جناتی، جنات کے رازداں اور دوست کے قلم سے۔..قسط نمبر44
ابلیس انسان کے اندر بھی رہتاہے اورباہر بھی ۔اسے اپنے ساتھ رکھنے میں انسان کا اپنا دوش بھی ہوتا ہے ۔ہم اپنی ساری برائیاں شیطان کے کھاتے میں ڈال دیتے اور پھر کہتے ہیں کہ ہم تو بہک گئے ۔میں آج تک نہیں سمجھ پایا کہ انسان اگر شیطان کے آگے اتنا بے بس ہے تو پھر اسے اشرف المخلوق کیوں کہا جاتا ہے ۔یہ تو اللہ کی احسن ترین تخلیق ہے ۔یہی حق بات ہے ۔تو پھر ہم یہ کیوں نہیں سمجھ پاتے کہ ہم خود شیطان کو اپنا ولی بناتے ہیں ۔ہمارے اندر ہوس پیدا ہوتی ہے تو شیطان تخریب کے راستے دکھاتا ہے ،انسان چاہے کہ وہ اچھا ہی بنا رہے تو شیطان اسکو بڑی مشکل سے اپنے راستے پر ڈال پاتا ہے ورنہ جو اپنے نفس پر قابو پانا سیکھ لیتا ہے وہ اپنے اندر کی جبلت کی وجہ سے تو گمراہ ہوتا ہے ،شیطان کے ہاتھوں لاچار نہیں ہوتا ۔انسان عقلی طور پر شیطان سے زیادہ طاقتور ہے ۔یہ بات تو شیطان کا پجاری میرا پتا گرو بھی کہا کرتا تھا ” ببر پتر اصل طاقت ہم ہیں ،کوئی شکتی انسان سے مہان نہیں ہوسکتی ،مگر علم کے وچار ایسے ہیں کہ اسے ان شکتیوں کے ساتھ مل کر گرگیان پانا پڑتا ہے “
میں نوجوان تھا ۔اس لئے علم تو سیکھ گیا مگر کبھی اس کے فلسفہ میں پڑ کر اپنے دماغ کو الجھنوں میں نہیں ڈالتا تھا ،سکیمیں نہیں لڑاتا تھا ۔جو ٹھان لی ،اسکو اپنی خفیہ پراسرار طاقت سے ہتھیا لیا اور پالیا ۔میں امتحانوں میں پرچے بھی اپنے موکلوں کی مدد سے کرتا تھا ۔اپنے دوستوں کو جھوٹ موٹ کے منتر بتاتا کہ وہ یہ پڑھیں گے تو ان کے پرچے اچھے ہوجائیں گے ،پھر میں اپنے موکلوں کی مدد سے ان کو بوٹی لگواتا تھا ۔اسطرح دوست مجھے گیانی بابا بھی کہتے تھے ۔
جناتی، جنات کے رازداں اور دوست کے قلم سے۔..قسط نمبر 43
ایک بار میں نے اپنے دوست کو پرائز بانڈ کا نمبر دیا کہ وہ اس نمبرکا پرائز بانڈ خرید لے تو اسکا نمبر لگ جائے گا ۔یہ نوجوان غریب تھا اور اپنی فیس ادا نہیں کرسکتا تھا ۔وہ ہیر بڑی خوبصورت گاتا تھا۔میں اس سے ہیر سنا کرتا تھا اس لئے اسکی مدد کرنے پر راضی ہوا تھا ۔ویسے بھی اسکی کہانی بڑی دردناک تھی۔یہ پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ مجھے کسی پر رحم آیا تھا اور میں نے اپنے کالے علم کی مدد سے اسکی مدد کی ،اسکا پرائز نمبر دوسرے نمبر پر لگ گیا اور اسکی سال بھر کی فیسیں اور یونیورسٹی کے خرچے پورے ہوگئے ۔تاہم میں نے اسے سختی سے منع کردیا کہ اسکا پرچار نہیں کرے گا ۔
اس جیسے میرے کئی نوجوان تابعدار بن گئے تھے ۔کئی لڑکیاں بھی اب میرے پیچھے پیچھے تھیں ۔انہیں معلوم ہوگیا تھا کہ اگر میں کسی کو کوئی تعویذ دے دوں یا عمل بتادوں تو اسکے امتحانات میں لاٹری نکل آتی ہے ۔اب کیا بتاوں کہ شرم آتی ہے اپنے کرتوتوں کا بھید کھولتے ہوئے ۔میں جنسی طور پر بڑا حریص تھا ،اس لئے زیادہ تر لڑ کیاں میرے دام میں آجاتیں۔ان کے کام بن جاتے اور میں بھی راضی رہتا ۔صرف ایک بار ایسا ہوا کہ ایک حافظ قرآن کلاس فیلو موسٰی خان سے میرا پھڈا پڑ گیا ۔وہ بڑا محنتی تھا اور یونیورسٹی کی طلبہ یونین میں بھی کافی سرگرم تھا ۔وہ اکثر اس پر حیرانی بھی ظاہر کرتا تھا کہ مجھ سمیت میرے ساتھی سب آوارہ مزاج ہیں اور کبھی کلاس روم میں ٹک کرنہیں بیٹھتے نہ لائبریری میں پائے جاتے ہیں ،مگر ہر امتحان میں اچھے نمبر لے لیتے ہیں ۔وہ اس کھوج میں تھا ۔اتفاق سے میرا ایک پرستار کلاس فیلو اسکے ہوسٹل میں تھا جسے چند دنوں کے لئے اسکے کمرے میں رہنا پڑا اور یہیں سے وہ حافظ موسیٰ خان کے زیر اثر آگیا ۔ایک دن حافظ نے اس کے پاس میرا دیا ہوا منتر دیکھ لیا ۔وہ تعویذات کی زبان سمجھتا تھا کیونکہ جس مدرسہ میں وہ پڑھا تھا وہاں تعویذات بھی سکھائے جاتے تھے ۔اس نے پوچھا کہ تم یہ کیا پڑھتے ہوتو پہلے تو میرے کلاس فیلو نے اس سے چالاکیاں لگانے کی کوشش کی لیکن پھر حافظ موسیٰ خان نے جب اسے یہ دھمکی دی کہ تم جو پڑھتے ہو یہ سفلی علم ہے اور کالا جادو کرنے والا کافر ہوتا ہے ۔وہ اسکی رپورٹ یونیورسٹی حکام کردے گا ۔وہ ڈر گیا اور اس نے حافظ موسیٰ خان کو میرے متعلق بتادیا اور پھراب تک پیش آنے والی تمام غیر متوقع کامیا بیوں کی تفصیلات بھی بتادیں ۔
حافظ موسیٰ خان ایک زیرک نوجوان تھا ۔اس نے بڑے تحمل سے اس کلاس فیلو کو سمجھا دیا کہ اب وہ اسکا ذکر کسی سے نہیں کرے گا لہذا وہ بھی مجھے نہ بتائے ۔اس نے وہ کالا علم لیا اور اپنے مدرسہ میں جاکر اپنے استاد گرامی سے ڈسکس کیا اور پوچھا کہ بنیادی طور پر یہ کس قسم کا علم ہے اور اسکا توڑ کیا ہے ۔اسکے استاد نے اسے بتایا کہ یہ ایک منتر ہے جو موکلان کو اپنے تک رسائی دیتا ہے ۔جو بندہ بھی پڑھتا ہے اس تک عامل کے موکل پہنچ جاتے ہیں اور اسکی مدد کرتے ہیں ۔حافظ موسیٰ خان کو استاد نے بتایا کہ اگرقرآن پاک کی یہ آیت مبارکہ پڑھ کر پھونک دیا جائے تو اس سے کالے علم کی کاٹ ختم ہوجاتی اور موکلان کا رابطہ ٹوٹ جاتا ہے ہے ۔
حافظ موسیٰ خان واپس آیا اور اس نے کسی کو ہوا نہیں لگنے دی کہ وہ کیا کرنے جاررہا ہے ۔اس نے سمسٹر شروع ہوتے ہی اپنا کام کردکھایا ۔اس نے پہلا کام یہ کیا کہ انتظامیہ کو اپنے ساتھ ملا کر اس نے میرے تمام مداحوں کو ایک ہی کمرے میں آگے پیچھے بیٹھوادیااور اس سے پہلے اس نے ان کی کرسیوں کے گرد حصار کھینچ کر اس نوری علم سے مضبوط چوکی لگا دی تھی۔ میرا امتحانی کمرہ ان سے الگ تھا ۔مجھے دوستوں کی فکر تو تھی اس لئے میں نے اپنا پرچہ کھولنے کے بعد اپنے موکلان کو حاضرکیا اور انہیں اپنے دوستوں کی جانب بھیجا ۔وہ سب مخصوص تعداد میں یہ علم پڑھ کر اطمینان سے بیٹھے تھے ۔یہ طریقہ کار طے تھا کہ مخصوص تعداد پڑھنے کے بعد چند منٹ وہ انتظار کرتے اور پھر اپنا پرچہ سوالات کھولتے تو انہیں اپنا پرچہ انتہائی آسان لگتا ۔ان کا اعتماد بڑھ جاتا اور پھر پرچہ حل کرلیا کرتے تھے ۔لیکن اس روز انہوں نے پرچہ کھولا تو ان کے ہوش اڑ گئے ۔ایک بھی سوال ایسا نہیں تھا کہ جو انہیں پورا آتا ہو۔انہوں نے گھبرا کر ایک دوسرے کی جانب دیکھا ،سب کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں ۔ادھر میرا بھی یہی حال تھا کیونکہ موکلان جب واپس ہوئے تو وہ ہانپ رہے تھے۔ا ن کے جسموں سے دھواں نکل رہا تھا ۔”آقا ہم مارے گئے“
”کیا ہوا؟“ میں نے پوچھا۔
” ادھر کسی نے نور پھونکا ہے “ ایک موکل نے سہمی ہوئی آواز کے ساتھ بتایا” ہم جب آپ کے دوستوں کے پاس جانے لگے تو یکایک ہمارے جسموں کو بری طرح سے کرنٹ لگا ۔بڑی کوشش کی کہ ان تک پہنچ جائیں مگر کوئی طاقت تھی جس نے ہمیں وہاں سے بھاگنے پر مجبو رکردیا ہے “
” ایسا کیسے ہوسکتا ہے ،تم نے کسی عامل کو ان کے پاس دیکھا ہے “ میں نے سختی سے پوچھا۔
” وہاں کوئی عامل نہیں ہے آقا ۔لیکن آپ کے سبھی ساتھیوں کو کسی نے اپنے حصار میں جکڑ کر وہاں بیٹھایا ہے ۔ہم نے چاروں طرف سے ہر کسی تک پہنچنے کی کوشش کرکے دیکھ لی ہے “ موکلان کی باتیں سن کر حیران ہوا کہ ایسا کیونکر ہوسکتا ہے ۔خیر میں نے اپنا پرچہ دیا اور جب باہر نکلا تو باہر سبھی دوست کھڑے تھے ۔ان کے منہ لٹکے ہوئے تھے ۔
” کیوں مارے گئے آج ،پرچہ اچھا نہیں ہواناں،میرا بھی نہیں ہوا۔چلو کنٹین میں چلتے ہیں“ میں نے انہیں کچھ کہے بغیراپنے ساتھ لیا ۔میں ذہنی طور پر پریشان تھا لیکن کسی پر ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا کہ یہ سب کیا ہوا ہے ۔کیا میرا علم سلب ہوگیا ہے یا کسی نے جان بوجھ کر میرے دوستوں کو حصار میں باندھا ہے ۔اگر کسی نے یہ حرکت کی ہے تو اس نے مجھ پر وار کیوں نہیں کیا جبکہ میرا پیپر بالکل ٹھیک ہوا تھا ۔(جاری ہے )
جناتی، جنات کے رازداں اور دوست کے قلم سے۔..قسط نمبر45 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں