عنصر نے آہستہ آہستہ آنکھیں کھولیں۔ اس کا سر درد سے پھٹا جا رہا تھا۔
اس نے ہاتھ بڑھا کر سر پر ہاتھ رکھنے کی کوشش کی تو اسے احساس ہوا وہ بندھے ہوئے ہیں۔ اس کے پاﺅں بھی رسی سے مضبوطی سے بندھے ہوئے تھے۔ اس نے گردن گھما کر دیکھا۔ ماسٹرحمید اور پروین بھی اس کے قریب ہی بندھے ہوئے پڑے تھے۔ وہ دونوں بیہوش تھے۔ عنصر نے مایوسی سے اپنا ماتھا زمین سے لگا دیا۔ ان تینوں کے پکڑے جانے سے اس کی ساری محنت رائیگاں چلی گئی تھی۔ سامنے کرسی پر چوہدری عمردراز بیٹھا اپنی گردن سہلا رہا تھا۔ اس نے جب عنصر کو ہلتے دیکھا تو کرسی سے اٹھ کر بھاگتا ہوا آیا اور غصے سے لات اس کی پسلیوں پر مار دی۔ عنصر کے منہ سے چیخ نکلی اور وہ درد سے کراہنے لگا۔ اس نے اپنا ماتھا زمین پر رکھ دیا۔
اتنی دیر میں ماسٹر حمید اور پروین نے بھی آنکھیں کھول دیں۔ کمرے میں اس وقت ان تینوں کے علاوہ چوہدری عمردراز اور اس کے دو ملازم تھے۔ ان میں سے ماکھے نے عنصر کے سر پر ضرب لگائی تھی اور گلو کھیتوں سے گھر جاتے ماسٹرحمید اور پروین کو دوبارہ پکڑ کر یہاں لے آیا تھا۔ عنصر نے سر اٹھا کر پروین کی جانب دیکھا تو اس کے چہرے پر بے چارگی کے تاثرات ابھر آئے۔ چوہدری عمردراز ایک بار پھر آگے بڑھا اور عنصر کی پسلیوں پر ایک اور لات رسید کر دی۔
”حرام زادے ! تجھے بھی تیرے باپ کی طرح ٹکڑے ٹکڑے کر کے عبرت کا نشان بناﺅں گا۔ تیری جرات کیسے ہوئی چوہدری عمردراز کو ہاتھ لگانے کی۔“
وہ ہذیانی انداز میں چیخ رہا تھا۔
’نیلی حویلی پر چھائے ، آسیب کے سائے ۔۔۔۔ ‘قسط نمبر 22 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
”تجھے تو میں ایسی موت دوں گا کہ خود موت بھی پناہ مانگے گی۔“
”عمردراز ! تم نے جو کرنا ہے میرے ساتھ کر لو مگر ان بچوں کو جانے دو۔“
ماسٹر حمید نے چوہدری عمردراز کی منت کرتے ہوئے کہا۔
”تم دونوں نے جینا حرام کر دیا ہے میرا۔“
وہ غصے سے چلایا۔
”اچھی بھلی زندگی گزار رہا تھا میں۔ کیا بگاڑا تھا میں نے تمہارا۔ بتاﺅ ! کیا چھینا ہے میں نے تمہارا جو ہاتھ دھو کر میرے پیچھے پڑے ہو۔“
”عمردراز ! اپنے ظلموں کا سلسلہ اتنا دراز نہ کر۔ بچوں کو جانے دے۔ تجھے جو بدلہ لینا ہے مجھ سے لے لو۔ میں تجھے زبان دیتا ہوں باہر جا کر یہ کسی کو کچھ نہیں بتائیں گے۔“
”ابا ! یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں اور اس درندے سے ہماری لیے رحم کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ آپ کو لگتا ہے میں آپ کے بغیر یہاں سے چلا جاﺅں گا۔“
عنصر نے ماسٹرحمید کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”بیٹے ! میں نے تو اپنی زندگی گزار لی ہے۔ مجھے اپنی پروا نہیں مگر تم دونوں ابھی چھوٹے ہو۔ تمہارے سامنے پوری زندگی پڑی ہے۔“
”انکل ! ہمیں ایسی زندگی قبول نہیں جس کا بوجھ ہم ساری زندگی اپنے کندھوں پر اٹھائے پھریں۔“
پروین نے بھی مداخلت کر ڈالی۔
”جی ابا! پروین بالکل ٹھیک کہہ رہی ہے۔“
”شکریہ ! جناب نے میری تائید کرنا مناسب سمجھا۔“
”ابا! میں آپ سے معافی چاہتا ہوں۔ آپ نے مجھے بہادری سے ظلم کا مقابلہ کرنے کی تربیت دی۔ میں نے پوری کوشش کی کہ دنیا کے سامنے اس درندے کااصل چہرہ سامنے لاو¿ں اور آپ کو یہاں سے صحیح سلامت گھر لے جاو¿ں لیکن شاید اللہ کو کچھ اور ہی منظور ہے۔“
عنصر نے مایوسی سے کہا۔
”نہیں میرے بچے۔ شرمندہ ہونے کی کوئی بات نہیں ہے۔ میں تمہارے حوالے سے کمزور پڑ گیا تھا لیکن تم ٹھیک سوچتے تھے۔ تمہارے تجسس نے تمہیں حق کے راستے پر ڈالا اور تم نے بہترین کام کیا۔ تم نے اپنی کوشش کی لیکن اگر قدرت کو یہی کچھ منظور ہے تو ہونی کو کوئی نہیں ٹال سکتا میرے بچے۔ مجھے تمہاری بہادری پر فخر ہے۔“
ماسٹرحمید نے تحسین آمیز نظروںاس کی جانب دیکھا۔
”میں بھی یہاں موجود ہوں عنصر صاحب۔“
پروین نے گلا کھنکارتے ہوئے کہا۔
”اوہ یاد آیا۔ ابا آپ کو چوہدری عمردراز کی سوجی ہوئی ناک نظر آ رہی ہے ناں یہ پروین کی کارستانی ہے۔“
عنصر پست آواز میں بولا۔
”اور وہ سومو پہلوان کو بھول گئے جسے نیلی حویلی میں ڈنڈا مار کر گرایا تھا۔“
پروین نے منہ بسوڑتے ہوئے کہا۔
”ہاں ابا۔“
عنصر پھر پست آواز میں بولا۔
”اس نے نیلی حویلی میں....“
”تم نے یہ کیا کھسرپھسر لگا رکھی ہے۔“
چوہدری عمردراز کی کڑک دار آواز نے عنصر کی بات کاٹ دی۔ وہ ہونقوں کی طرح دیکھ رہا تھا کہ یہ آپس میں کیا باتیں کر رہے ہیں۔
”اس بڈھے کھوسٹ کو ابھی بولنا تھا۔“
پروین منہ ہی منہ میں بڑبڑائی۔
”آپ نے ایک بات تو بتائی نہیں ابا۔“
عنصر نے بات پلٹتے ہوئے کہا۔
”سقراط بقراط کا باپ تھا یا بقراط سقراط کا بیٹا تھا یا سقراط بقراط دونوں سگے بھائی تھے۔“
”حد ہے۔ تم تو کہتے تھے تم یونان سے واپس آئے ہو اور تمہیں یہی نہیں پتا سقراط بقراط کا آپس میں رشتہ کیا ہے؟“
پروین نے منہ بنا کر کہا۔
”میرا خیال ہے سقراط بقراط دونوں بھائی ہونگے کیونکہ دونوں کے نام کافی ملتے جلتے ہیں۔“
عنصر نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
”یہ لازمی تو نہیں ہے۔ اس طرح تو مقصود اور منصور کو بھی بھائی بھائی تسلیم کرنا پڑے گا مگر وہ دونوں باپ بیٹا بھی ہو سکتے ہیں۔“
پروین نے فلسفہ جھاڑا۔
”بات سقراط بقراط کی ہو رہی ہے یہ مقصود منصور کہاں سے ٹپک پڑے۔“
عنصر نے حیرانی سے کہا۔ ماسٹر حمید دونوں کی نوک جھوک سے بہت محظوظ ہو رہے تھے جبکہ چوہدری عمردراز حیرانی اور پریشانی کے ملے جلے تاثرات لیے ان کا مکالمہ سن رہا تھا۔
”بکواس بند کرو۔“
چوہدری عمردراز نے گرجدار آوازمیں کہا۔
”تم دونوں یہ کیا باتیں کر رہے ہو اور یہ سقراط کون ہے؟“
”عمردراز تم ان باتوں کو نہیں سمجھو گے۔ سقراط وہ شخص تھا جس نے ظالم کے آگے جھکنے سے انکار کر دیا اور موت کو ترجیح دی۔“
ماسٹر حمید بولے۔
”اوہ تو یہ بات ہے۔ تو پھر تیار ہو جاﺅ ماسٹر جی اپنے بیٹے کو سقراط کے پاس بھیجنے کے لیے۔“
”عمردراز! میں تجھے پھر یاد دلاتا ہوں اللہ کے عذاب سے ڈر۔ باز آ جا اور اپنے ظلموں سے توبہ کر لے۔ ابھی وقت ہے توبہ کا دروازہ کھلا ہے۔ یہ نہ ہو وقت تیرے ہاتھ سے ریت کی طرح پھسل جائے اور تو ہاتھ ملتا رہ جائے۔“
ماسٹر حمید نے ناصحانہ انداز میں کہا۔
چوہدری عمردراز نے ماسٹرحمید کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور بولا۔
”ماسٹر جی! بالکل تمہاری طرح میری ماں بھی مجھے بہت نصیحتیں کیا کرتی تھی۔ بات بات پر بولنا اس کی عادت تھی۔ پتا ہے میں نے اس کا کیا حشر کیا؟“
اس کے قہقہے پورے کمرے میں گونجنے لگے۔
”میں نے اسے اس کے کمرے میں ہی بند کردیا۔ وہ وہیں گھٹ گھٹ کر مرکھپ گئی اور اسے قبر بھی نصیب نہ ہوئی۔ ہاہاہا۔“
”کیا نیلی حویلی کے وسطی کمرے میں پڑا ڈھانچہ تمہاری ماں کا ہے؟“
عنصر کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔
چوہدری عمردراز نے اس کی بات سنی ان سنی کر دی اور قہقہے لگاتا رہا۔
”اور چوہدرانی نیک بخت کے ساتھ کیا کیا تم نے؟“
ماسٹرحمید نے رنجیدگی سے کہا۔
چوہدرانی نیک بخت کا نام سن کر چوہدری عمردراز کے قہقہے تھم گئے۔
”اچھی تھی بے چاری۔ بالکل اپنی ساس کی فوٹوکاپی تھی لیکن اس کا انجام بھی برا ہوا۔“
اس کے قہقہوں کا سلسلہ پھر شروع ہو گیا۔
”اسے میں نے زندہ جلا دیا اور حویلی کے ہی ایک کونے میں دفنا دیا۔ ہاہاہا“
تہہ خانے میں اس کے شیطانی قہقہے گونج رہے تھے۔ پھر یکدم وہ خاموش ہو گیا تو تہہ خانے میں سناٹا چھا گیا۔
”بہت باتیں ہو گئیں ماسٹر جی۔ آج پھر خون کی ہولی کھیلی جائے گی اور آج مرنے کی باری تمہاری اور تمہارے بیٹے کی ہے۔“
چوہدری عمردراز نے ماکھے کے ہاتھ سے بھاری بھرکم تیزدھار کلہاڑا پکڑا اور اسے گھسیٹتا ہوا عنصر کے پاس پہنچ گیا۔ تیزدھار کلہاڑے کی ایک ہی ضرب عنصر کا سر اڑانے کے لیے کافی تھی۔ ماسٹر حمید اور پروین نے آنکھیں بند کر لیں۔ وہ یہ وحشت ناک منظر نہیں دیکھ سکتے تھے۔ عنصر نے بھی آنکھیں بند کر لیں۔
”یااللہ ! میں نے تیرے راستے پر چلتے ہوئے ایک ظالم کو بے نقاب کر کے اسے اس کے انجام تک پہنچانے کی کوشش کی۔ اگرچہ میں اس میں کامیاب نہیں ہوا لیکن میں نے خلوص دل سے کوشش کی۔ میری شہادت کو قبول فرما۔“
عنصر نے لب ہلائے۔ اس کی زبان پر کلمہ طیبہ جاری ہو گیا۔
چوہدری عمردراز ایک قدم مزید آگے بڑھا اور اس کے سر پر پہنچ گیا۔
”تیار ہو جاﺅ سقراط کے پاس جانے کے لیے بچے۔“
چوہدری عمردراز نے خونی کلہاڑا فضا میں اپنے سر سے بھی بلند کر دیا۔
”چوہدری صاحب! ایک منٹ صبر کریں۔“
دفعتہ کمرے میں ایک مانوس سی مردانہ آواز گونجی۔
”بچے کی ابھی عمر ہی کیا ہے سقراط کے پاس جانے کی۔“
عنصر نے جانی پہچانی آواز کان میں پڑتے ہی جھٹ سے آنکھیں کھولیں۔ سرنگ کی سمت دیکھا تو اس کی خوشی اور حیرت کی انتہا نہ رہی۔ وہاں ریاست کھڑا تھا۔
اسے دیکھ کر چوہدری عمردراز سمیت سب کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں مگر ایک عجیب بات یہ تھی کہ ریاست نے ہاتھ میں ایک لفافہ اٹھا رکھا تھا جو سرخ رنگ کے سفوف سے بھرا ہوا تھا۔ سب اسے حیرت سے دیکھ رہے تھے۔
”بڑی اینٹری ماری ہے۔“
عنصر ریاست سے مخاطب ہوا۔
”تم نے کیا سوچا تھا یوں ہی مر جاﺅ گے۔ ابھی تو میں نے اپنے یار کی شادی پر بھنگڑا بھی ڈالنا ہے۔“
ریاست نے اسے آنکھ مارتے ہوئے کہا۔
اس سے پہلے کہ ان کے مابین مزید کوئی بات چیت ہوتی چوہدری عمردراز بول اٹھا۔
”تمہاری جرا¿ت کیسے ہوئی یہاں آنے کی؟“
وہ غصے کے عالم میں دھاڑا۔ اس موقع پر اسے ریاست کی اس طرح آمد سخت ناگوار گزری تھی۔
”شاید تم جانتے نہیں یہاں آنے کا راستہ ہے مگر جانے کا کوئی راستہ نہیں۔“
”آپ غلط کہہ رہے ہیں چوہدری صاحب۔ یہاں آنے اور جانے کا راستہ موجود ہے۔ اگر آپ کی نظر کمزور ہے تو میں آپ کو دکھا سکتا ہوں۔ چلیے میرے ساتھ۔“
ریاست نے سر جھکا کر نہایت ادب سے کہا۔
”تُو بھی مرے گا ان کے ساتھ۔ پکڑ اوئے ماکھے اس کو بھی۔“
چوہدری عمردراز نے دانت پیستے ہوئے کہا۔ ماکھا پھرتی سے ریاست کو پکڑنے کے لیے آگے بڑھا۔
”ایک منٹ، ایک منٹ چوہدری صاحب ! اتنی بھی کیا جلدی ہے۔“
ریاست نے تیزی سے شاپر میں ہاتھ ڈالا۔ سرخ پاﺅڈر سے مٹھی بھر کر باہر نکال لی اور ماکھے کے منہ پر دے ماری۔ اگلے ہی لمحے تہہ خانہ اس کی دلدوز چیخوں سے گونج اٹھا۔ عنصر حیران تھا کہ ریاست نے یہ کون سا پاﺅڈر ہاتھ میں پکڑ رکھا ہے جس نے ماکھے کو اتنی تکلیف میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس کی یہ حیرت اس وقت دُور ہو گئی جب کمرے میں موجود تمام افراد چھینکیں مارنے لگے۔
ریاست اپنے ساتھ سرخ مرچوں کا لفافہ بھر کر لایا تھا۔ چوہدری عمردراز کا خاص ملازم ماکھا بہت بری حالت میں تھا۔ وہ مسلسل چیخ رہا تھا مگر اسے کہیں پناہ مل رہی تھی نہ تکلیف سے چھٹکارے کی صورت۔ یہ صورتحال دیکھ کر چوہدری عمردراز کلہاڑا لے کر ریاست کی طرف لپکا لیکن وہ بھی پوری تیاری کر کے آیا تھا۔ اس نے دوسری بار مٹھی بھری اور چوہدری عمردراز کے منہ پر دے ماری۔ اس کا حشر بھی ماکھے جیسا ہوا۔
گرو اور چیلے نے چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا لیا۔ عنصر نے بلند آواز سے ماسٹر حمید اور پروین کو کہا وہ اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ چوہدری عمردراز کے دوسرے ملازم نے جب دیکھا اب مرچوں کا گولا اس کی جانب داغا جانے والا ہے تو اس نے دوڑ لگا دی۔ ریاست نے مرچوں والا شاپر پرے پھینکا اور عنصر کی رسیاں کھولنی شروع کر دیں۔ رسیاں کھلتے ہی عنصر اوپر کی جانب بھاگا۔ ماسٹر حمید اور پروین کی رسیاں کھول کر ریاست انہیں لے کر چوہدری عمردراز کے کمرے میں آ گیا۔
تہہ خانہ چوہدری عمردراز اور اس کے ملازم کی دلدوز چیخوں سے گونج رہا تھا۔ عنصر سرپٹ بھاگ رہا تھا۔ چوہدری عمردراز کی حویلی سے باہر آ کر اس نے نظر دوڑائی۔ روشن نگر میں نئے دن کی نئی صبح طلوع ہو چکی تھی۔ لوگ کھیتوں کا رخ کر رہے تھے۔ دُور اسے کھیتوں میں چوہدری عمردراز کا چیلا بھاگتا ہوا نظر آگیا۔ عنصر نے اس کے پیچھے دوڑ لگا دی۔ گاﺅں کے لوگ عنصر کو چوہدری عمردراز کے ملازم کے پیچھے بھاگتے ہوئے دیکھ کر اچنبھے میں پڑ گئے۔ عنصر نے بالآخر اسے پکڑ لیا اور اس کی پٹائی کرتا ہوا واپس حویلی لے آیا۔
اتنی دیر میں ریاست نے چوہدری عمردراز اور اس کے خاص ملازم ماکھے کی مشقیں کس لی تھیں۔ وہ دونوں دردناک انداز سے چیخیں مار رہے تھے۔ ان کی آنکھیں اور تمام چہرہ اتنا سوج گیا کہ ناقابل شناخت ہو گیا تھا۔ نیلی حویلی کی تمام خودساختہ بدروحیں اپنے گرو سمیت پکڑی جا چکی تھیں۔ لوگ حیران پریشان چوہدری عمردراز کی حویلی میں جمع ہو گئے کہ آخر ماجرا کیا ہے۔ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔
کسی نے تھانیدار احسان اللہ کو فون کیا تو وہ پولیس کی بھاری نفری لے کر موقع پر پہنچ گیا۔ عنصر تھانیدار احسان اللہ کو چوہدری عمردراز کے کمرے سے لے کر تہہ خانے میں گیا اور سرنگ سے ہوتا ہوا نیلی حویلی لے گیا۔ راستے میں اس نے تھانیدار کو ماسٹرحمید اور پروین کی بازیابی سے لے کر چوہدری عمردراز اور اس کے چیلوں کے وہ سارے کرتوت بتائے جن کا اس نے ان کے سامنے اقرار کیا تھا۔ تھانیدار احسان اللہ انگشت بدنداں رہ گیا۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا گاﺅں کی تمام گھناﺅنی وارداتوں کے پیچھے چوہدری عمردراز کا ہاتھ تھا۔ تھانیدار احسان اللہ نے سرنگ کے دوسرے راستے پر جا کر دیکھا۔ وہ راستہ کھیتوں کے نیچے سے ہوتا ہوا گاﺅں سے باہر نکل رہا تھا۔
چوہدری عمردراز اسی راستے سے بچوں اور منشیات کی سمگلنگ کرتا تھا اسی لیے کبھی کسی کی نظروں میں نہیں آیا تھا۔ پورے گاﺅں میں شور مچ گیا۔ لوگوں کو یقین نہیں آ رہا تھا چوہدری عمردراز عرصہ دراز سے ان کے ساتھ کیا کھیل، کھیل رہا تھامگر حقیقت پوری طرح واضح ہو چکی تھی۔ اصل شیطان پکڑے جانے پر سب خوش ہو گئے۔
عنصر اور ریاست باتیں کر رہے تھے کہ تھانیدار احسان اللہ حویلی سے باہر آتا دکھائی دیا۔
”تم دونوں نے بہت بہادری دکھائی ہے نوجوانو۔ تمہاری وجہ سے ایک خطرناک مجرم اور ایک بہت بڑا گروہ پکڑا گیا۔ اس کارنامے نے روشن نگر کو سچ مچ روشن کر دیا ہے۔“
تھانیدار احسان اللہ نے لمبا سانس لیتے ہوئے کہا۔
”ریاست کا شکریہ ادا کریں۔ یہ سب اس کی بدولت ہی ہوا ہے تھانیدار صاحب۔“
عنصر نے ریاست کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
”ریاست نے ایک اچھے دوست اور اچھے شہری کا کردار بخوبی ادا کیا ہے۔ ویل ڈن ریاست۔ آپ نے بہت اچھا کام کیا۔“
تھانیدار احسان اللہ نے کہا تو اس کا سینہ فخر سے چوڑا ہو گیا۔
”لیکن ایک مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہوا عنصر صاحب۔“
تھانیدار نے اپنا سر کھجاتے ہوئے کہا۔
”وہ کیا؟“ عنصر نے تعجب سے پوچھا۔
”دراصل بات یہ ہے کہ ایک دن میں بھی اکیلا نیلی حویلی کا دیدار کرنے گیا تھا۔ واپسی پر میں نے ایک شخص کو پکڑنے کی کوشش کی۔ خانہ خراب ہو اس کا۔ بجائے رکنے کے اپنا بیس کلو کا تربوز جیسا سر میرے سینے پر مار دیا۔ کمبخت کی بھینسے جیسی ٹکر نے اڑا کر دور پھینک دیا مجھے۔ یہ دیکھو یہ اسی کی نشانی ہے۔“
تھانیدار احسان نے اپنا زخمی ہاتھ انہیں دکھاتے ہوئے کہا جسے ایک پٹی کی مدد سے اس نے اپنے گلے میں لٹکایا ہوا تھا۔ عنصر نے بمشکل اپنی ہنسی ضبط کی کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اسے یہ ٹکر ریاست نے ماری تھی۔ ادھر ریاست تھانیدار احسان اللہ سے نظریں چرا رہا تھا کہ کہیں وہ اسے پہچان ہی نہ لے۔
”تمام مجرم پکڑے گئے لیکن وہ بھاری بھرکم سر والا کہیں نظر نہیں آ رہا۔ پتا نہیں وہ کون تھا۔ لگتا ہے وہ فرار ہو گیا ہے۔“
”شاید ریاست اسے جانتا ہو۔“
عنصر نے شرارت سے کہا تو ریاست کی حالت دیکھنے والی تھی۔
”مم.... میں....بھلا مجھے کیا پتا کون ہے وہ۔“
ریاست نے ہکلاتے ہوئے جواب دیا۔
”گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ریاست صاحب۔ آپ نے بہت کام کر لیا۔ اسے پکڑنے کی ذمہ داری اب میری ہے۔“
تھانیدار احسان اللہ نے خم ٹھونک کر کہا۔
”جی ٹھیک ہے۔“
ریاست کی مری مری آواز نکلی تو عنصر جو کافی دیر سے اپنی ہنسی ضبط کیے بیٹھا تھا کھلکھلا کر ہنس پڑا۔ تھانیدار احسان نے اس کی ہنسی کو نظرانداز کیا اور آگے بڑھ گیا۔
”جان چھوٹی سو لاکھوں پائے۔“
ریاست کے منہ سے بے ساختہ نکلا تو عنصر کی ہنسی اور گہری ہو گئی۔
تھانیدار احسان اللہ نے چوہدری عمردراز اور اس کے پانچوں ملازموں کو ہتھکڑی پہنائی، گاڑی میں ڈالا اور چل دیا۔ پروین چاچے فرمان کے ساتھ چلی گئی۔ عنصر ماسٹر حمید اور ریاست کو لے کر گھر چلا گیا۔ ایک بہت بڑا معرکہ سر کرنے کے بعد عنصر اگرچہ تھکاوٹ سے چور تھا مگر اس کا دل بہت مطمئن تھا۔ اس کے تجسس نے بڑے بڑے رازوں سے پردہ اٹھا دیا تھا اور یہ سب یقینا اللہ کی مدد اور توفیق سے ہوا تھا۔ اس کی مدد سے ہی اس نے اتنے ظالم اور خطرناک انسان پر قابو پایا تھا۔ ریاست ڈاکٹر کو بلا لایا۔ اس نے آ کر ماسٹر حمید کی مرہم پٹی کر دی۔ اتنی دیر میں اماں بھی گھر پہنچ گئیں۔ عنصر نے انہیں فون کر کے گھر بلوا لیا تھا۔ اس کا کزن انہیں چھوڑنے آیا تھا۔ گھر آتے ہی وہ عنصر کے گلے لگ کر رونے لگیں۔ ماسٹر حمید کے سر پر پٹی بندھی دیکھ کر وہ چپ نہیں ہو رہی تھیں۔
عنصر نے انہیں بتایا ابا اب بالکل ٹھیک ہیں۔ ایک دو دن میں پٹی بھی اتر جائے گی۔ یہ بات سن کر انہیں کچھ تسلی ہوئی۔ ریاست کا ہاتھ بری طرح سوج چکا تھا۔ اگرچہ اس نے صابن سے اچھی طرح ہاتھ دھویا تھا مگر اسے ابھی تک مرچیں بری طرح چبھ رہی تھیں۔ اماں نے اس کے ہاتھوں پہ سرسوں کا تیل مل دیا تو اسے کچھ سکون محسوس ہوا۔ عنصر نے اماں کو ریاست کے مرچوں والے ایڈونچر کے بارے میں بتایا تو وہ ہنسنے لگیں۔ عنصر بھی ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہا تھا۔
”ریاست ! تمہیں کیسے معلوم ہوا ہم چوہدری عمردراز کے خفیہ تہہ خانے میں ہیں؟“
عنصر بخوبی جانتا تھا ریاست نیلی حویلی سے گھبراتا ہے مگر وہ ناصرف نیلی حویلی کے اندر داخل ہوا بلکہ انہیں ڈھونڈ کر ان سب کی جان بھی بچائی تھی۔ وہ بروقت نہ آتا تو کچھ بھی ہو سکتا تھا۔
”تمہارے جانے کے بعد بھلا مجھے چین کہاں آنے والا تھا۔“
ریاست نے منہ بنا کر کہا۔
”رات میں نے آنکھوں میں جاگ کر گزاری۔ فجر کی اذان ہوتے ہی میں تمہارے گھر گیا مگر وہاں تالہ پڑا ہوا تھا۔ میں سمجھ گیا کہ تم ابھی تک واپس نہیں آئے ہو۔ میں چوہدری عمردراز کی حویلی کے سامنے سے گزرا تو اس کی حویلی خالی پڑی تھی نہ کوئی بندہ نظر آ رہا تھا نہ بندے کی ذات۔“
ریاست نے گہرا سانس لیا۔
”میں بڑا حیران ہوا۔ مجھے کھٹکا ہوا کہیں نہ کہیں گڑبڑ تو ضرور ہے۔ نیلی حویلی کی طرف گیا تو وہاں چوکی خالی تھی اور چوہدری عمردراز کا کوئی ملازم نظر نہیں آ رہا تھا۔ باہری گیٹ بند دیکھ کر میں عقبی سمت سے حویلی کے اندر داخل ہو گیا۔“
”اوہ ! “
عنصر کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔
”نیلی حویلی کے ایک کمرے میں چوہدری عمردراز کے ملازم مل گئے۔ وہ لہولہان بیہوش بندھے پڑے تھے۔ میں سمجھ گیا یہ تمہاری کارستانی ہے مگر تم کہیں نظر نہ آئے۔“
”تو پھر تم نے ہمیں ڈھونڈا کیسے؟“
عنصر نے اشتیاق سے پوچھا۔
”جب تم نظر نہیں آئے تو میں باہر نکل آیا۔ مجھے صحن کی جھاڑیوں میں سے روشنی نکلتی دکھائی دی۔ میں ادھر گیا تو چوہدرانی نیک بخت کی قبر کھلی ہوئی ملی۔ نیچے زینے جاتے دیکھ کر میں سمجھ گیا کچھ نہ کچھ گڑبڑ ضرور ہے۔ بس میں نیچے اترا اور تم تک پہنچ گیا۔“
ریاست نے اپنی بات ختم کر دی۔
”بہت خوب ریاست!“
عنصر نے اسے خراج تحسین پیش کیا۔
”مگر....“
عنصر پھر بولا۔
”تم ایک پرخطر جگہ پر جا رہے تھے کوئی اسلحہ ساتھ لے کر جاتے۔ تم نے سرخ مرچوں کا انتخاب کیوں کیا۔ “
”دیکھ بھائی! میں کوئی اسلحہ ڈیلر تو ہوں نہیں اور نہ مجھے کوئی بندوق وغیرہ چلانا آتی ہے۔ پرچون فروش کی دکان کا سب سے خطرناک ہتھیار سرخ مرچیں ہی ہوتی ہیں۔ اگر نہیں یقین تو ایک بار چوہدری عمردراز کا حال پوچھ لو۔ “
اس نے اپنا مرچوں والا ہاتھ سہلاتے ہوئے کہا تو عنصر کی ہنسی نکل گئی۔ اماں اور ریاست بھی مسکرانے لگے۔(جاری ہے)
’نیلی حویلی پر چھائے ، آسیب کے سائے ۔۔۔۔ ‘آخری قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں