جناتی، جنات کے رازداں اور دوست کے قلم سے۔..قسط نمبر45
یہ میرے لئے بڑا چیلنج تھا کہ میں اس بات کی تہہ تک پہنچوں کہ میرے کئے کرائے پر پانی کیسے پھر گیا ۔مجھے یہ بات سمجھنے میں ذرا دیر نہیں لگی کہ اس کے پیچھے کوئی اور شخص موجود ہے جس نے میرے موکلوں کو ناکارہ بنادیا اور انہیں طالب علم دوستوں کو پرشہ کرانے میں مدد فراہم نہیں کی ۔یہ کون ہوسکتا تھا ۔آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اگر ایسا کسی ایک بندے کے ساتھ ہوتا تو اسکو اتفاق کہا جاسکتا تھالیکن یہ تو سبھی ناکام ہوئے تھے اور انہیں منصوبے کے تحت ہی ایک ہال میں بیٹھایا گیا تھا ۔
میں اسی سوچ بچار میں پریشان تھا لیکن میں نے اپنے اوپر ضبط کئے رکھا ۔میں آج اگر ناکام ہوجاتا تو یونیورسٹی میں میری جے جے کار ختم ہوجاتی ۔اس پر میں کوئی فساد بھی برپا نہیں کرسکتا ۔مجھے بڑے ہوش اور حوصلے کے ساتھ اس کے پیچھے کارفرما ہاتھ تک پہنچنا تھا ۔
جناتی، جنات کے رازداں اور دوست کے قلم سے۔..قسط نمبر44 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’ اب کیا ہوگا ہمارا ،ہم نے تو ایک لفظ بھی نہیں پڑھا ۔پیپر بڑا مشکل ہوگا ‘‘ دوست اپنی پریشانیاں بیان کرنے لگے ۔ وہ میری مجلس اور صحبت میں رہ رہ کر اسقدر لاپرواہ اور نالائق ہوچکے تھے کہ امید تھی کہ اگردوسرے پیپر میں بھی انکے ساتھ یہی کچھ ہوا تو وہ مارے جائیں گے ۔فیل ہونے پر ظاہرہے ان پر بڑا دباوآتا ۔
’’ استاد آپ کا پرچہ کیسا ہوا ہے ؟‘‘ ایک دوست نے بڑے معنی خیز انداز میں پوچھا ۔میرا پرچہ تو ٹھیک ہوا تھا ،اس لئے میں نے صاف صاف بتادیا ’’ میرا تو پرچہ ٹھیک ہوا ہے ۔لیکن تم لوگوں کے ساتھ کیا ہوا ہے ،یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی‘‘
’’ ایسا تو نہیں کہ ہم کو جو پڑھنے کے لئے عمل دیا تھا ،اسکو ہم نے الٹ پڑھ دیا ہوا ‘‘ ان میں سے دوسرا بولا۔
’’ذرا سناو تو کیا پڑھا تھا ‘‘ اچانک میرے ذہن میں انہیں مطمئن کرنے کے لئے خیال کوندا ۔
انہوں نے کالے علم کا جو عمل سنایا ،وہ تھا تو درست لیکن میں نے مین میخ نکالتے ہوئے کہا ’’ یار تم نے کیا کردیا ،اسکو یوں نہیں پڑھنا تھا ۔میں بھی کہوں کہ گڑ بڑ کیسی ہوگئی ،اسکو اس ترتیب سے پڑھنا تھا ‘‘ میں نے انہیں ذرا سی ترتیب بدل کر وہی عمل دوبارہ سکھایا ’’ اب دھیان رکھنا ،بار بار غلط پڑھو گے تو ظاہر ہے تم لوگوں کو روحانی مدد نہیں پہنچے گی ‘‘ میں نے پیپر میں ناکامی کا الزام ان کے سر پہ ہی تھوپ دیا لیکن میں جانتا تھا کہ ایسا کچھ نہیں ہوا ۔میرے موکلوں کو کسی اور نے نوری علم کی مدد سے شکست دیکر ان دوستوں تک پہنچنے نہیں دیا تھا ۔
دوستوں کو ان کی ہی ندامت میں پھنسا کر میں ہاسٹل آیا اور پھر رات عشا کے بعد میں نے کسی قریبی قبرستان میں جانے کا فیصلہ کرلیا ۔میں چاہتا تھا کہ چوکی لگا کر میں اس ساری صورت حال کا اندازہ لگاوں جس کامجھے اب اندیشہ ہورہا تھا ۔رات گئے میں قریب ہی واقعہ ایک قبرستان میں گیا اور کچی اور کھدی ہوئی خراب قبر کے پاس بیٹھ کر میں نے اپنے موکلان کو بلایا ۔یہ وہی تھے جن کی آج امتحانی پرچہ میں ڈیوٹی لگائی تھی ۔وہ سب وہی جواز پیش کررہے تھے جس کا وہ پہلے بتاچکے تھے ۔اس رات مجھے گنگو کی یاد آئی ۔کئی سالوں سے وہ مجھ سے جدا ہوگیا تھا ۔حیرت ہے کہ مجھے اس بات کا خیال کیوں نہیں آیا ۔مجھے حافظ عبداللہ بھی یاد آیا کہ اگر وہ وفا کرتا تو آج دوستی کے نام پر میں اس سے مدد حاصل کرلیتا۔میں نے خود کو بڑا لاچار سمجھا ۔کافی دیر تک غور کیا ۔مجھے احساس ہوا کہ کالا علم آخر ایک باطلانہ علم ہے جو بالاخر بری طرح ناکام ہوجاتا ہے ۔یہ دینی تعلیم کا اثر تھا جو میں نے حاصل کی تھی ۔میں اگرچہ اب پھر سے شیطانی علم کی دلدل میں اتر چکا تھا لیکن اب ضمیر بھی ساتھ ساتھ ملامت کرنے لگا تھا ۔سوچا کہ کیا مجھے کالے علم کو چھوڑ دینا چاہئے اور نوری علم سیکھ لینا چاہئے جو سب سے سے طاقتور ہے اور اس میں انسان گناہ سے بھی بچ جاتا ہے ۔لیکن میرے اندر عصبیت اور نفرت کا الاو اسقدر بڑھکتا تھا کہ واپس پلٹ کر پھر سے نئی زندگی شروع کرنا مشکل دکھائی دیتا تھا ۔دوستوں کی نظروں میں اپنا وقار اور احترام نہیں کھونا چاہتا تھا ۔بہت سے لوگ میرے گرویدہ تھے اس لئے میں اب پلٹ نہیں سکتا تھا ۔مجھے ہر صورت کامیاب ہونا تھا ۔مگر کیسے ؟ اچانک مایوسی کے اندھیرے میں شیطان نے تیر چلایا ’’ تو اپنے دوستوں کو چیک کیوں نہیں کرتا،ہوسکتا ہے ان سے کوئی ایسی غلطی ہوئی ہو جس نے تمہیں ناکامی سے دوچار کردیا ہے ‘‘ اس خیال کا آنا تھا کہ میرے اندر دوران خون تیز ہوگیا اور کانوں کی لوئیں سلگنے لگیں ’’ ہاں مجھے یہی کرنا چاہئے ‘‘ میں نے اپنے موکلان کو طلب کیا اور انہیں اپنے دوستوں کے حالات جاننے کے لئے بھیج دیا ۔
آدھ گھنٹہ بعد مجھے معلومات حاصل ہوگئیں۔آخر ایک موکل نے انکشاف کردیا کہ میرا ایک دوست حافظ موسیٰ کے ساتھ مسجد میں گیا ہے ۔یہ اختر علوی تھا۔میرا سب سے تابعداردوست ،گندی ترین خصلت کا مالک تھا ۔نماز روزے سے دور بھاگتا تھا ۔میں نے موکل سے کہا ’’ تم واپس جاو اور مسجد کے باہر بیٹھ کر اس کا انتظار کرو اور دیکھو وہ کب مسجد سے باہر آتا ہے ۔اور پھر تم کوشش کرکے ان کی باتیں بھی سنو‘‘ ایک گھنٹے بعد موکل واپس آیا تو وہ بری طرح ہانپ رہا تھا۔اسکی حالت غیر تھی ۔
’’کیا بات ہے ؟‘‘ میرے پوچھنے پر وہ روہانسا ہوگیا ’’ ابھی اختر اسی حافظ موسیٰ کے ساتھ واپس آیا ہے ۔میں نے جب ان دونوں کے پاس جانے کی کوشش کی تو اچانک مجھ پر جیسے کسی نے آگ کا گولا پھینک دیا ہو۔میں بڑی مشکل سے بچ کر آپ تک پہنچا ہوں سرکار ‘‘ موکل کی بات سن کر میرے سامنے کئی گتھیاں کھل کر آگئیں۔ (جاری ہے )
جناتی، جنات کے رازداں اور دوست کے قلم سے۔..قسط نمبر46 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں