ججوں کی لڑائیَ؟

ایک زمانہ تھا کہ عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات پر میڈیا پر تبصرہ نگاری و تجزیہ کاری کو معیوب سمجھاجاتا تھا، مگر آج تو خود جج صاحبان عدالتی معاملات کو میڈیا پر اچھال رہے ہیں اور میڈیا اس پر تبصروں اور تجزیوں کے طومار چلا رہا ہے۔ ججوں کی لڑائی پہلے تو اسٹیبلشمنٹ سے تھی،اب آپس میں اُلجھ پڑے ہیں، ایسی روش جنرل پاشا کے زمانے سے شروع ہوئی ہے کہ سب کچھ تلپٹ ہو کر رہ گیا ہے۔اب چکوال کے اردگرد کی عدالتیں ایک ہی راگ الاپ رہی ہیں،9مئی کو Go Mayبنانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا رہا ہے۔یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب سسٹم کو بدلاجاتا ہے تو پورے کا پورا تبدیل کر دیا جاتا ہے، اس میں عدلیہ اور میڈیا بھی لپیٹ میں آتے ہیں۔جب پی ٹی آئی کے دور میں من پسند ججوں کو ادلا بدلا جا رہا تھا تو مخالف سیاسی جماعتیں اس طرح شور نہیں مچاتی تھیں جس طرح اب پی ٹی آئی اور جج صاحبان مچاتے نظر آتے ہیں۔ حکومت فیک نیوز سے نپٹنا چاہتی ہے، مگر یہاں تو اعلیٰ عدالتوں سے فیک نیوز کو فروغ دیا جا رہا ہے اور اسلام آباد ہائیکورٹ میں دوسری ہائیکورٹوں سے ججوں کو لانے کا مدا بنا کر معاملے کو اچھالا جا رہا ہے،جو انتہائی معیوب بات ہے۔
جب کوئی متاثرہ فریق عدالت میں پہنچتا ہے تو اسے سب سے پہلے Cause of actionثابت کرنا پڑتا ہے اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج صاحبان نے میڈیا کے ذرائع کا حوالہ دے کر خط لکھ دیا ہے۔ خیر سے متنازع خط پر دستخط کرنے والے معزز جج جسٹس بابر ستار تو باقاعدہ جرنلسٹ کے طور پر کام بھی کرتے رہے ہیں، ممکن ہے کہ ذرا تحقیق سے پتہ چلے کہ ایک آدھ اور جج صاحب کو بھی کسی زمانے میں جرنلسٹ بننے کا شوق ہو جو پورا نہ ہو سکا ہو اور اب جبکہ جج کے عہدہ جلیلہ پر فائز ہو چکے، دوبارہ سے وہ شوق انہیں کچھ ایسا کرنے پر اُکسا رہا ہو جس سے وہ خبروں کی زینت بن سکیں۔
ججوں کی لڑائی کسی اصولی موقف پر نہیں ہے، بس بڑھک بازی ہے جو بدقسمتی سے پوری پی ٹی آئی کا وتیرہ بن چکی ہے۔ عمران خان کے خلاف کرپشن کے مرتکب پائے جانے پر 14سال سزا سنائی جاتی ہے اور وہ خیبرپختونخوا میں کرپشن کے شور پر ایک تحقیقاتی کمیٹی بنا کر میڈیا کے مخصوص حصے سے داد و تحسین وصول کرتے پائے جاتے ہیں۔ دوسرے معنوں میں اس وقت ’چور بھی کہے چور چور‘کا عملی مظاہرہ ہو رہا ہے۔سوشل میڈیا کے صدقے واری جانے کو جی چاہتا ہے،جہاں سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کرنے کا عمل جاری ہے اور کئی سادہ لوح اور بند دماغوں کے حامل پاکستانی اس کے اثر میں ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے درست کہا کہ سچ ابھی تسمے باندھ رہا ہوتا ہے اور جھوٹ پوری دنیا کا چکر کاٹ کر آجاتا ہے۔ایسا ہی کچھ عدت میں نکاح کے مقدمے کے ساتھ کیا گیا تھا اور آج کسی کو یاد بھی نہیں ہے کہ ملک کے شاہی جوڑے نے اللہ کی حدوں کو پار کیا تھا،بدقسمتی کی بات ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں نے وہاں بھی اسے عمران خان کے ذاتی فعل کے مفروضے کو بڑھاوا دینے اپنا حصہ ڈالا اور اب ایسا ہی 190ملین پاؤنڈ کے ساتھ کیا گیا ہے کہ سزا ہو گئی اور عمران خان دوبارہ سے ہیرو بنا کر پیش کردیا گیا کہ انہوں نے خیبرپختونخوا میں اپنی پارٹی میں چند تبدیلیاں کردیں اور میڈیا پر غلغلہ مچ گیا۔
ججوں کی لڑائی سے لگتا ہے کہ جب یہ مخصوص جج صاحبان بتاتے ہیں کہ عدالتوں میں اتنے ہزار مقدمات زیر التوا ہیں تو لگتا ہے کہ بس منہ کے ذائقے کے لئے ایسی بات کرتے ہیں وگرنہ انہیں ان مقدمات کو نپٹانے سے زیادہ ملک کے آئین سے چھیڑ چھاڑ میں زیادہ مزا آتا ہے اور ایک مخصوص سیاسی جماعت کے لئے آئین کا حلیہ بگاڑنے پر تلے ہوئے ہیں۔ حتیٰ کہ 26ویں آئینی ترمیم کو بھی ماننے کو تیار نہیں ہیں، اس سے قبل یہ آوازیں ہائیکورٹ باروں سے آیا کرتی تھیں اور اب ججوں کی عدالتوں سے آتی ہیں۔ وہ آئین اور قانون پر عمل کرنے کی بجائے آئین اور قانون کو اپنی مرضی اور منشا کے مطابق لکھنے اور ڈھالنے پر لگے ہوئے ہیں۔ اس ضمن میں سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی آئین کے آرٹیکل 63کے ساتھ کی جانے والی چھیڑ خانیاں ابھی تک قوم کو نہیں بھولی ہیں۔
ججوں کی لڑائی نے پورے عدالتی ڈھانچے کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے، جن ججوں پر رکیک حملے کئے جا رہے ہیں وہ بھری عدالت میں پوچھتے پائے جارہے ہیں کہ بتایا جائے کہ ان کا ایسا کون سا مفاد ہے جس کا تذکرہ جسٹس منصور علی شاہ نے توہین عدالت عائد کرتے ہوئے کیا تھا۔ یہی نہیں انہوں نے تو چیف جسٹس کو بھی توہین عدالت کے زمرے میں گھسیٹ لیا ہے اور اپنی سنیارٹی کے بھرتے پر وہ کچھ کہتے اور کرتے پائے جا رہے ہیں جو جج کے منصب پر فائز معزز قانون دان کو زیب نہیں دیتا، کچھ ایسا ہی معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے سینئر پیونی جج صاحب کا بھی ہے جو مقننہ کی جانب سے آئین میں ترمیم کے حق کو متنازع بنانے کا جتن کرتے پائے جاتے ہیں۔ججوں کی لڑائی کسی مقصد کے لئے نہیں، محض وقت گزاری کے لئے ہے، جس کا خمیازہ عوام اپنے تنازعات کے عدالتوں میں غیر ضروری طور پر لٹکائے جانے کی صورت میں ادا کر رہے ہیں۔ کاش یہ بات سمجھ میں آجاسکے کہ دنیا میں کوئی بھی ناگزیر نہیں ہوتا، قبرستان نابغہ روزگاروں سے بھرے ہوئے ہیں۔
٭٭٭٭٭