ظفر کے گھراکٹھے ہو کر باہم مشورے سے سب نے یہ طے کیا کہ ظفر کے گھر ہی سارا انتظام کیا جائے انہوں نے فیصلہ کیا کہ اس طرح سسکنے اور تڑپنے کے بجائے اپنے بچوں کی اموات کو تسلیم کرتے ہوئے ان کی آخری رسومات ادا کر دی جائیں۔
یوٹیوب چینل سبسکرائب کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
ویسے بھی خدا کے احکامات میں بے پناہ راز پوشیدہ ہیں، تدفین و تکفین کی خاص رسومات کے بعد لواحقین کی خدا کی طرف سے ڈھارس مل جاتی ہے۔ بروز جمعہ ظفر کے گھر میں رونے کی بین کرنے کی آوازیں گونج رہی تھیں۔ عزیز و اقارب بھی جمع تھے۔ جان پہچان والے لوگوں میں جس جس کو فواد، حوریہ، وشاء اور خیام کی اموات کا پتہ چل رہا تھا وہ غمزدہ ہو کے چلے آرہے تھے۔ لوگوں کا ایک ہجوم تھا ظفر کے گھر پر۔ لوگ دریوں پر بیٹھے تسبیحات اور قرآن پاک پڑھنے میں مصروف تھے۔
اس ساری صورت حال کا علم زرغام کو ہو چکا تھا۔ وہ بے چینی سے اپنے گھر کے لان میں ٹہل رہا تھا۔ پھر درخت کے قریب کھڑے ہوکے کسی سے باتیں کرنے لگا شاید نہ دکھائی دینے والے لطیف جسم سے۔’’پہلے ہی میں خیام کی وجہ سے پریشان ہوں اوپر سے یہ ان چاروں کی اموات کی آخری رسومات، اس کا اثر کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ دل تو چاہتا ہے کہ ان چاروں کے گھر والوں کو موت کی نیند سلادوں مگر ابھی وقت نہیں۔ سب سے پہلے تو میں ظفر اور ساحل کو ٹھکانے لگاؤں گا، ابھی میری ساری توجہ خیام کی طرف ہے۔۔۔تم کسی بھی طریقے سے خیام کا پتہ لگاؤ ورنہ میری ساری محنت رائیگاں جائے گی۔‘‘
وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 36ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
یہ کہہ کر وہ تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا اپنے کمرے کی طرف بڑھا اس نے ڈریسنگ ٹیبل کے دراز سے پتھروں کی انگوٹھیاں نکالیں اور تیزی سے اپنی ساری انگلیوں میں پہن لیں اور بیڈ پر بیٹھ کر کچھ سوچنے لگا۔ پھر اس کے شیطانی دماغ نے کچھ طے کیا اور وہ نہانے کے لیے باتھ روم چلا گیا۔
**
فواد، حوریہ، وشاء اور خیام کے گھر والوں کے آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لیتے تھے۔ ایک سال سے درد و غم کا رکا ہوا آتش فشاں لاوا برسا رہا تھا۔ آج امیدا ور آس کا دامن ہاتھ سے چھوٹ گیا تھا۔ سینے میں سوائے درد کے اور کچھ نہیں تھا۔ ایک دوسرے سے لپٹ لپٹ کر رو کے اپنا غم بانٹ رہے تھے۔۔۔مگر غم تھا کہ نڈھال کیے جا رہا تھا۔۔۔ان کے گھروں کے چراغ بجھ گئے تھے، آنکھیں مایوسیوں کے اندھیروں میں ڈوب گئی تھیں۔
ان کے پیاروں کی میتیں بھی ان کے سامنے نہیں تھیں ایک دوسرے کے شانے پر سر رکھ کر رو کے وہ اپنے غم کا کچھ بوجھ کم کر سکتے تھے۔
***
باہر لان میں مردوں کے لیے بندوبست کیا گیا تھا اور اندر گھر میں زمین پر دریاں بچھا کے خواتین بیٹھی تھیں اور قرآن پاک پڑھنے میں مشغول تھیں۔ ظفر بھی دوسرے مردوں کے ساتھ قرآن پاک پڑھنے میں مشغول تھا۔ ساحل بھی اس کے قریب بیٹھا تھا۔
ظفر کے موبائل کی رنگ بجی، اس نے موبائل سنا۔’’جی بہتر میں باہر آتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے موبائل بند کر دیا۔
’’کس کا فون تھا۔‘‘ ساحل نے تسبیح پڑھتے ہوئے پوچھا۔
’’عمارہ کا فون تھا، وہی سائیکا ٹرسٹ جس کا میں نے تم سے ذکر کیا تھا وہ باہر آگئی ہیں۔ میں انہیں گھر کی خواتین سے ملوا کے آتا ہوں۔‘‘
ظفر نے اپنا پارہ میز پر رکھا اور چلا گیا۔ عمارہ ابھی تک گاڑی پارک کر رہی تھی۔ اس نے مناسب جگہ دیکھ کر گاڑی پارک کی اور پھر گاڑی سے باہر نکلی۔ 28 سالہ عمارہ دبلی پتلی اور انتہائی خوبصورت تھی۔ چہرے کی رنگت صاف اور نقوش تیکھے اور پرکشش تھے۔ اس نے ریز لائن قمیص اور ٹراؤزر کے ساتھ سکارف اوڑھا ہوا تھا۔ اس نے سکارف سے اپنے بال چھپا رکھے تھے سیاہ سکارف نے اس کی خوبصورتی کو بڑھا دیا تھا اس نے ظفر کو سلام کیا۔
’’وعلیکم السلام! بہت شکریہ آپ کے آنے کا۔۔۔میں تو سوچ رہا تھا کہ شاید آپ ہمارے لیے وقت نہ نکال سکیں۔‘‘ ظفر نے اس کے ہاتھ سے اس کا سامان لیتے ہوئے کہا۔
عمارہ نے ایک نظر پوری کوٹھی پر ڈالی اور پھر مسکراتے ہوئے گویا ہوئی’’میں اپنی زبان کی پکی ہوں، میں نے آپ سے کہا تھا کہ میں آؤں گی۔‘‘
’’آئیے میں آپ کو اندر کا راستہ دکھاتا ہوں۔‘‘ ظفر اسے رخسانہ اور ایمن کے پاس لے گیا عمارہ ، رخسانہ کے پاس بیٹھ گئی۔
ظفر نے رخسانہ سے کہا’’یہ عمارہ ہیں۔۔۔میں تفصیل سے ان کے بارے میں آپ کو بعد میں بتاؤں گا۔۔۔فی الحال یہ ہماری مہمان ہیں‘‘ یہ کہہ کر ظفر باہر چلا گیا۔
رخسانہ اور ایمن رو رو کے نڈھال تھیں۔ ان کی آنکھوں کے نیچے زخم بن گئے تھے۔ عمارہ نے ان کا حال دیکھا تو اس کی بھی آنکھیں بھر آئیں۔ اس نے میز سے پارہ لیا اور پڑھنا شروع کر دیا۔
***
عارفین، حسنان اور ساحل کو اردگرد کے ماحول پر نظر رکھنے کی تاکید کی گئی تھی۔ وہ گھر سے باہر لان میں ٹہل رہے تھے۔ انہیں خاص تاکید کی گئی تھی کہ کوئی مشکوک شخص دیکھیں یا کوئی عجیب الخلقت مخلوق تو فوراً الرٹ ہو جائیں۔ وہ ایک ٹیم کی طرح کام کر رہے تھے ان کے موبائل ایک دوسرے سے منسلک تھے۔
عمارہ کے ہاتھ میں دسواں پارہ تھا۔ تمام خواتین قراان پاک پڑھنے میں مشغول تھیں۔ قرآن پاک کی تلاوت کی مسحور کن آوازوں نے فضا میں ایسا سکون سرایت کر دیا تھا کہ کسی کے بھی ذہن میں خوف نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔
عمارہ نے اپنا پارہ مکمل کیا تو اس نے رخسانہ کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا۔’’جو غم دیتا ہے وہ مرہم بھی رکھتا ہے۔ حقیقت تو یہی تھی مگر آپ لوگوں نے اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں بہت وقت لگا دیا۔ شاید اگر یہ سب پہلے ہو جاتا تو وہ شیطانی طاقتیں اس قدر نہ بڑھتیں۔‘‘
’’آپ۔۔۔؟‘‘رخسانہ نے سوالیہ نظروں سے عمارہ کی طرف دیکھا۔
’’میں ایک سائیکاٹرسٹ ہوں اور Exorcistبھی ہوں۔ میں زیادہ دعوے نہیں کرتی مگر جو کچھ بھی مجھ سے ہوسکا میں کروں گا۔ اگر آپ کی اجازت ہو تو میں آپ کا گھر دیکھ لوں۔‘‘
’’ہاں کیوں نہں، میں بھی آپ کے ساتھ چلتی ہوں۔‘‘ رخسانہ اپنا پارہ میز پر رکھ کر کھڑی ہوگئی۔ عمارہ نے اپنے بیگ سے چھوٹی سی کتاب اور تسبیح نکالی۔’’آپ مجھے صرف وشاء کا کمرہ دکھا دیں باقی میں خود دیکھ لوں گی۔‘‘
رخسانہ، عمارہ کے ساتھ گئی اور اسے وشاء کے کمرے میں لے گئی۔ وشاء کے کمرے میں داخل ہونے پر عمارہ کے چہرے کے تاثرات میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی اسے سب کچھ نارمل لگ رہا تھا۔ اس نے تسبیح پڑھنا شروع کی اور ساتھ پورے کمرے کا جائزہ لیتی رہی۔
رخسانہ نے ٹھنڈی آہ بھری۔ ’’وشاء جو جو چیز جہاں جہاں رکھتی تھی۔ سب کچھ ویسے ہی ہے۔ ظفر بھائی نے کوئی تبدیلی نہیں کی۔‘‘
عمارہ نے سائیڈ ٹیبل سے ایک فوٹو فریم اٹھایا۔ رخسانہ نے عمارہ کے ہاتھ میں تصویر دیکھی تو تاسف بھرے انداز میں بولی۔’’یہ ان چاروں کی تصویر ہے۔‘‘ پھر اس نے تصویر پر انگلی رکھتے ہوئے بتایا۔
’’یہ وشاء اور حوریہ ہیں اور یہ دونوں فواد اور خیام ہیں۔‘‘
عمارہ نے وشاء کی تصویر پر انگشت رکھی۔’’میری معلومات کے مطابق وشاء ، حوریہ اور فواد کو آپ لوگوں نے دیکھا ہے مگر خیام کو نہیں دیکھا’’پھر اس نے خیام کی تصویر پر انگلی رکھی۔‘‘ یہی خیام ہے؟‘‘
رخسانہ نے اثبات میں سر ہلایا۔’’ہاں یہی خیام ہے۔‘‘
’’یہ تصویر میں اپنے پاس رکھ سکتی ہوں۔‘‘
’’رکھ لیں۔‘‘
عمارہ نے تصویر فریم سے نکالی اور اپنے بیگ میں ڈال لی، پھر وہ رخسانہ سے مخاطب ہوئی۔ ’’اگر آپ مائنڈ نہ کریں تو کچھ دیر کے لیے مجھے اکیلا چھوڑ دیں۔‘‘
رخسانہ اسے وشاء کے کمرے میں چھوڑ کر دوبارہ خواتین کے ساتھ بیٹھ کر قرآن پڑھنے لگی۔ عمارہ، وشاء کے کمرے سے باہر آگئی اور تسبیح کا ورد کرتے ہوئے گھر کے باقی کمروں کا جائزہ لیے لگی۔ وہ پورے گھر میں پھری مگر اس نے ایسی کوئی غیر معمولی حرکت محسوس نہیں کی۔ ظفر اور حسنان گھر میں داخل ہوئے تو عمارہ پورچ میں کھڑی تھی۔
وہ عمارت کے قریب آئے۔’’سب ٹھیک ہے۔‘‘
’’فی الحال تو آپ کے گھر میں کوئی عجیب الخلقت مخلوق نہیں ہے مجھے ان چیزوں کا کوئی اثر بھی محسوس نہیں ہوا۔۔۔مگر ان بدروحوں کا کوئی بھروسا نہیں۔۔۔لیکن یہ تسلی رکھیں۔ گھر میں قرآن پاک پڑھا جا رہا ہے کوئی شیطانی مخلوق آپ کو ایذا نہیں دے سکتی۔۔۔اس ناگہانی آفت سے نبرد آزما ہونے کے لیے جتنا ہو سکے قرآن پاک پڑھیں۔ میں شام تک ادھر ہی ہوں۔ آپ بلا خوف اپنی رسومات پوری کریں۔‘‘
اس نے اپنے بیگ سے دو A-meterنکالے۔ ایک اس نے داخلی دروازے کے قریب پڑھے ہوئے گملے کے پیچھے نصب کر دیا اور دوسرا اس نے ظفر کر دیا’’اسے باہر لان میں کسی درخت کے ساتھ لگا دو، جونہی کوئی عجیب الخلقت مخلوق اس گھرمیں داخل ہوگیA-meterکی سوئیاں ہلنے لگیں گی۔‘‘
اس کے کہنے پر ظفر نے باہر لان میں انار کے درخت کے ساتھ A-meterلگا دیا۔ عمارہ رخسانہ کے پاس آئی۔’’خیام کی والدہ کہاں ہیں؟‘‘
’’وہ سامنے انگوری رنگ کے جوڑے میں جو خاتون ہیں وہ ماہین ہیں خیام کی والدہ۔۔۔‘‘ رخسانہ نے انگلی سے اشارہ کیا۔
عمارہ ماہین کے پاس گئی۔ ماہین گٹھلیاں پڑھ رہی تھی۔ وہ اس کے ساتھ بیٹھ گئی اور اس کے ساتھ گٹھلیاں پڑھنے لگی’’آپ کیا پڑھ رہی ہیں۔‘‘
’’دوسرا کلمہ۔‘‘ ماہین دھیمے سے لہجے میں بولی۔ عمارہ بھی گٹھلیوں پر دوسرا کلمہ پڑھنے لگی۔ ٹوکری میں پڑی ہوئی گٹھلیاں پڑھی گئیں تو عمارہ، ماہین سے مخاطب ہوئی۔’’آپ خیام کی والدہ ہیں۔‘‘
ماہین نے اثبات میں سر ہلایا۔ خیام کا نام سنتے ہی اس کی آنکھیں بھیگ گئیں، اس نے بھیگی آنکھوں سے عمارہ کی طرف دیکھا’’معذرت چاہتی ہوں میں نے آپ کو پہچانا نہیں۔‘‘
عمارہ نے اپنی مہین سی آواز میں کہا’’کیسے پہچانیں گی میں آپ سے پہلی بار مل رہی ہوں۔ میرا نام عمارہ ہے، پروفیشن میں ایک سائیکاٹرسٹ ہوں مگر عاملہ بھی ہوں شاید میں آپ لوگوں کے کام آسکوں۔‘‘
’’اب کیا کسی نے ہمارے کام آنا ہماری تو دنیا ہی لٹ چکی ہے۔‘‘
’’اس حادثہ کے بعد کیا آپ کو کبھی خیام دکھائی دیا جس طرح باقی لوگوں نے وشاء ، فواد اور حوریہ کو دیکھا۔‘‘
ماہین کی نظریں کسی ایک جگہ پہ ٹھہر گئیں۔’’سب کہتے ہیں کہ وہ چاروں دوست ایک ہی کڑی میں بندھے ہیں۔ خیام کو کسی نے نہیں دیکھا مگر سب کا کہنا ہے کہ خیام بھی ان تینوں جیسا ہوگا۔‘‘
عمارہ نے ماہین کے شانوں پر ہاتھ رکھا اور فضا میں نظریں گھمانے لگی’’اگر خیام ان جیسا نہیں ہوگا تو پتہ چل جائے گا اس کا ہمزاد اگر نیکی کے کاموں کا نمائندہ ہوا تو وہ یہاں ضرور آئے گا۔‘‘
ماہین نے بے چین ہو کر عمارہ کا ہاتھ پکڑ لیا’’میں اسے دیکھ سکوں گی؟‘‘
عمارہ نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا’’روح کو دیکھنا آتنا آسان نہیں ہوتا مگر کسی نہ کسی چیز کی غیر معمولی حرکت روح کی موجودگی بتا دیتی ہے۔‘‘
یہ کہہ کہ عمارہ دوبارہ گٹھلیاں پڑھنے لگی۔ (جاری ہے)
وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 38ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں