’نیلی حویلی پر چھائے ، آسیب کے سائے ۔۔۔۔ ‘آخری قسط

’نیلی حویلی پر چھائے ، آسیب کے سائے ۔۔۔۔ ‘آخری قسط
’نیلی حویلی پر چھائے ، آسیب کے سائے ۔۔۔۔ ‘آخری قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تھانیدار احسان اللہ کو چوہدری عمردراز پر پولیس کے مخصوص ”حربے“ استعمال کرنے کی نوبت نہ آئی اور اس نے سب بک دیا۔ اس کے ہوشربا انکشافات نے سب کو لرزا دیا۔
چوہدری عمردراز کے بیان کا مختصر خلاصہ یہ تھا :
”چوہدری حاکم کا سایہ سر سے اٹھ گیا تو اس کے شیطانی دماغ میں گاﺅں پر قبضے کا خیال آیا۔ شریر تو میں شروع دن سے تھا۔ باپ کے ڈر سے پھر بھی کچھ دبا دبا رہتا تھا مگر چوہدری حاکم کے مرنے کے بعد وہ بالکل آزاد ہو گیا۔ اب اسے کسی کا ڈر نہیں تھا۔ اس نے گاﺅں میں چھوٹی موٹی وارداتیں کرنا شروع کر دیں۔ رفتہ رفتہ اس کی ماں کو اس کی وارداتوں کا علم ہوا تو وہ اس کے راستے کی دیوار بن گئی۔ اس نے ہر معاملے میں مداخلت شروع کر دی۔ بات بات پر نصیحت کرنا اس کا معمول تھا۔ یہ بات چوہدری عمردراز کو زہر معلوم ہوتی تھی اس لیے ایک دن غصے میں آ کر میں نے اپنی ماں کو نیلی حویلی میں اس کے کمرے میں بند کر دیا۔ بیمار وہ پہلے رہتی تھی۔ بیٹے کی کرتوتوں نے اس کی جان لینے میں زیادہ دیر نہ لگائی۔

’نیلی حویلی پر چھائے ، آسیب کے سائے ۔۔۔۔ ‘قسط نمبر 23 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
وہ اتنا سنگدل ہو گیا کہ اپنی ماں کو دفنایا بھی نہیں اور وہیں چھوڑ دیا۔ چوہدرانی نیک بخت اس سارے واقعے کی چشم دید گواہ تھی اسی لیے چوہدری عمردراز اس کے پیچھے پڑ گیا۔ جس دن وہ گھر سے نکل کر ماسٹر حمید کے گھر آئی تھی اسی رات واپس لے جا کر چوہدری عمردراز نے اسے جلا کر مار ڈالا اور لاش نیلی حویلی کے اندر واقع کنویں میں پھینک دی۔ اب اس کے راستے کی تمام رکاوٹیں ہٹ چکی تھیں۔ اس نے ان دونوں کی موت کو آسیب کی کارستانی مشہور کرا دیا۔
تبھی ایک دن اس کی زندگی کا سب سے اہم موڑ آ گیا۔ ایک دن وہ نیلی حویلی کے پچھلے کمرے کی صفائی کرا رہا تھا کہ وہاں ایک تہہ خانے کا انکشاف ہوا۔ یہ کمرہ کسی زمانے میں سٹور روم کے طور پر استعمال ہوتا تھا لیکن عرصہ دراز سے بند رہنے کی وجہ سے یہاں کوئی نہیں جاتا تھا۔ چوہدری عمردراز نے اپنے ملازموں کی مدد سے تہہ خانے کو کھولا۔ نیچے اترا تو تہہ خانے کے ماحول نے اس کو حیران کر دیا۔ تبھی وہ کنویں کی جانب والا خفیہ کمرہ بھی کھولنے میں کامیاب ہو گیا جہاں کیتھرین کا تابوت پڑا تھا۔ وہاں ہیرے جواہرات کے ڈھیر دیکھ کر اس کی باچھیں کھل اٹھیں۔ جارج فرنانڈس کی ڈائری اس کے ہاتھ لگی تو گویا اس کے دل کی مراد بر آئی۔ اس نے پڑھا کہ جارج فرنانڈس کس طرح حویلی کے نیچے اپنے کالے کرتوت انجام دیتا تھا اور اوپر علاقے پر حکومت کرتا تھا۔
چوہدری عمردراز یہ ساری باتیں پڑھ کر خوشی سے اچھل پڑا۔ تبھی اس کے شیطانی دماغ نے زیادہ سے زیادہ دولت سمیٹنے کے منصوبے بنانے شروع کر دیے۔ اس کام کے لیے اس نے جارج فرنانڈس کی پالیسی کو ہی جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ سب سے پہلے اس نے نیلی حویلی کے جغرافیے میں تھوڑی تبدیلی کی۔ اپنی ماں اور بیوی کی فرضی قبریں بنوائیں۔ تہہ خانے سے وہاں تک خفیہ راستہ بنوایا۔ پرانا راستہ قدیم طرزتعمیر پر مشتمل تھا اس لیے اس کا استعمال ترک کر کے اس کو بند کرا دیا اور فرضی قبروں کے نیچے نیا راستہ بنوایا۔
اپنے دھندوں اور جرائم کو جاری رکھنے اور وہاں لوگوں کو مداخلت سے باز رکھنے کے لیے اس کے شیطانی دماغ میں ایک انوکھا منصوبہ آیا۔ اس نے اپنے پانچ چیلوں کے ذریعے گاﺅں میں نیلی حویلی کے آسیب کے قصے مشہور کرا دیے تاکہ لوگ خوفزدہ ہو جائیں۔ نیلی حویلی کا خوف لوگوں کے دلوں میں بٹھانے کے لیے اس کا ویران ہونا بھی ضروری تھا۔ اس لیے چوہدری عمردراز اس کو الوداع کہہ کر دوسری حویلی میں منتقل ہو گیا اور گاﺅں میں مشہور کرا دیا کہ وہ آسیب کی وجہ سے وہاں سے نکلا ہے۔ اس سے لوگوں میں خوف و ہراس مزید پھیل گیا۔
پھر اس کی ہدایت پر رات کو اس کے چیلے گھنگھرو باندھ کر اور عجیب و غریب لباس پہن کر لوگوں کو ڈرانے لگا۔ اگر کوئی بھول چوک سے نیلی حویلی میں داخل ہو جاتا تو اس کے ملازم اسے پکڑ کر موت کے گھاٹ اتار دیتے اور پھر پیپل کے درخت پر لٹکا دیتے۔ چوہدری عمردراز کا تیر ٹھیک نشانے پر لگا۔ لوگ اتنا ڈرنے لگے کہ اپنی زرخیز سونا اگلتی زمینوں کو اونے پونے داموں اسے بیچنے لگے۔ اس سے اس کی دولت میں بے پناہ اضافہ ہوتا گیا۔
کہتے ہیں لالچ انسان کو اندھا کر دیتی ہے۔ یہی حال اس کا بھی ہوا۔ دولت کی ہوس میں اتنا آگے نکل گیا کہ واپسی کا راستہ ہی گنوا دیا۔ اس نے زیادہ سے زیادہ دولت کے حصول کے لیے بچوں کے اغوا اور گاﺅں میں منشیات کا دھندا شروع کرا دیا۔ اسے اس بات کا بخوبی پتا تھا کہ جارج فرنانڈس بچوں کی سمگلنگ کے لیے نیلی حویلی کا ہی خفیہ راستہ استعمال کیا کرتا تھا جو ایک مقام پر گاو¿ں سے باہر نکلتا ہے۔ اس نے بچوں کی سمگلنگ اور دیگر گھناﺅنے دھندوں کے لیے اسی راستے کو اختیار کیا۔ اس طرح کسی کوبھی شک نہیں ہوتا تھا کہ ان وارداتوں کے پیچھے چوہدری عمردراز چھپا ہوا ہے۔ اپنے آپ کو شک سے محفوظ رکھنے اور گاو¿ں والوں کے دلوں میں جگہ بنانے کے لیے اس نے خیراتی کاموں میں حصہ لینا شروع کر دیا اور مزید پناہ کے لیے سیاست کے دامن میں آ گیا مگر جب اللہ نے اس کی رسی کھینچی تو پھر اس کو کہیں پناہ نہ ملی۔ مہرہ پکڑا گیا تو ساری بساط الٹ گئی۔ اس کی نشاندہی پر پولیس نے چھاپے مار کر منشیات فروشی اور بچوں کی سمگلنگ میں ملوث بہت بڑا نیٹ ورک پکڑ لیا۔ سارے مجرم اپنے انجام کو پہنچ گئے۔
حکومت نے نیلی حویلی کا خزانہ اپنی تحویل میں لے لیا۔ دولت قومی خزانے میں جمع کرا دی گئی جبکہ ہیرے جواہرات اور قدیم نوادرات کو عجائب گھر انتظامیہ کے حوالے کر دیا گیا۔ جرم کی دنیا کے بہت بڑے نیٹ ورک کی گرفتاری میں مدد پر حکومت نے عنصر اور ریاست کے لیے پچیس، پچیس لاکھ روپے انعام کا اعلان کیا۔ تھانیدار احسان اللہ کی بھی پروموشن ہو گئی۔
روشن نگر میں نئی صبح کا آغاز ہو گیا۔ لوگ اکٹھے ہو کر گئے اور چوہدری عمردراز کی ماں کے ڈھانچے اور اس کی بیوی چوہدرانی نیک بخت کے تابوت کو نکال کر نہایت احترام سے قبرستان میں دفن کیا جبکہ کنویں میں پڑی ہڈیوں کو اکٹھا کر کے ان کو بھی ایک اجتماعی قبر میں دفنا دیا گیا۔ اس کے بعد لوگوں نے نیلی حویلی کو مسمار کر کے اس کا نام و نشان صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔
گاﺅں میں جس نحوست کا آغاز نیلی حویلی سے ہوا تھا لوگوں نے اسے جڑ سے اکھاڑ دیا۔ گاﺅں میں پہلے جیسی خوشحالی پھر لوٹ آئی۔ جن کے بچے نیلی حویلی کی بھینٹ چڑھ گئے تھے وہ بہت افسردہ و رنجیدہ تھے لیکن انہیں تسلی تھی کہ اصل مجرم پکڑا گیا ہے اور انہیں انصاف بھی مل گیا ہے۔ لوگ باری باری ماسٹر حمید کے گھر جاتے اور ان کے بیٹے کی بہادری کی تعریف کرتے۔ آخر اس نے کام بھی اتنا شاندار انجام دیا تھا۔ ریاست بھی پورے گاو¿ں میں اپنی تعریفیں سن کر اترا اترا کا پھرتا تھا مگراس سب کے باوجود ایک کام ہونا ابھی بھی باقی تھا۔
”ریاست یار پروین اب کیسی ہے؟ وہ ٹھیک تو ہے نا۔“
عنصر نے اس کے قریب ہوتے ہوئے کہا۔ نیلی حویلی کے ایڈونچر کو دو روز گزر چکے تھے۔
”مجھے کیا پتا کیسی ہے۔“
وہ دکان پر حساب کتاب میں مصروف تھا۔
”محلے دار ہو کر تمہیں دوسرے محلے دار کا پتا نہیں۔ زمانہ ویسے ہی بڑا سنگدل ہو گیا ہے۔“
عنصر نے منہ بنا کر کہا تو ریاست زیرلب مسکرانے لگا۔
”یار وقت ہی نہیں ملتا۔ دکان سے گھر، گھر سے دکان۔ بس کیا بتاو¿ںاور پھر اب میں گاو¿ں میں اتنا مشہور ہو گیا ہوں کہ بچہ بچہ مجھے روک کر میری بہادری کے قصے سننے کی فرمائش شروع کرتا ہے۔ اب تم ہی بتاو¿ اتنی مصروفیت کے ہوتے میں وقت کیسے نکالوں۔“
وہ بدستور زیرلب مسکرا رہا تھا جیسے عنصر کی بے چینی سے لطف اندوز ہو رہا ہو۔
”پہلے تو بڑا کہتے تھے پروین میری بہن جیسی ہے۔ چاچے فرمان کا دکھ سینے میں لیے پھرتے تھے اوراب اتنے مشہور ہو گئے ہو کہ ان کی خبرگیری کرنا بھی گوارا نہیں۔“
عنصر نے قدرے ناراض لہجے میں کہا۔
”بہن وہ میری ہے لیکن تمہیں پروین کی اتنی فکر کیوں ہو رہی ہے؟“
ریاست نے عینک ذرا نیچے کر کے عنصر کو دیکھا۔
”فکر نہیں ہو رہی یار۔ ویسے ہی پوچھ رہا ہوں۔ اس نے میرا بہت ساتھ دیا ہے۔ ایک موقع پر اس نے میری جان بھی بچائی تھی اور اپنے محسن کو یاد رکھنا چاہیے۔“
عنصر نے اس سے نظریں چراتے ہوئے کہا۔
”اچھا....!“
ریاست نے معنی خیز مسکراہٹ کیساتھ لمبا سانس لیا۔
”اچھی طرح سمجھ رہا ہوں تمہاری دلی کیفیت کو۔“
”ایسی ویسی کوئی بات نہیں ہے یار۔ مجھے بس اس کی فکر ہو رہی تھی۔“
عنصر اس سے نظریں نہیں ملا رہا تھا۔
”پروین سے خود جا کر اس کا حال کیوں نہیں پوچھ لیتے؟ مجھے یقین ہے وہ تمہیں اپنے گھر سے باہر نہیں نکالے گی۔“
ریاست نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”لیکن میں کبھی اس کے گھر نہیں گیا اور اس طرح منہ اٹھا کر جاتا بندہ اچھا بھی نہیں لگتا۔“
عنصر نے اس کی تجویز رد کر دی۔
”میں تمہیں لے چلتا ہوں اس کے گھر۔“
ریاست کی بات سن کر عنصر خوشی سے اچھل پڑا۔
”کیا واقعی؟“
اس کے تاثرات دیکھ کر ریاست بے ساختہ ہنسنے لگا۔
”ہاں بالکل۔“
”مگر یہ سب ہو گا کیسے؟“
”یہ سب تم مجھ پر چھوڑ دو۔ بس شام کو تیار ہو کر میرے گھر آ جانا۔“
عنصر شام کو ریاست کے گھر گیا تو وہ اسی کا منتظر تھا۔ وہ اسے چاچے فرمان کے گھر لے گیا۔ اس کے گھر والے دونوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ پروین نے ان کے سامنے عنصر کی کچھ زیادہ ہی تعریفیں کر رکھی تھیں اس لیے وہ اس سے بہت متاثر لگ رہے تھے۔ عنصر نے نظریں گھما کر دیکھا اسے پروین کہیں نظر نہیں آئی۔ تھوڑی دیر بعد پروین کی اماں اٹھیں اور اندر چلی گئیں۔ ٹھیک دس منٹ بعد پروین تین چائے کے کپ اٹھائے نمودار ہوئی۔ اس نے اپنا چہرہ جھکا رکھا تھا۔ عنصر نے اسے سلام کیا تو اس نے مری مری آواز میں جواب دیا اور اندر چلی گئی۔
”یہ اتنی شرمیلی کب سے ہو گئی۔“
عنصر نے خودکلامی کی۔ اتنی دیر میں اس کی اماں بھی ان کے قریب آکر بیٹھ گئیں۔
”چاچا! پروین کی شادی کا سلسلہ کہاں تک پہنچا۔“
ریاست نے گفتگو کا سلسلہ شروع کیا۔
”بس بیٹا! کیا بتاو¿ں۔ تمہیں تو پتا ہے پروین کی شادی طے ہو چکی تھی۔ دو دن بعد بارات تھی۔ جب یہ غائب ہوئی تو اس کے ہونے والے سسرالیوں نے رشتہ توڑ دیا۔“
”کیوں؟“
اس بار عنصر نے حیرت سے پوچھا۔
”انہوں نے ہمیں اس کے اغوا کا طعنہ دیا اور کہا وہ ایسی لڑکی کو اپنے خاندان کا حصہ نہیں بنا سکتے۔ اگر یہ شادی ہو گئی تو ان کی برادری انہیں ساری عمر طعنے دے گی۔ جب سے پروین واپس آئی ہے اسی بات کو دل پر لے بیٹھی ہے۔“
چاچے فرمان نے دکھی لہجے میں کہا۔
اس سے پہلے کہ وہ مزید کوئی بات کرتا، دروازے پر دستک ہوئی اور وہ باہر چلا گیا۔
”میری پھول جیسی بچی کے نصیب بھی کتنے برے ہیں۔ ایک ہی اولاد ہے اور اس کے ساتھ بھی دنیا ایسا سلوک کر رہی ہے۔“
”چاچی ! اگر آپ برا نہ مانیں تو میں پروین سے بات کر سکتا ہوں۔“
عنصر نے دل مضبوط کر کے اجازت مانگی۔
”ہاں بیٹا کیوں نہیں۔ یہ تیرا اپنا ہی گھر ہے۔“
عنصر چارپائی سے اٹھ کر اندر چلا گیا۔ پروین ایک کمرے میں سہیلیوں کے جھرمٹ میں بیٹھی مل گئی۔ عنصر کو دیکھ کر سب باہر نکل گئیں۔ پروین کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے۔
”تم یہاں کیا کرنے آئے ہو؟“
اس نے رُندھی آواز میں پوچھا۔
”یہاں سے گزر رہا تھا سوچا حال پوچھتا جاﺅں۔“
عنصر نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”میں ٹھیک ہوں۔ تم کیسے ہو اور انکل حمید کی طبیعت اب کیسی ہے؟“
اس نے آہستگی سے پوچھا۔
”اگر تم ٹھیک ہو تو پھر تمہاری آنکھوں میں یہ آنسو کیسے ؟“
پروین نے کوئی جواب نہ دیا۔ رو رو کر اس کی ناک ٹماٹر کی طرح سرخ ہو گئی تھی۔ عنصر کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
”تم مسکرا کیوں رہے ہو؟“
پروین بولی۔
”نن۔ نہیں۔ کچھ نہیں۔ میں تو ایسے ہی .... مسکرا رہا تھا۔“
عنصر گڑبڑا کر بولا۔
”بیوقوف کے بیوقوف ہی رہو گے۔“
پروین منہ ہی منہ میں بڑبڑائی۔
”میڈم آپ سے ایک سوال پوچھنے کی اجازت ہے؟“
عنصر نے زیرلب مسکراتے ہوئے کہا۔
”کون سا سوال؟“
پروین نے پوچھا۔
”جو چائے آپ نے مجھے آج پلائی ہے کل شام کو بھی ایسی ہی چائے بنا کر پلا سکتی ہو؟“
”کیا تم کل شام کو پھر آﺅ گے؟“
پروین نے اپنی پلکیں جھپکاتے ہوئے پوچھا۔
”یہ بات سرپرائز ہے۔ اللہ حافظ۔“
یہ کہہ کر عنصر باہر نکل آیا۔ گھر آ کر اس نے اماں کو آوازیں دینی شروع کر دیں۔ وہ کمرے سے بھاگی بھاگی آئیں۔
”کیا ہوا پتر سب خیر تو ہے؟“
”اماں !میں نے آپ کیلئے چاند سی بہو ڈھونڈ لی ہے۔“
عنصر کی بات سن کر اماں نے اس کا ماتھا چوم لیا۔ اگلے روز شام کو اماں اور ماسٹر حمید تیار ہو کر ریاست کے گھر گئے۔ وہاں سے اسے اور اس کی بیوی کو ساتھ لیا اور چاچے فرمان کے گھر پروین کے رشتے کی بات کرنے جا پہنچے۔ انہیں بھلا کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ انہوں نے اپنی رضامندی پروین کی رضامندی سے مشروط کر دی۔ پروین نے بھی بخوشی ہاں کر دی اور دو ہفتوں بعد دونوں کی شادی طے پا گئی۔
جس روز عنصر کی بارات تھی اسی روز صبح کے وقت حکومت کے اعلان کے مطابق عنصر اور ریاست کو ایک پروقار تقریب میں پچیس، پچیس لاکھ روپے کے چیک بطور انعام دیے گئے۔ شام کو عنصر اور پروین نکاح کے مقدس بندھن میں بندھ گئے۔

(ختم شد)