جناتی، جنات کے رازداں اور دوست کے قلم سے۔..قسط نمبر46

Feb 02, 2019 | 03:06 PM

شاہد نذیر چودھری

حافظ موسیٰ خان کے بارے میں اس وقت تک میں بہت تفصیل سے نہیں جانتا تھا کہ دراصل اسکا پس منظر کیا ہے ۔وہ بڑے مضبوط کردار اور ارادے کا مالک تھا ۔جس بات کی ٹھان لیتا اور سمجھتا کہ حق پر ہے تو اس پر ڈٹ جاتا تھا ۔بہرحال تھا تو وہ ایک نوجوان ہی ،لغزش تو وہ کھا ہی سکتا تھا ۔
قبر کے پاس بیٹھ کر میں اس پہلوپر غور کرنا چاہتا تھا ۔میں اندر سے بے قرار تو تھا کہ فوری طور پر کوئی شیطانی حربہ استعمال کرکے حافظ موسیٰ خان کا علاج کردوں تاکہ آئیندہ وہ ہماری راہ میں آنے سے توبہ کرلے ۔اس کے لئے کئی طرح کے خیالا ت ذہن میں آئے ۔میں نے سوچا کہ اپنے موکل سے بھی اس کا مشورہ کرلینا چاہئے کہ اسکو کس طرح سے راہ سے ہٹایا جائے ۔موکل نے بتایا کہ اسکو کسی میٹھی چیزپر مسان چھڑک کر کھلا دینا چاہئے ۔یہ آسان کام تھا ،کنٹین میں روزانہ ایسے مواقع پیدا ہوتے رہتے تھے ۔اگلے روز میں نے موکل سے ایک مسان منگوایا ۔یہ ایک کوڑھ زدہ بوڑھے کا مسان تھا ۔اس بات کا تصور کرکے ہی میں دل میں خوش ہوگیا کہ اب حافظ موسیٰ خان کو میں اپنی نظروں کے سامنے سسکتا ہوا مرتا دیکھوں گا ۔وہ خود بھی اپنی موت کا عبرتناک منظر دیکھے۔

جناتی، جنات کے رازداں اور دوست کے قلم سے۔..قسط نمبر45 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اگلے دن کنٹین میں اپنے دوستوں کے ساتھ چائے سموسے کھاتے ہوئے معلوم کیا کہ حافظ موسیٰ خان کس وقت عام طور پر کنٹین پر آیا کرتا ہے ۔وہ نماز عصر اور نماز مغرب کے درمیان ہی آتا تھا ۔لیکن اس دن وہ نہیں آیا ۔مجھے بڑا طیش آیا کہ وہ کیوں نہیں آیا ۔میں نے موکلان کو بھیج کر اسکی جاسوسی کرائی تو معلوم ہوا وہ مدرسہ میں اپنے استاد کے پاس گیا ہوا تھا ۔ظاہر ہے وہ اس ٹھوہ میں لگ گیا تھا اور اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ نوری علم کی مدد کے بغیر وہ ہماری کالی دنیا کے رابطوں کو ختم نہیں کر پائے گا ۔اس لئے وہ اپنے استاد کے پاس جا کر یقینی طور پر مزید رہ نمائی لے رہا تھا ۔یہ بہت بڑا خطرہ تھا ۔میں اسکا زیادہ انتظار نہیں کرسکتا تھا ۔ وہ شام کو واپس آیا تو ایک اور خیال نے مجھے بھڑکا دیا اور میں چونک اٹھا ’’رات کو تو وہ میس میں کھانا کھانے آئے گا‘‘ میں نے فوری طور پر میس کا جائزہ لیااور ایک بیرے کو اپنے حصار میں لیکر اسکو اپنا معمول بنانے کا فیصلہ کرلیا ۔
شیطان کی دنیا میں بہت سے اوچھے ہتھکنڈے استعمال ہوتے ہیں شاہد بھائی ۔ایسے لوگ بھی عام مل جاتے ہیں جو اپنی آسودگی کے لئے غلط کاموں پر آمادہ رہتے ہیں ۔ان میں سے جو وہموں میں پڑتے ہیں وہ کافی کمزور دماغ اور دل کے مالک ہوتے ہیں ۔ اس رات میس میں کھانے میں کھیر بھی شامل تھی ۔ حافظ موسیٰ خان جب کھانا کھانے آیا تو بعد میں اسے میٹھی کھیر بھی کھانے کو د ی گئی ۔اس کھیر میں پہلے ہی میں نے مسان شامل کردیا تھا ۔اتنا کام میں نے خود کیا تھا باقی کا کام میرے موکل نے کیا تھا ۔جب بیرا مسان والی کھیر لیکر ہال میں گیا تو موکل نے اسکو وہی پیالی حافظ موسیٰ خان تک پہنچانے کے لئے اسکے ذہن پر قبضہ کرلیا تھا ۔میں کن اکھیوں سے دیکھتا رہا ۔کھیر حافظ موسیٰ خان نے اطمینان سے کھالی اور بعد میں اس نے دونوں ہاتھ اٹھا کر رب کریم سے دعا بھی کی کہ جس نے اسکو عمدہ کھانا کھانے کی توفیق عطا کی ہے ۔میں دل ہی دل میں ہنس پڑا ۔میں تو ایک فاسق تھا ۔مجھے کسی کے کسی نیک کام اور اسکی دعا سے کیا غرض تھی ۔ 
میں مطمئین ہوگیا تھا کہ اب چند دنوں میں حافظ موسیٰ خان شیطانی بیماریوں میں مبتلا ہوجائے گا ۔ مسان کا وار بڑا گہرا ہوتا ہے اور بندہ اسکا علاج کرتے کرتے ہی اس سے نکل پاتا ہے ۔لیکن وقت گزر جائے تو صرف موت ہی اسکا علاج ہے ۔اگلے دو دن تک بھی ہمارے پیپر خراب ہوئے ۔دوست ساتھی سٹپٹا گئے تھے ۔میں نے انکو آنکھیں دکھا کر مطمئن کیا ۔اس دوران میں اسکا مشاہدہ کرتا رہا کہ حافظ موسیٰ خان کے انداز و اطوار کیسے ہیں ،مسان کو اگلے دن سے اثر شروع کردینا چاہیے تھا ،میرے موکل بھی اسکی خبر لانے کے لئے متحرک تھے ۔اگلے دن نماز مغرب کا وقت تھا جب ہاسٹل میں کھلبلی مچ گئی ۔موکل نے مجھے فوری بتادیا تھا کہ حافظ موسیٰ خان کی طبیعت خراب ہوگئی ہے ۔وہ الٹیاں کررہا ہے ۔اور اختر علوی نے ایمبولینس منگوا لی ہے ۔وہ اسکو ہسپتال لے گئے تھے ۔یہ تو میں ہی جانتا تھا کہ اس مرض کا علاج کسی ڈاکٹر کے پاس نہیں ہے۔میں بڑا مطمئن تھا ۔اس لئے دوستوں کے ساتھ کنٹین میں بیٹھ کر سموسے اور سگریٹ سے دل بہلاتا رہا ۔مجھے یقین تھا کہ میرا یہ وار ضائع نہیں جائے گا ۔وہ رات میں نے فُل عیاشی میں گزاری تھی ۔شیطان کو راضی کرنے کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ۔
پیپر ختم ہوگئے تھے ۔اگلے دن میں ڈپارٹمنٹ نہیں گیا اور دوپہر تک سویا پڑا رہا ۔آنکھ کھلی تو کسلمندی کا غلبہ تھا اس لئے بستر میں ہی دبکا رہا ۔کچھ پہر بعد موکلان سے حافظ موسیٰ خان کی خبر لی تو ان کی بات سن کر میں چونک اٹھا ۔سمجھ لیں کہ مجھے چارسو چالیس وولٹ کا جھٹکا لگا تھا ۔
’’ یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟‘‘ میں موکلان پر برس پڑا ۔
’’ آقا ہم کیا کرسکتے تھے ،حافظ موسیٰ خان نے اختر علوی کو اپنے استاد کو بلانے کے لئے بھیج دیا تھا ۔وہ رات کو ہسپتال آئے اور انہوں نے پانی پر دم کرکے اسکو پلایا تو کچھ دیر بعد حافظ موسیٰ خان نے الٹیاں شروع کردیں ۔ڈاکٹروں نے پریشان ہوکر انہیں باہر نکالنا چاہا تو انہوں نے ڈاکٹروں کو آنکھیں دکھائیں اور کہا ’’ تم لوگ اپنا علاج کرو،مجھے اپنا علاج کرنے دو،میرے شاگرد کو زہریلا مسان دیا گیا ہے اور تم کیا جانو یہ مسان کیا ہوتا ہے۔ تم جسموں کے ڈاکٹر ہو اور میں روح کا ڈاکٹر ہوں ،تم مشینوں کی مدد سے دیکھتے ہو اور پھر بھی نہیں جان پاتے کہ جسم میں کونسا مرض ہے مگر اللہ نے اس بندے کو جو روحانی بصیرت عطا فرمائی ہے ،اللہ کے حکم اور توفیق سے یہ بندہ اسی انسان کی اصلی بیماری کو پہچان لیتا ہے ۔کیا تم قرآن کی فضیلت نہیں جانتے ،کیا تمہیں نہیں معلوم ہے کہ قرآن مجید میں شفاہے ۔میں نے اس پر اللہ کا کلام پڑھ کر دم کیا ہے اوراللہ کے پاک کلام کی برکت سے حافظ موسیٰ خان کو جو شیطانی زہر کھلایا گیا وہ اسکے معدہ نے اگل دیا ہے ۔تم خود دیکھ لو اس مواد کو اپنی مشینوں میں لگا کر ،ٹیسٹ کرلو،تمہیں علم ہوجائے گا کہ اس گندگی میں کونسا زہر شامل تھا ۔‘‘ 
ڈاکٹر ان کی باتیں سن کر عاجز آگئے ۔کچھ دیر بعد حافظ موسیٰ خان کو ہوش بھی آگیا اور ڈاکٹروں نے اس کے ٹیسٹ وغیرہ اور کچھ دوائیں دیکر اسکو ہاسٹل واپس بھیج دیا ہے ۔وہ نماز فجر پڑھنے مسجد میں بھی گیا تھا ۔ہم نے سنا ہے کہ اختر علوی اپنے ساتھیوں سے کہہ رہا تھا حافظ موسیٰ خان کے استاد نے بتایا ہے کہ اس پر کسی نے جادو کرکے مسان کھلایا ہے ۔اس نے اپنا شک ظاہر نہیں کیا کہ یہ کون ہوسکتا ہے لیکن اسکے استاد کا کہنا ہے کہ بہت جلد وہ اس عمل کرنے والے تک پہنچ جائے گا ۔
موکلان کی یہ باتیں کسی بم دھماکے سے کم نہیں تھیں ۔میں ساری رات نشاط میں ڈوبا رہا اور اپنی ادھوری فتح کا جشن مناتا رہا تھا مگر دوسری جانب حافظ موسیٰ خان زندگی کی جانب واپس لوٹ آیا تھا ۔میں اب کسی خوش گمانی میں نہیں رہنا چاہتا تھا ۔میں نے دوستوں کو کمرے میں بلایا اور پھر باتوں ہی باتوں میں کہہ دیا کہ سنا ہے حافظ موسیٰ خان نے رات کو شراب پی تھی جس سے اسکا دماغ الٹ گیا تھا ۔میں نے دوستوں کو یہ بات ہاسٹل میں بھی مشہور کرنے کی ہدایت کردی اور شراب کی ایک خالی بوتل جو میرے ہی کمرے موجود تھی ،وہ سویپر کی مدد سے حافظ موسیٰ خان کے بیڈ کے نیچے پہنچا دی ۔
رات میس کے کھلنے تک یہ بات ایک ہاسٹل سے نکل کر دوسرے ہاسٹل تک پہنچ گئی کہ حافظ موسیٰ خان نے دراصل شراب پی تھی ۔کسی کو اس پر یقین نہیں تھا ۔وارڈن کو جب یہ علم ہوا تو وہ بھی پریشان ہوا کہ یہ کیسے ممکن ہے ۔وہ حافظ موسیٰ خان کے کمرے میں گیا ،اسکی خیریت معلوم کی اور پھر اس نے حافظ موسیٰ خان کے کمرے کی تلاشی لی تو بیڈ کے نیچے سے شراب کی خالی بوتل بھی مل گئی ۔
وہ کام جو مسان نہ کرسکا تھا ،شراب کی خالی بوتل نے کردیا ۔وارڈن اس پر سخت ایکشن لینا چاہتا تھا لیکن حافظ موسیٰ خان اور اسکے دوستوں نے وارڈن کو یہ یقین کرانے کی کوشش کی کہ یہ حافظ موسیٰ خان کے خلاف سازش ہوسکتی ہے ۔اتفاق یہ بھی ہوا کہ چند دن پہلے ہی کہیں حافظ موسیٰ خان کو طلبا یونین کی جانب سے انتخاب لڑنے پر آمادہ کیا گیا تھا ،اس بات کا مجھے علم نہیں تھا ،یونین کے چند لیڈروں کو یہ علم تھا اور ابھی اس بات کو عام نہیں کیا گیا ۔وارڈن نے ان کی بات سن کر کہا ’’ اسکا بہتر علاج یہی ہے کہ رات کو اسکا جو میڈیکل ٹیسٹ ہوا ہے ،اسکو دیکھ لیا جائے ۔اس سے معلوم ہوجائے گا کہ اس نے شراب پی تھی یا نہیں ‘‘ اب مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں تھاکہ ٹیسٹ کا رزلٹ کیا نکلتا ہے۔میں یہ بات واضح کردوں کہ اختر علوی کے بعد میں اب کسی اپنے پرستار پر بھروسہ نہیں کرسکتا تھا کہ میں اسکو یہ بتاتا میں کیا کررہا ہوں۔اپنے راز کی حفاظت کرکے ہی بچا جاسکتا تھا ۔
میڈیکل ٹیسٹ میں کیا نظر آیا ،کیا نہیں آیا مگر اس شراب کا الزام ایسا فتنہ گر ثابت ہوا کہ طالب علم ایک دوسرے سے کہتے پھرتے’’ یار بڑا گھنا بندہ ہے حافظ بھی ۔اندر سے وہ بھی منکر ہی نکلا ‘‘
کوئی کہتا ’’ ہمیں تو نصیحتیں کرتا پھرتا ہے اور خود عیاشی پوری کرتا ہے ۔اس لئے کہتے ہیں کہ جوانی میں پاپ کرلو پھر کہاں موقع ملے گا ‘‘ہاسٹلز میں حافظ موسیٰ خان کی خوب بدنامی ہوئی ۔ڈپارٹمنٹ تک بھی اسکا چرچا عام ہوگیا ۔یہ کون سا مشکل کام تھا ۔واش روموں کی دیواریں بنی اسی لئے ہوتی ہیں۔ ان پر لکھ ڈالا گیا اور چرچا عام ہوگیا ۔لوگ عام کہتے پھرتے کہ حافظ موسیٰ خان تو منافق نکلا ۔میں نے چند دن اسکو مغموم اور رنجیدہ دیکھا لیکن پھر اس میں وہی تازگی نظر آنے لگی ۔دین کی تعلیم کا یہ بڑا فائدہ ہوتا ہے کہ انسان روحانی طور پر مضبوط ہوجاتا ہے ۔حافظ موسیٰ خان کے کردار پر کیچڑ خوب اچھلا ،لڑکیاں خاص طور پر اب اس سے گریزاں رہنے لگی تھی ۔مگر اس نے اپنے اطوار سے اپنے کردار کومضبوط ہی ثابت کرنے کی پوری کوشش کی ،مگر کہاں تک۔شیطان کو کہاں قرار کہ کوئی صاحب ایمان کامل ہوجائے۔ 
طلبہ یونین کے الیکشن سر آگئے تھے ۔یونین چاہتی تھی کہ حافظ موسیٰ خان الیکشن لڑے مگر اسکی کردار کشی نے اسکی شخصیت کو بڑا متاثر کیا تھا ۔اسکا علاج انہوں نے یہ کیا کہ پہلے اختر علوی کو حافظ موسیٰ خان کے کمرے سے نکال دیا اور مشہور کردیا گیا کہ دراصل شراب وغیرہ اس نے پی تھی ۔حافظ موسیٰ خان نے حیرت انگیز طور پر اس پرخاموشی اختیار کرلی اور اختر علوی سے تعلق توڑ لیا ۔پھر وہ ہاسٹلوں میں جاتا اور نماز عشا کے بعد قسماً حلفاً لوگوں کو یقین دلواتا رہا کہ اس نے آج تک کوئی ایسی حرکت نہیں کی جو گناہ کبیرہ و صغیرہ میں شامل ہو ۔شراب اور لڑکی سے تو وہ دور بھاگتا ہے ۔وہ لوگ جو طلبا کو اسلام سے دور کرنا چاہتے ہیں ،وہ اسکے خلاف ہیں ۔میری اس ایک سازش کے نتیجے میں خرافات اور الزامات کا ایسا باب کھل گیا جس کا میں تصور بھی نہیں کرتا تھا ۔حافظ موسیٰ خان اور اسکی یونین نے دوسرے ہاسٹلز میں مقیم ملحدانہ عقائید رکھنے والے طالب علموں کو اپنا ٹارگٹ بنالیا ۔وہ بھی کافی نڈر لوگ تھے اور مذہب پرستوں کے خلاف تھے ۔وہ میرے جیسے تو نہیں تھے مگر شراب اور آزاد خیالی کے ساتھ بڑی بڑی فکری باتیں کرتے تھے ۔
دیکھتے ہی دیکھتے حافظ موسیٰ خان کے گروپ اور ان ملحدوں کے درمیان باقاعدہ مناظرے اور لڑائیاں ہونے لگیں ۔یہی شیطان کا وہ ہتھ کنڈہ ہے جو ایک گناہ کی تحریک دیتا ہے اور پھر اسکا سلسلہ چل نکلتا ہے ۔شیطان تو پھر ایک جانب بیٹھ جاتا ہے باقی کام انسان خود ہی کرتا چلا جاتا ہے اور شیطان کے کھاتے میں سب ڈالتا چلا جاتا ہے ۔
مجھے اب حافظ موسیٰ خان کے خلاف کوئی جادوئی عمل کرنے کی ضرورت نہیں تھی لیکن مجھے اس سے شدید نفرت ہوگئی تھی ۔میں نے اسکے دشمنوں کادائرہ بڑھا دیا تھا ۔یہ الیکشن سے چند دن پہلے کی بات ہے ،میں نے اپنی ایک کلاس فیلو جو مجھ پر جان چھڑکتی تھی اسکو اپنا ہم خیال بنایا اور حافظ موسیٰ خان کے خلاف اوچھی ترین سکیم بناڈالی ۔میں نے اسکا نام انجلی رکھا ہوا تھا ۔ وہ غیر مسلم تھی ۔میری اسکیم سمجھ کر وہ اس دن کلاس میں جان بوجھ کر حافظ موسیٰ خان کی سیٹ کے پاس بیٹھ گئی اور بڑی شائستگی اور نرمی سے اس سے سلام لی اور اسکی خیریت معلوم کی ۔کلاس فیلو ہونے کے ناطے اس میں کوئی عجیب بات نہیں تھی ۔ حافظ موسیٰ خان کے ساتھ والی سیٹ پر پہلے لڑکیاں بھی بیٹھ جایا کرتی تھیں لیکن شراب والے واقعے کے بعد وہ اسے دور ہی رہتیں اور بات چیت بھی نہ ہونے کے برابر کرتیں ۔حافظ موسیٰ خان نے اس دن حیران ہوکر انجلی کو دیکھا لیکن پھر اسکا شکریہ ادا کرکے لیکچرر سننے میں لگ گیا ۔ انجلی میں مردوں کو لبھانے کی قدرتی مہک پائی جاتی تھی ۔نسوانی وقار کی تمکنت اور دلفریبی کا پہلا حملہ ہی کارگر رہا ۔لیکچر کے بعد انجلی نے حافظ موسیٰ خان کو انگیج کرلیا اور اس روز کے لیکچر کے حوالے سے جان بوجھ کر اس سے ایسے سوال پوچھنے لگی کہ دراصل آج ٹیچر نے جو لیکچر دیا ہے اس کو مزید سٹڈی کرنے کے لئے کون سی کتابیں پڑھنی چاہئیں۔حافظ موسیٰ خان اسکو بتانے میں لگ گیا اور خلاف معمول دوسرے لیکچر کے بعد بھی وہ انجلی سے مختلف ٹاپک پر بات کرتا رہا ۔یہ لمحے ان دونوں کو ایک دوسرے کے بہت قریب لاسکتے تھے اور یہی میں چاہتا تھا ۔
جوان دلفریب لڑکی کی گفتگو میں جو سحر موجود ہوتا ہے وہ کسی عامل کے جادو میں نہیں ہوتا ۔عورت تو خود بنگال کا جادو ہے۔نوجوان مرد اس وقت کسی تعویذ دھاگے کا بھی خیال نہیں کرتا ،نہ اسکو کسی روحانی سہارے کی طلب رہتی ہے ۔بڑے بڑے عالم فاضل اور نیکو کار حسن کی مے پینے پر مجبور ہوجاتے ہیں ،حافظ موسیٰ خان کیا چیزتھی۔شراب وہ پی نہ سکا اور بدنام ہوگیا تھا ،شباب پی کر وہ کیسے اپنی پاکیزگی کی قسمیں کھا سکتا تھا ۔ (جاری ہے ) 

مزیدخبریں