جناتی، جنات کے رازداں اور دوست کے قلم سے۔..قسط نمبر 43
”تو اتنے دنوں سے کہاں تھا بالکے،کہاں چلا گیا تھا تُو ،تیراگنگو تیرے غم میں پاگل ہواجارہا ہے ۔تیرے بنا وہ ایک پل بھی چین نہیں لیتا ۔کسی گھڑی وہ سو نہیں پاتا ۔ہر سمے تیرا نام جاپتا رہتا ہے اور ........کئی بار گیا ہے تجھے بلانے لیکن تیری مسجد کی دیواروں سے سر ٹکرا کر وا پس آجاتا رہاہے ۔تو اسکو دیکھے گا تو پہچان نہ سکے گا ۔تیرے غم نے اس کا ناس کردیا ہے “ پتا گرو میرا چہرہ اپنے غلیظ بوڑھے استخوانی ہاتھوں میں تھامے اس بے چارے بوڑھے کی طرح رو رہا تھا جس کی کمائی اسکی آخری عمر میں لٹ جاتی ہے ۔
میں خاموش تھا ۔بالکل خاموش ،بس اسکو تکے جارہا تھا ۔اس دوران ہی میرا باپ ،میرا گرو ہانپتا کانپتا دوڑتا ہوا آیا ۔اس نے ہاتھوں میں انسانی ہڈیوں کاپنجہ پکڑا ہوا تھا ۔مجھے دیکھ کر وہ دور ہی سے چلایا ” او میرا ببر آگیا ۔میرا ببر آگیا ۔اب مجھے کچھ نہیں چاہئے “
اسے دیکھتے ہی میرا دل مچلا اور میں آگے بڑھ کر اسکے سینے سے لگ گیا ۔آخر کو وہ میرا باپ تھا ۔باپ جیسا بھی ہو ،اولاد جب چھوٹی ہوتی ہے تو دنیا کی سب سے قیمتی چیز اور سہارا اسکا باپ ہی ہوتا ہے ۔اسکے گلے سے لگ کر میں رودیا ۔وہ بھی رونے لگا تھا ۔اس نے مجھے اپنے ساتھ بھینچ لیا اور مجھے سینے میں سموتا ہی چلا گیا ۔مجھے اسکے بدبودار کپڑ وں سے کوئی کراہت بھی ہوئی،باپ کی اپنی مہک زیادہ زور دار ہوتی ہے ۔وہ اپنے لخت جگر کو سینے کے کواڑ کھول کر اپنے دل کی گود میں لیکر ٹھنڈک پہنچانا چاہتا تھا ۔یونہی باپ بیٹا کافی دیر تک ایک دوسرے کے گلے لگ کر روتے رہے اور جب بھڑاس نکل گئی تو گرو نے پوچھا ” یہ جوان کون ہے ؟“
پچھلی قسط ۔جناتی، جنات کے رازداں اور دوست کے قلم سے۔..قسط نمبر 42
میں نے حافظ عبداللہ کا تعارف کرایا اور صاف گوئی سے بتادیا ” یہ ہی مجھے لایا ہے ۔آپ سے ملنا چاہتا تھا “
یہ سنتے ہی گرو نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے گلے لگانا چاہا تو وہ یکایک پیچھے ہٹ گیا ۔گرو نے سمجھاڈر گیا ہے ” نہ بچے ڈرتے کیوں ہو ۔ہم کوئی بالائیں تو نہیں ہیں ۔تو نے میرے ساتھ بڑی نیکی کی ہے کہ میرے ببر کو ملانے لے آیا ہے ،میں تیرا احسان کبھی نہ بھول پاوں گا “
” اس میں شکریہ والی کون سی بات ہے ۔جس کا خمیر ہو اس سے ناطہ نہیں توڑنا چاہئے ۔“ حافظ عبداللہ نے میرے والد سے کہا ” آپ جیسے گیانی کا بیٹا خود بھی بڑا گیانی ہے ۔اس لئے ہی میں اسکو آپ کے پاس لایا ہوں کہ آپ سے مل کر میں بھی گیان سیکھ لوں گا ۔آپ سمجھ لیں اس میں میرا بھی لالچ شامل ہے کہ باپ بیٹے کو ملا کر میں بھی کوئی فائدہ اٹھا لوں “
اسکی بات سن کر پتا گرو نے اسکے سر پر ہاتھ رکھا ” تو بڑا سیانا ہے جوان ۔ببر ہماری جان ہے اور تو نے ہمیں پھر سے زندہ کردیا ہے ۔ہم تیری خواہش پوری کریں گے اور جو گیان بولے گا تجھے سکھادیں گے “
”ہاں ہاں کیوں نہیں “ گرو نے میرا ہاتھ زور سے دبایا اور پھر پاس کھڑے سیوک سے کہا ”جا میرے ببر اور اسکے یار کے لئے شربت لے آ“
” شربت رہنے دیں ،ابھی ناں ہمیں واپس جانا ہے ۔ استاد صاحب کو پتہ نہیں کہ میں بابر حسین کو لیکر ادھر آیا ہوں ، وہ ناراض ہوجائیں گے “ حافظ عبداللہ نے کہا تو اس وقت میں نے دیکھا اسکے چہرے پر کچھ گہری پرچھائیاں سی امڈ رہی ہیں اور بے چین لگ رہا ہے ۔پتا گرو نے بھی فوراً یہ بات تاڑ لی اورپھر دوسرے ہی لمحے اسکی آنکھیں پھیل گئیں اور چہرہ پر عجیب سی مستی کھلنے لگی ” اچھا اچھا تو یہ تو ہے “ پتا گرو نے حافظ عبداللہ کو پہچان لیا تھا کہ یہ انسان نہیں بلکہ جنّ ہے ۔
” تو گھبرا نہیں ۔ہم تیرے لئے مصیبت پیدا نہیں کریں گے ۔میں دیکھ رہا ہوں کہ تجھے کچھ پرچھائیاں کاٹنے کو آرہی ہیں ۔وہ پسند نہیں کرتیں کہ تو ادھر اور سمے ٹھہرے ۔۔ہاں اگر تو رکنا چاہے گا تو یہ تیرا کچھ نہ بگاڑ پائیں گی ،آخر تو پتا گرو کے استھان پر کھڑا ہے ۔اگر تو جانا چاہے تو وعدہ کر کہ پھر آئے گا ،جب تو ہمارے ببر کو لیکر آئے گاتو میں تمہیں ایک منتر سکھاوں گا کہ پھر یہ پرچھائیاں تجھے تلاش نہ کرسکیں گی “
یہ سنتے ہی حافظ عبداللہ تو جیسے اچھل پڑا ” واقعی آپ مجھے یہ منتر سکھا دیں گے؟ “
” ببر کی سوگند تجھے سکھاوں گا اور کوئی تیرا نشان بھی نہ پاسکے گا “ پتا گرو نے پورے یقین و گھمنڈ کے ساتھ کہا
ہم وہاں کافی دیر رکے اور پھر واپس آگئے۔وہ رات بہت بھاری تھی ۔ میں تو چونکہ رات کو گھر آجاتا تھا اس لئے مجھے تو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ حافظ عبداللہ کے ساتھ کیا کچھ ہوگیا تھا البتہ جب صبح میں مسجد میں گیا تو حافظ صاحب کا غیض و غضب سے لال چہرہ دیکھ کر میں ڈر گیا ”تو کیوں گیا تھا عبداللہ کے ساتھ اپنے حرامی باپ سے ملنے “ اس کا مطلب تھا انہیں سب کچھ معلوم ہوچکا تھا ۔چھپانے کا کوئی فائدہ نہیں تھا ۔میں نے صاف گوئی سے کام لیا اور بتا دیا کہ حافظ عبداللہ کے مسلسل کہنے پر اسکو ملوانے گیا تھا ۔حافظ صاحب نے مجھے وارننگ دی” اگر تو دوبارہ اپنے باپ کے پاس گیا تو پھر میرے پاس نہ آنا ۔میں جانتا ہوں تجھے حافظ عبداللہ کی اصلیت معلوم ہے ۔لیکن تمہیں یہ نہیں معلوم کہ جنات کی جس نسل سے اسکا تعلق ہے وہ کتنی سخت اور مذہب پرست ہے ۔حافظ عبداللہ کے دماغ میں خناس بھی سمایا ہوا تھا ۔اسکو میں نے واپس بھیج دیااور اب وہ کبھی نہیں آئے گا ۔آخر میں کب تک تم انسانوں اور جناتوں کی حفاظت کرتا پھروں گا ۔اللہ مالک ہے لیکن اللہ نے عقل بھی تو دی ہے ۔میں نے حافظ عبداللہ سے کہہ رکھا تھا کہ وہ اپنے جناتی معاملات یہاں نہ لائے گا مگر وہ باز نہیں آیا ۔پہلے اس نے شیخ ساحب کی حویلی میں بھی کھڑاک کردیا جس سے دوسرے طالب علم پریشان ہیں اور یہ بات میرے گھر تک بھی پہنچ گئی ۔میرے بچے بھی پریشان ہوگئے ہیں ۔اس کی لاپروائی سے میرے اہل خانہ پر مصیبت آسکتی ہے ۔اسکو چاہئے تھا اپنی جنگ اپنی دنیا میں جاکر لڑتا ،اب وہ شیطانی علم حاصل کرنے تمہارے باپ اور گرو پتا کے پاس چلا گیا ۔حد ہوتی ہے“ حافظ صاحب کو یہ سب کیسے معلوم ہوا میں نہیں جانتا ۔میں بہت افسردہ ہوا۔زلیخا کو بھی یہ بات معلوم ہوگئی تھی کہ حافظ عبداللہ انسان نہیں تھا بلکہ انسان کے روپ میں جنّ تھا ۔وہ ڈر گئی تھی اور کئی روز تک مسجد میں چائے بھی دینے نہیں آئی ۔
یونہی کئی دن گزر گئے ۔ایک دن اچانک حافظ صاحب کی طبیعت خراب ہوگئی ۔معلوم ہوا کہ انہیں دل کا دورہ پڑ گیا ہے ۔انہیں ہسپتال لے جایا گیا ،میں اور اماں ان کی تیمارداری کرنے ہسپتال گئے تو مجھے کمرے سے باہر نکال کر انہوں نے اماں سے یہ وعدہ لیا ” بہن ہم سب کا مالک اور وارث اللہ الصمد ہے ،اگر مجھے کچھ ہوگیا تو میرے بچوں کادھیان رکھنا “ اماں نے انہیں حوصلہ دیا ،اسکے سوا اور کیا کرسکتی تھیں ،وہ چند ہی دنوں میں اللہ کو پیارے ہوگئے ۔یکایک سب کچھ بدل گیا تھا ۔اماں نے زلیخااور اسکی امی کا بہت خیال رکھا لیکن ایک دن زلیخا کا ماموں اپنی بہن اور بھانجی کو اپنے گاوں لے گیا ۔اس دن مجھے احساس ہوا کہ میری کوئی کمزوری بھی ہے ۔زلیخا کیا گئی میرا دل اچاٹ ہوگیا اور میں اپنا غم غلط کرنے اور بھلانے کے لئے دیواروں سے ٹکریں مارنے لگتا۔اماں نے میری یہ حالت دیکھی تو سمجھی کہ حافظ صاحب کے پردہ کرجانے کا صدمہ لگ گیا ہے اور انہوں نے مجھ پر جو دم کئے تھے وہ بے اثر ہوگئے ہیں ۔
ایک دن میں نیم بے ہوش اپنے کمرے میں پڑا تھا جب مجھے باہر سے کسی کے لڑنے کی آواز آئی ۔غور کیا تو اماں میرے باپ سے لڑرہی تھی اور اسے گھر سے نکل جانے کو بول رہی تھی ۔لیکن وہ کمزور سی عورت اسکے آگے مزید کھڑی نہ رہ سکی ۔ میرا باپ اندر آیا اور اسنے میری حالت دیکھ کر مجھے سینے سے لگایا۔ادھر باپ سینے سے لگا ،اُدھر ماں نے اپنی محنت لٹتی دیکھ لی اوردلخراش چیخ ماری ” سوہنیا ربّا،میں نے تو اسکو بچانے کی پوری کوشش کی ہے ،اب تو جان اور تیرا کام “ یہ صدمہ اسقدر جاں لیوا تھا کہ اماں ہارگئی۔اپنی اکلوتی اولاد کو سیدھی راہ پر چلاتے چلاتے وہ تھک گئی تھی ۔وہ نیک عورت اسکے سوا اور کچھ نہ کرسکی اور اس نے شدت غم سے دروازے کی چوگاٹ پر بے بسی سے سر مارا اور پھر اسکا سر چوگاٹ پر ہی ٹکا رہ گیا ۔اسے دوسری سانس لینی نصیب نہ ہوئی ۔حافظ صاحب چلے گئے،زلیخا کہیں دور چلی گئی تھی،اور اب میری ماں بھی دنیا چھوڑ گئی تھی ۔۔۔۔
پھر اس دن سے میں بابر حسین سے ببر بن گیا ،دس سہ پارے حفظ کئے اور جس گندی دنیا میں پڑا ،سب بھلا دئےے۔پھر وہی معمولات ۔شیطانی علوم کی درس گاہ میں پھر داخل ہوگیا ،میرے باپ نے اس بار یہ کام کیا تھا کہ اس نے مجھے سکول میں داخل کرادیا ،میٹرک کے بعد کالج گیا اور عام نوجوانوں کی طرح زندگی گزارتے ہوئے میں اپنے حیرت العقول شیطانی کاموں سے اپنی عیاشیاں پوری کرتا رہتا ۔میرے مزاج میں نفرت ، انتقام اور بدی رچ بس گئی تھی ۔گرو نے البتہ مجھے عیاری بھی سکھا دی تھی کہ اپنے علوم کو کبھی کسی پر ظاہر نہ کرنا تاوقت کہ پڑھ لکھ کر ڈگری حاصل نہیں کرلیتا۔اس کا ذہن میں نے پڑھ لیا تھا اور مجھے بھی اچھا لگتا تھا کہ محض عامل بننے کی بجائے کالج یونیورسٹی سے ڈگری لیکر میں اپنے علوم سے دنیا کو تسخیر کروں گا اور اسکے لئے اپنے علوم کو بے نقاب نہیں کروں گا کیونکہ میں نے دیکھ لیا تھا کہ کالے علوم کا اعلانیہ پرچار موت کا پھندہ بن سکتا تھا ۔البتہ اس دوران کئی لوگ میرے مطیع ہوگئے تھے کیونکہ جادو ٹونے ایسی الجھنوں میں پھنسی انکی زندگیوں میں سکون میری وجہ سے آیا تھا ۔یہ بھی ایک لمبی داستان ہے ۔میں نے تعلیم مکمل کرلی ۔کالے علوم میں مجھے بے پناہ شکتی مل گئی تھی ۔لیکن ایک کسک ہر وقت میرا پیچھا کرتی تھی ۔میں زلیخا کو نہیں بھولا تھا ۔اسکا خیال آتا تو بے چینی لگ جاتی اور محسوس کرتا کہ اسکے بغیر میں ادھورا ہوں ۔میرے لئے کسی بھی لڑکی کو مغلوب کرکے اسکے ساتھ اپنی شیطانیت پوری کرنا کوئی مسئلہ نہیں رہا تھا لیکن دنیا بھر کا حسن بھی زلیخا کے سامنے ہیچ لگتا تھا ۔(جاری ہے )