وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 36ویں قسط

وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 36ویں قسط
وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 36ویں قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اچانک لان کے پھولوں پر ایک خوبصورت تتلی منڈلانے لگی اور ساتھ سیاہ دھویں کی بدلی ہوا میں نمودار ہوئی۔ پڑھتے پڑھتے جیسے سائیں کی زبان پہ بل آگیا، ان کے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوگئیں۔
وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے ادھر ادھر دیکھنے لگے کسی پر اسرار غیبی طاقت کی آمد کا انہیں احساس ہوگیا۔ چند ساعتوں کے لیے ہی ان کا حوریہ پر سے دھیان ہٹا تو حوریہ کی روح اس لڑکی کے جسم سے نکل گئی اور وہ لڑکی ثناء اب اپنی اصل شکل میں تھی۔ سائیں نے جلدی سے اٹھ کر اسے چیک کیا تو وہ مر چکی تھی۔
حوریہ اسے ختم کرکے اس کے جسم سے نکل چکی تھی۔ سائیں کے منہ سے بے اختیار نکلا’’یہ تو مرچکی ہے۔‘‘ توقیر اور رخسانہ حقیقت سے بے خبر چیختے ہوئے لڑکی کی لاش کی طرف بڑھے۔

وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 35ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
سائیں آہنی دیوار کی طرح لاش کے آگے کھڑا ہوگیا’’تم لوگوں کو دائرے سے باہر نہیں آنا چاہئے تھا۔ ادھر بہت زیادہ خطرہ ہے۔‘‘
توقیر حسب عادت طیش میں بولنے لگا’’نہ جانے کیا جادو منتر کرکے تم ہمیں بیوقوف بنا رہے ہو اور اب تم نے ہماری بیٹی کو ہی مار ڈالا۔‘‘
سائیں لاش سے پیچھے ہٹ گیا’’یہ دیکھو کیا یہ تمہاری بیٹی ہے؟‘‘
توقیر اور رخسانہ نے اس لڑکی کو قریب سے دیکھا’’یہ تو ہماری حوریہ نہیں ہے۔ مگر یہ سب ۔۔۔‘‘ رخسانہ نے پریشانی میں کہا۔
سائیں نے ٹھنڈی آہ بھری’’یہ ثناء ہے جس کے جسم میں حوریہ کی روح داخل ہوئی تھی اور اسے اپنا روپ دے دیا تھا۔ اب وہ اس کے جسم سے نکلی تو اسے قتل کرکے۔‘‘
اچانک ہی رخسانہ کی آنکھیں باہر کو ابل پڑیں وہ چیخنے لگی۔ توقیر نے اسے شانوں سے پکڑتے ہوئے سنبھالا تو اس نے انگلی سے سامنے کی طرف اشارہ کیا۔ سامنے حوریہ سفید لباس میں ملبوس ہوا میں معلق تھی اس کا جسم ہوائی تھا۔ توقیر رخسانہ کا ہاتھ کھینچتا ہوا اسے دائرے میں لے گیا۔
سائیں اپنے عمل کو دھرانے لگا تو حوریہ شیطانی انداز میں ہنسنے لگی۔۔۔‘‘ اب تمہارا یہ عمل کچھ نہیں کر سکتا کیونکہ اب میں اکیلی نہیں ہوں‘‘ چند ہی ساعتوں میں حوریہ کے ہوائی جسم کے دائیں طرف ایک تتلی پھڑپھڑانے لگی اور بائیں جانب سیاہ دھویں کی بدلی سی نمودار ہوگئی۔ سب کی آنکھوں کے سامنے تتلی وشاء کے روپ میں بدل گئی اور سیاہ دھواں فواد کے روپ میں۔
تینوں کے چہروں کے نقوش وہی تھے مگر ان کے چہرے اس طرح بھیانک تھے جیسے قبر کے گلے سڑے مردے۔
وشاء اپنے ہوائی وجود کیساتھ ہوا میں پرواز کرتی ہوئی سائیں کے قریب آئی اور اس نے اپنے سامنے کے دو لمبے نوکیلے دانت سائیں کی گردن میں پیوست کر دیئے۔ سائیں کی چیخیں فضامیں گونجنے لگیں۔ فواد نے اپنے چہرے پہ ہاتھ رکھا اور پھر ہاتھ سے سائیں کے مریدوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہوا میں پھونکا۔
دونوں آدمی نہ دکھائی دینے والی آگ میں جھلسنے لگے۔ کچھ لوگ بے اختیار دائرے سے باہر نکلنے لگے تو سائیں نے تڑپتے تڑپتے بھی انہیں رکنے کا اشارہ کیا اور زمین پر گرتے گرتے بھی اس نے اپنی قوت مجتمع کی اور چیخ چیخ کر کہنے لگا’’دائرے سے مت نکلنا یہ وشاء ، فواد اور حوریہ کی روحیں۔۔۔ان کے ہمزاد ہیں۔ جن کی طاقت عام روح اور جنات سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے۔ ان کی اموات کے بعد کی رسومات پوری کرو۔‘‘ زندگی نے سائیں کو اتنی ہی مہلت دی کہ وہ اتنا ہی بتا سکے پھر لقمہ اجل ہوگئے۔ ان کے مرید بھی جھلس کر زمین پر ڈھیر ہوگئے۔
حوریہ، فواد اور وشاء نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑا اور غائب ہوگئے۔
***
اس بھیانک واقعہ کو دو روز گزر گئے۔ سب کا ایک جگہ پر رہنا ممکن نہیں تھا۔ وہ زندگی کے معمولات سے ہٹ کر اپنے اپنے گھروں میں محصور ہو گئے تھے۔ ایک انجانا سا خوف ہر لمحے ان کے جسموں میں لہو کے ساتھ دوڑنے لگا تھا۔
اپنی اولادوں کو اس طرح شیطانی روپ میں دیکھ کر وہ جیتے جی ہی مر گئے تھے مگر ایک سوال کے سب کے ذہنوں میں گونج رہا تھا۔ خیام کہاں ہے حوریہ کے مطابق وہ چاروں ایک ہی زنجیر کی کڑیاں ہیں تو خیام ان لوگوں میں کیوں نہیں تھا۔
ساحل اور ظفر بیٹھے تھے۔ ظفر جبیں پیمائی کرتے ہوئے کہنے لگا’’اتنا بڑا شیطانی کھیل، یہ سب تو میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ ہم ٹیم بھی بنا لیں تو بھی ہم اس جنگ میں جیت نہیں سکتے۔ کون ہے جو ان شیطانی طاقتوں سے مقابلے میں ہماری مدد کرے گا۔ سائیں رحمان اور اس کے مرید ہیں بچاتے بچاتے خود موت کے منہ میں چلے گئے۔‘‘
ساحل نے ظفر کاہاتھ مضبوطی سے تھاما’’جنگ لڑنے سے پہلے ہی آپ نے شکست قبول کر لی۔ بے شک ہمیں شیطانی طاقتوں سے لڑنا نہیں آتا مگر کوشش کر رہے ہیں۔ آپ جانتے ہیں نا کہ کالے جادو کا توڑ قرآن پاک سے کیا جاتا ہے۔ ہم بھی ہمت نہیں ہاریں گے۔ آپ کی پروفیسر حسنان سے بات ہوئی تھی؟‘‘
