رپورٹ طلبی
مَیں 1963ء سے اخبار کا باقاعدہ قاری ہوں۔اس وجہ سے اپنے گرد و پیش کی زندگی میں پیش آنے والے اکثر حادثات اور سانحات سے باخبر رہا ہوں۔میری زندگی کا سب سے بڑا المناک واقعہ سقوطِ ڈھاکہ کا تھا۔اس نے میرے دِل و دماغ کو بُری طرح ہلا کر رکھ دیا۔اس موضوع پر اُردو اور انگریزی میں جو کچھ چھپا، میرے مطالعہ سے گزر چکا ہے۔البتہ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ ساری نہیں پڑھ سکا،اتنا حوصلہ کہاں سے لاتا۔جتنا حصہ بھی پڑھا، دِل پرہاتھ رکھ کر پڑھا۔جب سانحہ کی تحقیق کے لئے صدر ذوالفقار علی بھٹو نے مذکورہ کمیشن قائم کیا تھا تو معلوم نہیں کیوں ڈھارس سی بندھ گئی تھی کہ اس حادثے کے ذمہ داران ضرور کیفر کردار کو پہنچیں گے اور آئندہ کسی کو ملک و ملت کی تقدیر سے کھیلنے کی جرأت نہ ہو گی۔ البتہ کبھی کبھی دھیان لیاقت علی خان کے قتل کے سانحہ کی طرف چلا جاتا تو ذہن پر بے یقینی کی دُھند سی چھانے لگتی۔مَیں سوچتا جب قائداعظمؒ کے جانشین اور ہر دلعزیز وزیراعظم کا قتل طرح طرح کی انکوائریوں کی گھمن گھیریوں میں گم ہو گیا تو ملک توڑنے والوں کے چہرے کیسے بے نقاب ہوں گے۔
پھر ایک وقت آیا کہ میری بے یقینی صحیح ثابت ہوئی۔انکوائری رپورٹ مکمل ہو کر سردخانے میں چلی گئی۔وطن عزیز کا وہ سب سے بڑا افسر جو سانحہئ مشرقی پاکستان کا سب سے بڑا ذمہ دار تھا، مر گیا تو اسے قبر میں اتارتے وقت اکیس توپوں کی سلامی دی گئی۔اس مجرم کو بعداز مرگ بھی اتنی عزت ملی تو دِل مایوسیوں میں ڈوب گیا۔یقین ہو گیا کہ ملک و قوم کو نقصان پہنچانے والے آئندہ بھی نقصان پہنچاتے رہیں گے اور کوئی کمیشن ان کا بال بھی بیکا نہ کر سکے گا۔
معافی چاہتا ہوں تمہید ذرا طویل ہو گئی۔عرض یہ کرنا چاہتا ہوں کہ حکمرانوں کا قوم کے ساتھ مذاق ٹھٹھا کرنے کا سلسلہ آج بھی پورے دھڑلے جاری ہے۔ وزیراعظموں کے قتل اور سقوطِ ڈھاکہ ایسے بڑے بڑے سانحات پر تحقیقات کرانے اور رپورٹوں کے سرد خانے میں چلے جانے کا مکروہ عمل اب بھی بار بار دہرایا جاتا ہے۔ایسی خبریں روزانہ ہماری نظرسے گزرتی ہیں کہ وزیراعظم نے یا وزیراعلیٰ نے فلاں واقعہ کا نوٹس لے لیا،حکام سے رپورٹ طب کر لی ہے، لیکن کبھی ایسی خبر دکھائی نہیں دی کہ رپورٹ کے مطابق انکوائری ہوئی اور کوئی افسر یا کوئی اور سرکاری اہلکار سزایاب ہوا۔معلوم نہیں ہمارے ارباب بست و کشاد نے کسی واقعہ کو ٹھکانے لگانے کا یہ گُر کہاں سے سیکھ لیا ہے۔ وہ اکثر سرکاری خرچ پر بڑے ممالک میں جاتے ہیں تو کیا وہاں بھی وہ یہی تماشا دیکھتے ہیں؟
مجھے یاد ہے ممتاز کالم نگار جناب رؤف طاہر کے گھر ڈاکہ پڑا تو وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف باقاعدہ ان کے گھر پہنچے۔آئی جی پولیس ان کے ساتھ تھے۔ رؤف طاہر نے ڈاکے کی تفصیل بیان کی تو وزیراعلیٰ نے موقع ہی پر آئی جی پولیس کو ایک ہفتہ کے اندر اندر رپورٹ پیش کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ہم ایسے غریب قارئین نے سمجھا کہ بڑی بات ہے، وزیراعلیٰ موقع پر فوراً پہنچے بھی اور پولیس افسر سے رپورٹ بھی طلب کر لی۔ اس کے بعد کوئی سراغ نہ ملا کہ رپورٹ تیار ہوئی یا نہیں، اگر وزیراعلیٰ کی میز پر پہنچ گئی تو مزید کارروائی کیا ہوئی۔ تھوڑے دن نہ گزرے کہ پھر خبر آ گئی کہ رؤف طاہر کے گھر دوبارہ ڈاکہ پڑ گیا ہے۔اب کی بار وزیراعظم پاکستان جناب میاں نواز شریف موقع پر پہنچے۔ان کے ہمراہ بھی آئی جی پولیس تھے، جن کو وزیراعظم نے ایک ہفتہ کے اندر اندر رپورٹ بھیجنے کا حکم دے دیا۔اب کی بار وزیراعلیٰ صاحب شاید اس لئے نہ گئے کہ ابھی تو پچھلی واردات کا کچھ نہ بن سکا تھا،کیا منہ دکھاتے۔ شاید کچھ اس لئے بھی نہ گئے کہ وزیراعظم جا رہے ہیں۔اب تو رؤف طاہر کے دُکھوں کا کچھ مداوا ہو ہی جائے گا،لیکن آج تک کئی سال گزر گئے ہیں، کچھ بھی نتیجہ نہیں نکلا۔نہ پولیس کی ”پھرتیاں“ کہیں دکھائی دی ہیں نہ قانون کا ہاتھ کسی ڈاکو کی گردن تک پہنچا ہے۔
اب آٹے کا بحران درپیش ہوا تو وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیراعظم نے اپنی اپنی جگہ فوراً نوٹس لے لیا،رپورٹیں بھی طلب کر لیں، مگر نتیجہ حسب ِ سابق صفر۔ معلوم نہیں رپورٹیں مکمل بھی ہوئیں یا نہیں،اگر ہو گئیں تو ذمہ داران کون تھے، ان پر ہاتھ کیوں نہیں ڈالا گیا؟یوں لگتا ہے کہ بدعنوانی کا ارتکاب کرنے والے ہمیشہ ریاست سے زیادہ طاقتور ہوتے ہیں،ان پر ہاتھ ڈالنا کسی حکومت کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ہر حکمران اپنا اقتدار بچانے اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے رپورٹ فوراً طلب کرتا ہے اور پھر چُپ سادھ لیتا ہے! سچ ہی سیانے کہتے ہیں:اِک چُپ تے سو سُکھ!