تحقیق کا دوسرا مرحلہ:
دوسرے دن دوبارہ تحقیق کے لیے مجھے لے جایا گیا اور میری بائیو گرافی یعنی شناخت لی گئی۔ اس بار تحقیق کا طریقہ کار بالکل مختلف ہوگیا تھا اور تفتیش کاروں کا رویہ نرم اور دھمکی و تشدد سے خالی تھا لیکن ان کی باتیں گزشتہ کل کی باتوں سے مختلف نہ تھیں۔ تفتیش کار دروازے کے قریب ترجمان اور دروازے کے بیچ مسلح سکیورٹی کے اہلکار کھڑے تھے۔ ملا عمر اور اسامہ کے متعلق پوچھتے رہے اورمیز پر پڑے سرخ رنگ کے کاغذات پر لکھتے رہے سرخ رنگ کے کاغذ پر نوٹ کرنا میری سمجھ میں نہیں آیا۔ معمول کے مطابق کارروائی پہلے سرخ کاغذ پھر پیلے کاغذ اور آخری مرتبہ سفید کاغذ پرقلمبند کیا کرتے تھے۔اس کے بعد فوجیوں نے میرا سر ڈھانپا اور پرانی جگہ واپس لے گئے تفتیش کے لیے لانے اور لے جانے کا یہ اذیت ناک سلسلہ کافی دنوں تک جاری رہا۔
گوانتانا موبے کا جہنم،سابق افغان سفیر ملّا عبدالسلام ضعیف پر امریکی مظالم کی کہانی۔۔۔آٹھویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
آدھی رات کو چھاپہ:
قندھار کا قید خانہ نسبتاً آسان تھا اور سختی زیادہ نہ تھی ۔مثلاً ہر خیمے میں بیس قیدیوں کی گنجائش ہوا کرتی تھی اور ہم دس سے بیس افراد تک ایک خیمے میں رہتے تھے ۔ سردی کا موسم تھا۔دھوپ میں بیٹھنے کی اجازت ہوتی تھی اور آپس میں باتیں بھی کر سکتے تھے۔ نماز با جماعت پڑھتے تھے اور اس کی یہاں اجازت تھی البتہ تین آدمیوں سے زیادہ کو بات چیت کے لیے آزاد نہیں چھوڑتے تھے۔ ہم تین قیدی بیٹھ کر باتیں کر سکتے تھے اور جب تین سے زیادہ ایک جگہ جمع ہو جاتے تھے تو سخت سزا دیتے تھے ۔البتہ یہاں بھی روزانہ آدھی رات کو اچانک امریکی فوجی کتوں سمیت چھاپہ مارتے تھے اور جیل میں موجود تقریباً چھ سو قیدیوں کو سخت تکلیف سے دوچار کرتے تھے۔ گدھوں کی طرح چیختے تھے اور قیدیوں کو الٹا لٹا کر کتوں کو اوپر چھوڑتے تھے اور یہاں یہ روز کا معمول تھا ہر رات کو نیند خراب کر دی جاتی تھی۔
قندھار میں روٹی کا نظام:
یہاں کھانے کا فوجی نظام ہوا کرتا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا نے فوجیوں کے لیے ایمرجنسی اور مشکل حالات میں کھانوں کے مختلف ڈبے پیک کئے ہوئے تھے اور وہ اکثر اس وقت ایکسپائر(زائد المیعاد) ہو چکے ہوتے تھے۔ اس میں سبزی اور خنزیر کا گوشت بھی ہوا کرتا تھا۔ بہت سے بھائی تو انگلش نہیں سمجھتے تھے اس وجہ سے وہ کھا لیتے تھے ۔ انتہائی گندی خوراک تھی۔ جون کے مہینے میں اس خوراک کی نوعیت بدل گئی اور اس کے پیک ڈبوں پر کوشر لکھا ہوتا تھا جو مسلمانوں کے لیے یہودیوں کا ذبح ہوا کرتا ہے اور مسلمان اسے کھاتے بھی ہیں یا پھر اس پر حلال لکھا ہوتا تھا وہ تو خالص مسلمانوں کا ذبح ہوا کرتا ہے۔ا س کے بعد ایک افغانی روٹی کابھی اضافہ کیا گیا جس سے خوب سیر ہوتے تھے۔
کھانا تقسیم کرنے کا طریقہ کار:
کھانے کے وقت خیمے کے سامنے تعداد کے مناسب پیکٹ رکھے جاتے تھے پھر ایک فوجی قیدیوں کو لائن بنا کرایک پیکٹ خوراک اورایک بوتل پانی دیتا تھا۔ کھانا کھانے کا دورانیہ30منٹ کا ہوتا تھا زائدوقت پر سزا ملتی تھی۔ ایک ٹشو پیپر اور دو بالٹی پانی بیس قیدیوں کو دیتے اور خالی بالٹی دن میں تین مرتبہ ہر قیدی سے بھروا کر ٹینکی میں ڈالا جاتا تھا۔ اور وہ ٹینکی پھر بات روم کے لیئے استعمال ہوتی۔
ہر بیماری کے لیے ایک ہی گولی:
بہت سے ساتھی بیمار ہوگئے تھے اور علاج کے لیے ڈاکٹروں کی بجائے خواتین نرسیں آتی تھیں جن کے ساتھ صرف تھرما میٹر ہوتا تھا۔ یہ نرسیں علاج کے طریقے سے نا واقف تھیں ہر شخص کو ہر بیماری کے لیے ایک طرح کی دوائیں دیتی تھیں۔ قبض، نزلہ اور بخار کی بیماری بہت زیادہ تھی اور علاج کے لیے پانی کے کثرت استعمال کے لیے کہا جاتا تھا۔ یہ قید خانہ ہوائی ائیرپورٹ کے قریب تھا اور قندھار میں عموما گردوغبار حد سے زیادہ ہوتا ہے۔ خصوصاً جب ہوا چلتی توہمارا سارا کھانا مٹی بن جاتا تھا۔ بڑے بڑے ہیلی کاپٹرز کی لینڈنگ ہروقت رہتی تھی۔ اور خصوصاً راتوں کو تو ہیلی کاپٹروں کے شور کی وجہ سے نیند خراب ہو جاتی تھی اور پھر پورے دن سر میں درد رہتا تھا۔ فوجی بہت چیختے تھے اور راتوں کو ہمیں کنکریاں مار مار کر سونے نہیں دیتے تھے اور باتوں کی بجائے ہمیشہ گالی دیتے تھے اور اکثر یہ گالی بہت دیت تھے (Fuck you)جو اخلاقاً بڑی گالی ہے دن رات قیدیوں کی تین مرتبہ نمبردار حاضری پھر بعد میں دو مرتبہ ہوتی ہے اورہر ایک قیدی کو نام کے بجائے نمبر کے ذریعے پکارا جاتا تھا ۔میرا نمبر306تھا۔ وہ306بول کر میری حاضری لیتے تھے اورمیری رہائی تک میرا یہی 306نمبر تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
دو ہوش ربا قصے:
دو عجیب و غریب قصے ابھی تک میرے دل میں ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ ان کا ذکر بھی ضرور ہو وہ یہ کہ گنتی کرنے والوں کی اپنی شرائط تھیں۔ چند دنوں بعد حاضری لینے والا بدلتا رہتا اور دن رات کا حاضری لینے والا بھی الگ الگ ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ حاضری لینے والا فوجی آیا اور ترجمان کے ذریعے حکم دیا کہ جب بھی میں یہاں قریب ظاہر ہووں تو تم سب نے کھڑا ہونا ہے اور لائن میں کھڑا ہونا ہے اور مجھے سلامی دینی ہے ۔تم لوگوں کو خاموشی سے نظریں جھکا کر حاضری دینی ہوگی اور جب میں حاضری بولوں گا تو تم نے (Welcome)بول کر مجھے اپنا نمبر شمار بتانا ہوگا اور اس کے بعد پیچھے جا کر کھڑا ہونا ہوگا اور جب تک میں حکم نہیں دوں گا وہیں کھڑے رہو گے، خلاف ورزی پر مجھے غصہ آئے گا اور دنیا میں مجھ سے کوئی بدتر نہ ہوگا۔ میں یہ سوچتا رہا کہ اتنے کم رتبہ فوجی کی کیا ہمت جس نے کوئی نوکری نہ ملنے پر فوجی کا راستہ اختیار کیا کہ وہ ہزاروں مسلمانوں کی توہین کر رہا ہے اور قیدیوں کیساتھ تمام عالمی قوانین کو روند رہا ہے۔ ان امریکیوں کا ہر کم تر کم رینج والا فوجی بھی غرور و تکبر اور ظلم و جبر کا وحشی کارندہ ہے۔ لیکن غیرت مند ایماندار مسلمان قیدیوں نے ان کی یہ خواہش کبھی پوری نہ کی اور ہر طرح کی سزائیں برداشت کرتے رہے۔
(جاری ہے، اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)
نائن الیون کے بعد جب امریکی افواج نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر افغانستان پر حملہ کیا تو طالبان کی امن پسندقیادت کوبھی چن چن کر تحقیقات کے نام پر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا اور گوانتاناموبے کی بدنام زمانہ جیلوں میں انہیں جانوروں سے بدترزندگی گزارنے پر مجبور کیاگیا تاہم ان میں سے اکثر قیدی بے گناہ ثابت ہوئے ۔ملا عبدالسلام ضعیف افغان حکومت کے حاضر سفیر کے طور پر پاکستان میں تعینات تھے لیکن امریکہ نے اقوام متحدہ کے چارٹراور سفارت کے تمام آداب و اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے پاکستانی حکومت کو مجبور کرکیااور انکو گرفتارکرکے گوانتانہ موبے لے جاکر جس بیہیمانہ اور انسانیت سوز تشدد کوروا رکھا اسکو ملاّ ضعیف نے اپنی آپ بیتی میں رقم کرکے مہذب ملکوں کے منہ پر طمانچہ رسید کیاتھا ۔انکی یہ کہانی جہاں خونچکاں واقعات ، مشاہدات اور صبر آزما آزمائشوں پر مبنی ہے وہاں ملاّ صاحب کی یہ نوحہ کہانی انسانیت اورامریکہ کا دم بھرنے والے مفاد پرستوں کے لئے لمحہ فکریہ بھی ہے۔دورحاضر تاریخ میں کسی سفیر کے ساتھ روا رکھا جانے والا یہ حیوانی سلوک اقوام متحدہ کا شرمناک چہرہ بھی بے نقاب کرتا ہے۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں چھپنے والی تحاریر سے ادارے کا متفق ہوناضروری نہیں ۔