”میر کارواں“

”میر کارواں“
”میر کارواں“

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


علامہ محمد اقبالؒ نے فرمایا تھا:
نگہ بلندے سخن دلنوازے جاں پُر سوز
یہی ہے رخت ِ سفر میر کارواں کے لئے


ایک معروف مصنف اور ممتاز مورخ میاں محمد افضل نے جب قائداعظمؒ کی حیات اور قومی خدمات کے موضوع پر ایک تحقیقی اور مستند کتاب لکھنے کا فیصلہ کیا تو انہیں اپنی کتاب کے لئے جو نام سب سے موزوں لگا، وہ اقبال کے اسی شعر سے مستعار لیا گیا ہے۔میاں محمد افضل نے ”میر کارواں“ کے نام سے جو کتاب لکھی ہے، اسے پڑھ کر مجھے یوں محسوس ہوا جیسے پاکستانی قوم پر قائداعظمؒ کے عظیم احسانات کا مدتوں سے جو قرض واجب تھا، وہ ایک حد تک میاں محمد افضل نے قائداعظمؒ کی یہ مستند ترین سوانح عمری لکھ کر ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ میاں صاحب نے یہ کتاب قائداعظمؒ کی محبت میں ڈوب کر لکھی ہے، لیکن اپنے ممدوح محمد علی جناحؒ کی تعریف میں اپنے قلم کو مصنف نے جھوٹ سے آلودہ نہیں ہونے دیا۔ میاں محمد افضل نے ”میر کارواں“ میں جو بھی لکھا، اس کی سند اور دلیل بھی پیش کی۔ قائداعظمؒ کی عظمت ِ کردار کا راز بھی اسی حقیقت میں پوشیدہ ہے کہ ان کی عظمت کے بیان کے لئے جھوٹ کے سہارے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ خود میاں محمد افضل کا شمار بھی جھوٹ سے شدید نفرت کرنے والوں میں ہوتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ میاں محمد افضل نے پاکستانی قوم کی راہنمائی کے لئے سوانح حیات لکھنے کا جب ارادہ کیا تو ان کی نظرِ انتخاب میں صرف قائداعظمؒ ہی جچے،کیونکہ قائداعظمؒ کو اپنی پوری سیاسی زندگی میں کبھی کسی نے جھوٹ، منافقت اور عیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ قائداعظمؒ کے پاس سیاست میں کامیابی کے لئے یقین محکم اور عمل پیہم کے ساتھ جو سب سے مؤثر ہتھیار تھا،وہ سچائی ہی تھی۔


میاں محمد افضل نے ”میر کارواں“ لکھتے ہوئے قائداعظمؒ کی ذاتی اور سیاسی زندگی کا کوئی پہلو تشنہ نہیں چھوڑا، اِس لئے یہ کتاب 82 ابواب اور 1667 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کے لئے استعمال کئے گئے کاغذ کی لمبائی، چوڑائی کتاب کے عام سائز سے دگنا ہے۔ ”میر کارواں“ کو کتاب کے عام سائز کے مطابق شائع کیا جاتا تو پھر اس کے صفحات لازمی طور پر 3334 ہوتے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ قائداعظمؒ کی یہ سوانح عمری ضخامت کے اعتبار سے بہت بڑی ہے۔ یہ کتاب نہیں، بلکہ کتاب میں شامل ہر باب ہی ایک ضخیم مقالہ ہے۔ اگر آپ نے اس کتاب کا مکمل مطالعہ کیا ہو تو آپ میری طرح یہ محسوس کریں گے کہ آپ نے گویا اس کتاب کی صورت میں 82 کتابوں کا مطالعہ کر لیا ہے۔ کتاب کی ضخامت غیر معمولی بڑی ہونے کے باوجود یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ میاں محمد افضل نے کوئی غیر ضروری بات یا کوئی غیر ضروری واقعہ اس کتاب میں بیان نہیں کیا۔ مصنف نے اس کتاب میں وہی لکھا،جو نہایت ضروری تھا۔ کوئی اضافی، فالتو اور بے کار بات اس کتاب میں نہیں لکھی گئی۔ جس طرح قائداعظمؒ کی زندگی نظم و ضبط کی بے پناہ پابند تھی، اسی طرح کا نظم و ضبط اس کتاب میں بھی محسوس ہوتا ہے۔مصنف کا قلم کہیں بھی بے قابو نہیں ہوا۔ قائداعظمؒ سے بے پناہ محبت کے باوجود مصنف نے قائداعظمؒ کے بد ترین مخالفین کے بے بنیاد اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے بھی غیظ و غضب کا مظاہرہ نہیں کیا،بلکہ متانت اور دلیل کے ساتھ قائداعظمؒ اور قیام پاکستان کے مخالفین کو لا جواب کیا ہے۔


یہ کتاب صرف قائداعظمؒ کی سوانح ہی نہیں، بلکہ اس میں تحریک پاکستان کے تمام مراحل اور جملہ پہلوؤں کو بڑے جامع انداز میں بیان کر دیا گیا ہے،بلکہ اِس لئے کتاب کی ضخامت کا بڑھ جانا ایک فطری بات تھی، مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ طویل اور ضخیم کتاب پڑھتے ہوئے قاری کہیں بھی بوریت محسوس نہیں کرتا اور یہ کمال مصنف کے اسلوب بیان اور طرزِ اظہار کا ہے کہ اتنی طویل کتاب پڑھتے ہوئے ہر مرحلے اور ہر مقام پر قاری کی دلچسپی برقرار رہتی ہے۔قائداعظمؒ کی ذاتی اور قومی زندگی پر جو کچھ لکھنا اور جو کچھ جاننا ضروری ہے، وہ سب ”میر کارواں“ میں موجود ہے۔ اس ایک کتاب کا فائدہ یہ بھی ہے کہ آپ قائداعظمؒ پر لکھی گئی سینکڑوں کتابوں کے مطالعہ سے مستثنیٰ ہو جائیں گے، اگر آپ میاں محمد افضل کی اس اکیلی کتاب کو پڑھ لیں گے تو حیرت ہوتی ہے کہ تنہا میاں محمد افضل نے یہ کام مکمل کیسے کر لیا ہے؟ میاں صاحب نے مجھے بتایا کہ انہیں اس کتاب کو پایہئ تکمیل تک پہنچانے میں سات سال کا عرصہ لگا۔

ان سات سالوں میں انہوں نے ہر دن قائداعظمؒ کے حوالے سے یا کچھ پڑھا یا کچھ لکھا۔ سات سال میں قائداعظمؒ کے حضور میاں محمد افضل نے ایک دن کی بھی غیر حاضری نہیں کی، تب جا کر یہ شاہکار کتاب مکمل ہوئی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد 71 سال گزر جانے کے باوجود بھی اتنی جامع، اتنی معیاری اور اتنی مکمل کتاب قائداعظمؒ کے حوالے سے ان اداروں سے بھی تحریر نہ ہو سکی،جو قائداعظمؒ کے نام پر ہر سال کروڑوں روپے کی سرکاری گرانٹس ہڑپ کر جاتے ہیں۔ قائداعظمؒ کے مداح میاں محمد افضل کا پوری قوم کو ممنون ہونا چاہئے کہ انہوں نے تن تنہا صرف اپنے وسائل، اپنی شب و روز کی محنت، اپنی تن دہی، اپنے اخلاص اور اپنے نہ ٹوٹنے عزم و ارادے سے ایک ایسا کارنامہ سر انجام دیا ہے کہ اگر وہ ”میر کارواں“ نہ لکھتے تو ہماری آنے والی نسلیں بھی قائداعظمؒ کے حضور اپنی نالائقی پر شرمساری محسوس کرتیں۔

مزید :

رائے -کالم -