’’ہاں۔۔۔میں نے عارفین سے بھی بات کی ہے۔ پروفیسر حسنان اور عارفین ابھی کچھ دیر میں یہاں آنے والے ہیں۔ پورا ایک سال ہم ان چاروں کو ڈھونڈتے رہے۔ کیا معلوم تھا کہ وہ اس روپ میں ہمارے سامنے آئیں گے۔ میں تو اس آس پہ زندہ تھا کہ میری وشاء واپس ضرور آئے گی۔ میں نے تو ایک پل کے لیے بھی اپنے ذہن کو یہ سوچنے کی جسارت نہیں دی کہ میری بیٹی مر گئی ہے۔ ‘‘ ظفر کی آنکھیں اشک بار ہوگئیں اور وہ چہرہ چھپائے دوسری طرف منہ کرکے بیٹھ گیا۔
ساحل نے ان کے شانے کو تھپتھپایا۔’’ہمت کریں انکل۔۔۔انکل توقیر، آنٹی رخسانہ ، انکل زبیر، آنٹی ماہین، انکل وقار احمد اور آنٹی ایمن، ان سب کا اور آپ کا دکھ ایک ہے، ان کی بھی امید آپ کی طرف ٹوٹی ہے۔ وہ بھی خود کو سنبھال نہیں پا رہے مجھے تو اس بات کا شک اسی روز ہوگیا تھا جب آنٹی ماریہ کا قتل ہوا کہ وشاء اور اس تتلی کا کوئی تعلق ہے مگر میرا ذہن اس محیر العقول سچ کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھا کہ وہ تتلی وشاء کا ہی روپ ہے۔‘‘ بات کرتے کرتے ساحل کسی خیال سے چونک گیا’’ہمزاد۔۔۔کے بارے میں سائیں رحمان کیا کہہ رہے تھے۔‘‘
’’ہمزاد کے بارے میں، میں بھی کچھ نہیں جانتا میں نے کل پروفیسر حسنان سے اس بارے میں بھی بات کی تھی۔ وہ کہہ رہے تھے کہ ان کے پاس کچھ ایسی کتابیں ہیں جن کے مطالعہ سے کچھ معلومات حاصل ہو سکتی ہیں‘‘ اسی دوران باہر بیل ہوئی ساحل نے دروازہ کھولا تو پروفیسر حسنان اور عارفین تھے۔
ساحل انہیں اندر لیونگ روم میں لے آیا جہاں ظفر بیٹھا تھا۔ وہ دونوں ظفر کے ساتھ ہی بیٹھ گئے۔ انہوں نے سارے معاملے پر انتہائی رنج اور افسوس کا اظہار کیا۔ ساحل ان کے لیے کولڈ ڈرنکس لے آیا۔
پروفیسر حسنان نے ہاتھ سے نہیں کا اشارہ کیا ’’ہمارا اس وقت کچھ بھی کھانے پینے میں دل نہیں ہے۔ اتنے لوگوں کی اموات ہوگئی مگر آپ نے ہم سے رابطہ نہیں کیا۔‘‘
پروفیسر کے اس گلے پر ظفر نے بتایا’’ہم خود اس خوفناک حقیقت سے بے خبر تھے۔ ہم تو اسی امید پر حوریہ کو پہاڑی علاقے میں لے گئے کہ وہ ہمیں وشاء ، خیام اور فواد کے بارے میں کچھ بتائے گی۔ ہمیں کیا خبر تھی کہ جسے ہم حوریہ سمجھ رہے ہیں وہ حوریہ کی روح ہے۔ ہم تو اپنے بچوں کے زندہ و سلامت واپس آنے کا انتظار کر رہے تھے ہمیں کیا معلوم تھا کہ وہ نہیں بلکہ ان کی روحیں بھٹک رہی ہیں۔‘‘
ایک بار پھر اس کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔ پروفیسر حسنان نے ظفر کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا۔’’ہمت رکھو یہ دکھ صرف تمہارے ساتھ نہیں خیام ، فواد اور حوریہ کے و الدین بھی اسی کیفیت سے دوچار ہیں۔ مگر اس وقت آپ اپنے اس دکھ کو نظر انداز کرکے یہ سوچیں کہ دوسرے لوگوں کی زندگیوں کو ہم ان شیاطین سے کیسے بچائیں۔‘‘
سائیں کے کہنے کے مطابق فواد، حوریہ اور وشاء جنہیں تم لوگوں نے دیکھا ہے اصل میں وہ ان کے ہمزاد ہیں اور یہ معمولی بات نہیں۔ کسی بڑے عامل نے ان کے مردہ جسموں سے ان کے ہمزاد مسخر کیے ہیں۔ وہ عامل جب چاہے جس طرح چاہے ہمزاد سے کام کروا سکتا ہے۔ جس طرح حوریہ کے ہمزاد نے ثنا کے جسم میں داخل ہو کے حوریہ کا روپ لے لیا اسی طرح کسی بھی وقت یہ ہمزاد ہمیں دھوکہ دے سکتے ہیں۔
ہمارے جسم میں برائی کی ترغیب دینے والے جن ہمزاد کو موت کے بعد اگر کوئی عامل مسخر کرلے تو وہ ہمزاد سینکڑوں کی طاقت رکھتا ہے۔ اگر کسی عامل کا کنٹرول ہمزاد پر سے ختم ہو جائے تو وہ ہمزاد عاملوں کو بھی ختم کر دیتا ہے۔‘‘
’’آپ ہمیں کچھ تفصیل سے بتائیں گے ہمزاد کے بارے میں‘‘ ساحل نے بے چینی سے پوچھا۔
پروفیسر حسنان نے لمبا سانس کھینچا۔’’ہمزاد جسے عبرانی میں ’’طیف‘‘ عرابی میں ’’قرین‘‘ یا ہمزات، فارسی میں ہمزاد ، اردو میں ہمسایہ یا ہم نام سنسکرت میں سایہ اور انگریزی میں Duplicat Spiritual Body۔ جبکہ اسلامی ماہرین روحانیت اسے’’جسم لطیف‘‘ یا ’’جسم مثالی‘‘ کہتے ہیں۔
روحانیت کی رو سے ہر کسی کے دو جسم ہوتے ہیں ۔ ایک مادی، مرئی ، کثیف اور ظاہری جبکہ دوسرا روحانی غیر مرئی لطیف اور باطنی جسم ہوتا ہے اسی روحانی، غیر مرئی لطیف اور باطنی جسم کو ہمزاد کہتے ہیں۔۔۔جو مادی، مرئی، کثیف اور ظاہری جسم کی موت کے بعد بھی باقی رہتا ہے۔
کیونکہ ہمزاد جسم لطیف ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ زمان و مکان’’Timed and Space‘‘ کی قید سے آزاد ہوتا ہے۔ اپنی اس خوبی کی وجہ سے ہمزاد دنیا کے کسی بھی گوشہ میں پہنچ سکتا ہے اور ہر قسم کی خبر اپنے عامل کو لا کے دے سکتا ہے۔ بعض عملیات کے نتیجے میں ظاہر ہونے والے ہمزاد اس قدر طاقتور ہوتے ہیں کہ وزنی سے وزنی چیز اٹھا سکتے ہیں۔ عامل کو دنیا کی سیر کراسکتے ہیں۔ جو چاہے روپ لے سکتے ہیں۔
لہٰذا ہر دور میں لوگ ہمزاد کی تسخیر کرتے آئے ہیں۔ اگر کوئی شخص ہمزاد مسخر کرلے تو وہ دنیا کے لیے خطہ بن سکتا ہے۔ ساری صورت حال کا جائزہ لو تو یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ خیام، فواد اور وشاء اور حوریہ نے سپر پاور بننے کے لیے زندگی کو نظر انداز کر دیا۔ لوگوں کے دل و دماغ پر حکومت کرکے اپنا آپ منوانے کے لیے وہ کالے جادو جیسے علم کی طرف مائل ہوگئے۔ اس بھیانک علم کی گرفت نے انہیں گمراہ کر دیا انہوں نے میوزیم سے کچھStuffedچرائے۔ جن میں ایک تتلی بھی تھی۔ ان کی گمراہی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کسی عامل نے ان کے ہمزاد مسخر کر لیے اور ان کے مادی وجود کو موت کی نیند سلا دیا۔ ہمیں کسی طرح اس عامل کو ڈھونڈنا ہوگا۔‘‘
’’ابھی فی الحال ہمیں کیا کرنا ہوگا۔‘‘ ظفر نے اپنے دونوں ہاتھ اکڑا لیے۔
پروفیسر نے ساحل اور ظفر کی طرف دیکھا’’سب سے پہلے وہ کام کرو جو سائیں نے کہا تھا۔‘‘
’’کیا۔۔۔؟‘‘ ساحل نے پوچھا۔
پروفیسر نے متاسفانہ انداز میں آنکھیں جھکالیں۔’’اپنے بچوں کی اموات کو دل سے تسلیم کرکے ان کی آخری رسومات ادا کرو۔ پھر سوچیں گے۔ آگے کیا کرنا ہے۔‘‘
’’ان سارے واقعات میں ہم نے خیام کو کہیں بھی نہیں دیکھا یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ خیام زندہ ہو۔‘‘ ساحل نے پروفیسر حسنان سے کہا۔
پروفیسر حسنان گہری سوچ میں ڈوب گئے۔ عارفین ساحل سے مخاطب ہوا’’میرے خیال سے ہمیں اس چکر میں نہیں پڑنا چاہئے کہ خیام زندہ ہے یا نہیں، ہمیں اس کی آخری رسومات ادا کر دینی چاہئیں۔‘‘
حسنان نے عارفین کی تائید کی ’’عارفین درست کہہ رہا ہے اگر خیام زندہ ہوتا تو حوریہ یہ کیوں کہتی کہ ہم چاروں ایک ہی زنجیر کی کڑیاں ہیں یقیناً وہ انہی میں سے ہوگا۔ ہمارے مذہب کے مطابق مردے کی تدفین و تکفین کی خاص رسومات سے روح بھٹکتی نہیں بلکہ اپنے خاص مقام پر پہنچ جاتی ہے ان چاروں کے ہمزاد کتنے ہی طاقتور کیوں نہ ہوں آخری رسومات کا کچھ نہ کچھ اثر ان پر ضرور ہوگا۔ جتنا سوچتے جائیں گے، اتنا ہی بھٹکتے جائیں گے، ہمیں فی الحال ان چاروں کی آخری رسومات کی تیاری کرنی چاہئے۔ ہمیں فوری کسی عامل سے رجوع کرنا چاہے۔ ان آخری رسومات میں کسی عامل کا ہونا ضروری ہے۔
میں عاملوں کے بارے میں زیادہ تو نہیں جانتا لیکن ایک سائیکاٹرسٹ ہیں مس عمارہ، وہ عاملہ بھی ہیں۔ ان کا اپنا کلینک ہے وہ اپنے کام میں مصروف رہتی ہیں گمر میں نے سنا ہے کہ اس طرح کے روحانی معاملات وہ بخوبی حل کر لیتی ہیں۔ میں ان سے ملا تھا اور انہیں ساری صورت حال سے آگاہ بھی کیا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ جب اس کی ضرورت ہو اسے فون کر لیا جائے۔‘‘
ساحل نے متعجب نظروں سے حسنان کی طرف دیکھا’’اس قدر خطرناک معاملات سے ایک لڑکی کیسے نبزد آزما ہو سکتی ہے۔‘‘
پروفیسر حسنان نے ٹھنڈی آہ بھری اور معنی خیر انداز میں بولے۔’’یہ معاملات جسمانی طاقت سے نہیں ذہانت سے لڑے جاتے ہیں۔ پرسوں جمعہ کے روز ہم ایک ہی گھر میں ان چاروں کی آخری رسومات ادا کر لیتے ہیں۔ میں مس عمارہ کو اطلاع دے دوں گا۔‘‘
ظفر نے اثبات میں سر ہلایا’’ٹھیک ہے ہمیں سب سے بات کرنی ہوگی، ہمارے پاس وقت بہت کم ہے۔‘‘ تقریبا ایک گھنٹہ وہ سب گفت و شنید میں مصروف رہے پھر عارفین اور حسنان وہاں سے چلے گئے۔
حسنان کے جانے کے بعد ظفر نے فون کرکے خیام، فواد اور حوریہ کے والدین کو کل اپنے گھر آنے کے لیے کہا۔(جار ی ہے )

وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ 37ویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں