اسباقِ لسانیات
شبد تو کورے پنے ہیں پھر اِن سے نکالنے والے اپنی مرضی کا اَرتھ نکال لیتے ہیں، جی ہاں اگر تو آپ سمجھ گئے ہوں تو یہ ہماری اپنی زبان ہے، شبد یعنی (الفاظ، عربی) کورے مطلب (صاف، عربی) پنے یعنی (کاغذ، فارسی) اَرتھ، (مطلب، عربی) نکال سکتے ہیں، (اپنی زبان یعنی پراکرت و سنسکرت)، پنجابی، سرائیکی، سندھی، مارواڑی، بنگالی، تامل، ملیالم اور پالی ان سب زبانوں کا تخمِ اصلی پراکرت و سنسکرت ہے چنانچہ لہجہ تبدیل ہونے کے سبب مذکورہ زبانوں کے الفاظ کی بْنت اور صوتی و تحریری تشکیلات میں فرق پیدا ہو گیا، دنیا میں کسی بھی زبان کی ترویج کا ماخذِ اصلی صوتی علامات ہیں جن کے سبب وہ زبان آگے جا کر رسمِ تحریر کی صورت اختیار کر لیتی ہے چنانچہ کسی بھی زبان کو سیکھنے کے صرف تین اسلوب ہی رائج رہے ہیں، ایک سادہ اسلوب تو یہ ہے کہ وہ زبان آپ کے گھر کی زبان ہو، دوسرا وہ زبان آپ کے معاشرے کی زبان ہو اس کے علاوہ تیسرا اسلوب انتہائی پیچیدہ اسلوب ہے یعنی وہ زبان آپ اْس زبان کے قواعد کے وسیلہ سے سیکھیں، دنیا میں اس وقت چار بڑی زبانیں رائج ہیں یعنی انگریزی زبان جو رومن یا لاطینی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے دوسری چائنیز زبان جو چائنہ ہی کے قدیم رسم الخط میں لکھی جاتی ہے تیسری بڑی زبان عربی ہے جو آرامی رسم الخط جسے جدید اصطلاح میں عربی رسم الخط بھی کہا جاتا ہے میں لکھی جاتی ہے اس کے علاوہ دنیا کی چوتھی بڑی زبان سنسکرت ہے یعنی ہماری دھرتی کی زبان جو قدیم ہندی رسم الخط دیوناگری میں لکھی جاتی ہے، دیگر زبانوں کا تذکرہ تو خیر کسی اور مضمون میں کروں گا اس وقت میں اپنی زبان یعنی سنسکرت پر تھوڑی روشنی ڈالنے کی کوشش کرتا ہوں، سنسکرت قدیم ترین زبان پراکرت سے متشکل ہوئی پراکرت کا رسم الخط دیوناگری تھا اسی پراکرت کی مختلف شکلیں سنسکرت سے ہوتے ہوئے پورے ہندوستان میں رائج ہوئیں،
سنسکرت کی معروف بولیوں میں سندھی، پنجابی، بنگالی اور تامل نے پورے ہندوستان کو اپنی لپیٹ میں لیا، یہ تمام بولیاں دیوناگری رسم الخط میں لکھی جاتی رہی ہیں چنانچہ پنجابی کیلئے دیوناگری ہی کے بطن سے پیدا شدہ رسم الخط گورمکھی اور شاہ مکھی خطوط بھی استعمال ہوتے رہے ہیں، یہاں پر میں ایک انتہائی اہم مسئلہ اْردو کے متعلق ضرور بیان کروں گا کہ اْردو یا ریختہ دراصل کوئی زبان نہیں ہے بلکہ ہندوستان میں سنسکرت بولنے والے اہلِ اسلام کا عربی کے رسم الخط میں سنسکرت لکھنے کے اسلوب کو اْردو کے نام سے موسوم کیا گیا، اْردو ایک جدید اصطلاح ہے جس کا استعمال انیسویں صدی کی ابتداء میں سننے میں آیا اس سے قبل اصطلاح اْردو سے خود بڑے سکہ بند ادیب اور انشاء پرداز ناواقف تھے چنانچہ مرزا اسد اللہ خان غالب اسے ریختہ کہا کرتے، بیسویں صدی کی ابتداء میں اسے اْردوئے معلیٰ بھی کہا جاتا رہا، اْردو چونکہ ایک رسم الخط تھا اس لئے اسے ابتداء میں عربی رسم الخط نسخ میں لکھا جاتا رہا بعد میں یہ ترقی کرکے اپنے ذاتی خطوط یعنی خطِ نستعلیق اور خطِ کشیدہ میں ڈھل گئی چنانچہ آج اْردو کے ان گنت خطوط پیدا ہو چکے ہیں مثلاً اْردو نسخ ایشیاء ٹائپ جو بی بی سی اْردو کا سرکاری خط ہے، نفیس ویب نسخ، نوری نستعلیق، جمیل نوری نستعلیق، علوی نستعلیق، القلم وغیرہ، بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں اْردو ادب کے ایک کہنہ مشق پروفیسر رہے ہیں کافی دیرینہ یارانہ رہا ہے اْن سے، ایک رات کال کرکے پوچھتے ہیں کہ حضرت میں تو آج کافی پریشان ہو گیا ہوں جب میں نے اپنے بیٹے سے یہ پوچھا کہ آج بیڈ منٹن کھیلنے باہر کیوں نہیں گئے تو وہ بولے کہ چھوڑیں بابا آج muggy weather ہے، بیٹے کا یہ جملہ سن کر میری اہلیہ مجھ سے مخاطب ہوئیں کہ یہ لڑکا کیا کہہ رہا ہے ویدر تو مطلب موسم یہ مگا کونسا موسم ہوتا ہے میں نے مسکرا کر تصحیح کی مگا نہیں مگی muggy مطلب اب وہ مجھ سے پوچھنے لگیں کہ اسے ہم اْردو زبان میں کیا کہتے ہیں، میں ایک منٹ کیلئے خاموش ہوا بولا کہ اْردو میں تو فی الحال نہیں معلوم البتہ سرائیکی میں اسے ہم گھِما کہہ سکتے ہیں بعد میں آنجناب مجھ سے پوچھنے لگے کہ آپ تو اْردو، فارسی، عربی، سنسکرت، پشتو اور انگریزی زبان جانتے ہیں انگریزی کی اس اصطلاح کیلئے ہم عربی فارسی کے علاوہ کوئی خالص اْردو کا لفظ استعمال کر سکتے ہیں اگر تو وہ موجود ہے، میں نے فوری قہقہہ لگا کر عرض کیا کہ پروفیسر صاحب آدھی زندگی اْردو پڑھاتے گزر گئی اور آپ اتنی معمولی تحقیق کی زحمت بھی نہ کر سکے کہ عربی فارسی اور سنسکرت کو اْردو میں سے نکال دیں تو پیچھے صرف ایک رسم الخط ہی باقی بچتا ہے پھر اسے آپ نستعلیق کہہ لیں یا نسخ، یہ واقعہ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کوئی بھی زبان جب تک فی نفسہ زبان نہیں ہے وہ کلام کیلئے کسی بھی دوسری زبان کی محتاج رہتی ہے پنجابی برصغیر کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے یہ ایک مکمل اور ہر لحاظ سے منظم زبان ہے لیکن اس کا تخم سنسکرت ہے جیسا کہ انگریزی زبان کا تخم لاطینی زبان ہے پنجابی سنسکرت کا ایک مقامی لہجہ ہے بالکل اسی طرح سرائیکی اور سندھی بھی سنسکرت ہی کے مختلف لہجے ہیں پس یہ بھائی، بہن، اماں، ابا، ماسا، ماسی یہ سب پنجابی اصطلاحات سنسکرت سے پنجابی میں انتہائی معمولی رد و بدل کے ساتھ در آئیں، اب لسانیات کے ضمن میں ایک انتہائی بنیادی نکتہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ کوئی بھی زبان بغیر کسی منظم تہذیب کے وقوع پذیر ہی نہیں ہو سکتی چنانچہ گوروں نے بہت کوشش کی کہ انگریزی برصغیر میں ایسے رائج ہو جائے جیسا کہ انگلینڈ میں تھی مگر ایلیٹ کلاس کے علاوہ یہ زبان آج بھی برصغیر کی سیکنڈری لینگویج ہے، بالکل یہی کوشش گوروں سے قبل مغل بھی فارسی کو برصغیر میں رائج کرنے کے ضمن میں کر چکے ہیں مگر آج چند چیدہ چیدہ اْدھیڑ عمر ہی فارسی زبان سے کماحقہ واقف ہیں، عربی، فارسی اور انگریزی تینوں مکمل زبانیں ہیں منظم تہازیب کی گود میں سر رکھے ہوئیں، مگر جب بات اْردو، ریختہ، ہندی یا برج بھاشا کی آتی ہے تو معاملہ خاصا گھمبیر ہو جاتا ہے کیونکہ یہ مذکورہ زبانیں نہیں بلکہ رسوم الخطوط ہیں، دنیا کی کسی بھی زبان کو آپ منظم تہذیب سے مفرور نہیں دیکھیں گے سوائے یتیم و مسکین اْردو کو جو سرے سے کسی تہذیب کی گود میں کبھی پنپ ہی نہ سکی پس یہی وجہ ہے کہ آج سالوں گزرنے کے بعد بھی اْردو ہماری قومی زبان نہ بن سکی، اشرافیہ کل بھی انگریزی کو ترجیح دیتے تھی اور آج بھی، غریب غرباء پنجابی، سندھی، پشتو، بلوچی اور سرائیکی پر ہی گزر بسر کر لیتے ہیں ایوانوں میں بھی کبھی انگریزی تو کبھی لولی لنگڑی اْردو بولی جاتی ہے، پس تہذیب اور زبان کے معاملے میں ہم آج بھی ایک زبردست کنفیوژن کا شکار ہیں، عربی پر توجہ دیں تو بدوؤں کے غلام، فارسی کو اوڑھنا چاہیں تو ایرانی ہونے کا طعنہ، انگریزی اپنائیں تو یہودی و نصاریٰ کے ایجنٹ، اْردو میں بات کریں تو مہاجر ہونے کا پیغور، سنسکرت میں تو بات کر ہی نہیں سکتے ورنہ معاملہ آخری درجے میں سنگین ہو جائے گا، لسانی عظمت اور تہذیبی شناخت سے یہ زبردست محرومی نہ معلوم کتنا عرصہ اور اس قوم کو جھیلنا پڑے گی، زبانوں کا تخم تہازیب ہوتی ہیں مگر ہم دنیا کی سب سے مضبوط گنگا جمنی تہذیب کو تیاگ کر ایک ایسے دوراہے پر آ کھڑے ہیں کہ جہاں عربی اور فارسی تہذیب کا ایک عجیب و غریب ملغوبہ بن چکے ہیں۔