صفدر چودھری کی چند یادیں(2)
صفدر صاحب کو مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کی ہدایت پر ایم اے کا امتحان دینے کے فوراً بعد مرکز جماعت میں طلب کرلیا گیا۔ ان کی جماعت کی رکنیت بھی منظور ہوگئی۔
نتیجتاً جمعیت سے ان کی اچانک فراغت کی وجہ سے ذمہ داران جمعیت نے کچھ عرصے کے لئے مجھ پر بطور قائم مقام ناظم علاقہ وسط مغربی پاکستان کی ذمہ داریاں ڈال دیں، جو مجھے ناتجربہ کاری کے باوجود نبھانا پڑیں۔ میرے اندر نہ صلاحیت تھی، نہ تجربہ تھا، مگر نظم کے حکم پر سرتسلیم خم کرنا پڑا۔
اس سارے عرصے میں پہلے تو مختلف مقامات کے دورے صفدر صاحب کی رفاقت میں ہوئے تھے اور بعد میں اپنے طور پر یہ کام کیا۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس ذمہ داری سے جلد فراغت مل گئی، مگر ابھی سانس بھی نہ لیا تھا کہ لاہور مقام کی ذمہ داری آن پڑی۔ پورا لاہور اور تمام تعلیمی ادارے ورہایشی علاقہ جات ایک اکائی تھی۔ اس دور میں بھی صفدر صاحب سے رہنمائی کے لئے رجوع کرتا رہا۔
مرکز جماعت میں صفدر صاحب کی ذمہ داری شعبہ نشرواشاعت میں جناب مولانا نعیم صدیقی مرحوم کے ساتھ بطور نائب ناظم لگائی گئی۔ مولانا نعیم صدیقی صاحب بہت بڑی علمی وادبی شخصیت تھے اور جماعت کی اعلیٰ قیادت میں ان کا نمایاں مقام تھا۔ وہ اپنے دفتر سے اخبارات کو خبریں، بیانات اور مضامین بھجوایا کرتے تھے۔
عموماً یہ شکایت ہوتی تھی کہ کئی اخبارات جماعت کی خبروں کے ساتھ انصاف کی بجائے تعصب کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ اخبارات میں ہر خبر اور بیان کو اس کی حیثیت کے مطابق اس کا حق ملنا چاہیے، مگر صحافت میں بھی ڈنڈی مارنے کا کلچر ہمیشہ سے رہا ہے اور آج بھی ہے، اگرچہ پہلے سے صورت حال کچھ بہتر ہوئی ہے۔
اس پیش رفت میں صفدر صاحب اور ان جیسے تعلقات عامہ کا ذوق رکھنے والے ساتھیوں کا بڑا حصہ ہے۔ ذرائع ابلاغ میں مخلص اور دیانت دار اہلِ قلم کی ایک تعداد ہمیشہ موجود رہی ہے۔ میں ان لوگوں کو ولی اللہ سمجھتا ہوں۔
البتہ ڈنڈی مارنے والوں کا اپنا مزاج ہوتا ہے۔ بعض لوگ نظریاتی طور پر کسی جانب جھکے ہوئے ہوتے ہیں جبکہ بعض اپنے مخصوص مفادات کی وجہ سے اپنے پیشے کا تقدس مجروح کر دیتے ہیں۔
اس بیماری کا علاج جماعت اسلامی جیسی تنظیمیں اس طرح نہیں کرسکتیں جس طرح بڑے بڑے سرمایہ داروں اور وڈیروں، حکمرانوں اور اہل اقتدارکی طرف سے لفافہ سکیم کے تحت کیا جاتا ہے۔ جماعت کے لئے تو واحد راستہ باہمی تعلقات اور ذاتی روابط تھا اور ہے۔
اس کے لئے اخباروں کے دفتروں کے چکر لگانا، رپورٹرز اور ادارتی عملے کے علاوہ مالکانِ اخبار سے قریبی ملاقاتوں اور کسی نہ کسی طرح جائز انداز میں ان کی دل جوئی کے ذریعے راستہ نکالنا ضروری تھا۔ صفدر صاحب کے مزاج اور میلان کے مطابق یہ فیلڈ ان کے لئے بالکل مناسب تھا۔ وہ تو کسی آدمی سے کبھی اجنبیت محسوس نہیں کرتے تھے۔ روکھے پن کا ایسے شیریں انداز میں جواب دیتے کہ ان کا مخاطب اگر آخری درجے کا ہٹ دھرم نہ ہوتا تو ندامت سے پانی پانی ہوجاتا۔ ہم نے دیکھا کہ جماعت سے چڑنے والے کئی اہلِ قلم صفدر صاحب کی پرکشش اور سحرانگیز شخصیت سے مسحور ہوگئے۔ مرحوم واقعی دلوں کو فتح کرنے کا ہنر خوب جانتے تھے۔
ہماری صحافت، تعلیمی ادارے اور ادبی تنظیمیں دائیں اور بائیں بازو، قدامت پسند اور آزاد خیال، پرواسلام اور اینٹی اسلام گروپوں میں تقسیم رہی ہیں۔
اس کے باوجود ہر طرح کی شخصیات سے صفدر صاحب کی نہ صرف واقفیت تھی، بلکہ مکمل بے تکلفی تھی۔ وہ رات گئے تک اخبارات کے دفاتر میں موجود عملے سے ملاقاتیں جاری رکھتے۔
جناب نعیم صدیقی مرحوم، صفدر صاحب کی کارکردگی، شعبے کے کام میں دل چسپی اور احساس ذمہ داری کی ہر مجلس میں تحسین فرمایا کرتے تھے۔ نعیم صاحب تخلیقی شخصیت تھے، جن کے قلم سے نظم ونثر ہر صنف میں معجزنما تحریریں اور کلام ظہور پذیر ہوتا رہتا تھا۔
انھوں نے نظمِ جماعت سے کہا کہ ان کو اپنے علمی کام کے لئے شعبے کی ذمہ داری سے فارغ کردیا جائے اور اس شعبے کی نظامت ان کے نائب صفدر علی چودھری صاحب کے سپرد کردی جائے۔
چنانچہ صفدر صاحب ناظم شعبہ کی حیثیت سے زیادہ اعتماد اور دھڑلّے سے میدان میں جُت گئے۔ یہ غالباً 1973ء کی بات ہے۔ یوں مرحوم نے سالہاسال اس ذمہ داری کو نبھایا۔ ملکی ہی نہیں، غیرملکی صحافیوں، خبررساں ایجنسیوں اور اخبارات ورسائل سے بھی راہ ورسم پیدا کی۔
جماعت کے کسی بھی رہنما کی پریس کانفرنس یا انٹرویو ہوتا تو صفدر صاحب کئی دن اس کی تیاری میں صرف کردیتے۔ ہر کام کو اچھے انداز میں سرانجام دینے کے قائل تھے۔ روابط کے لئے اومنی بسوں، رکشوں اور تانگوں پر سفر کرتے۔
جب ایک سیکنڈ ہینڈ موٹرسائیکل خریدنے کے قابل ہوئے تو پھر اپنی موٹر سائیکل پر ہر دم بھاگ دوڑ میں مصروف رہتے۔ بعد میں مرکز جماعت میں گاڑیوں کی سہولت بھی میسر آگئی اور کام میں کافی آسانی پیدا ہوگئی۔
بہت سے صحافی اور قلم کار ان کے مہمان ہوتے اور وہ حسب استطاعت سب کی تواضع اور مدارات کا اہتمام کرتے۔ جب مرکز جماعت منصورہ میں منتقل ہواتو ہمہ وقتی کارکنان کے لئے کچھ کوارٹر اور مکانات بھی تعمیر ہوگئے۔ اب صفدر صاحب کی رہایش نجف کالونی سے یہاں آگئی۔
مرکز جماعت منصورہ میں ایک خوب صورت مہمان خانہ بھی قائم ہوگیا اور صفدر صاحب کو یک گونہ اطمینان ہوا کہ دوسرے شہروں سے آنے والے صحافی حضرات اور علمی وادبی شخصیات کو آسانی سے مرکز میں ٹھہرانے اور ان کی خدمت کرنے کے مواقع موجود ہیں۔ صفدر صاحب کے گھر پر بھی ہر دور میں مہمانوں کی آمدورفت جاری رہتی تھی۔
ان مہمانوں میں بڑی تعداد طلبہ کی ہوتی تھی۔ صفدر صاحب کو اگرچہ تعلیم سے فارغ ہوئے مدت بیت چکی تھی، مگر تعلیمی اداروں کے ساتھ اب بھی ان کا قریبی رابطہ قائم تھا۔
اسلامی جمعیت طلبہ سے تعلق رکھنے والے شاید ہی کوئی رکن یا ذمہ دار ایسے ہوں جو صفدر صاحب کے بے تکلف اور قریبی دوستوں میں شامل نہ رہے ہوں۔ وہ ہر ایک کو بھائی کہہ کر پکارتے اور انھیں بھی ہر ایک صفدر بھائی کہہ کر خطاب کرتا تھا۔
راقم الحروف نے ہمیشہ صفدر صاحب کو اپنے بڑے بھائی کے روپ میں دیکھا۔ دورِ طالب علمی میں بارہا میری گرفتاریاں ہوئیں۔ ہر گرفتاری کے موقع پر تھانے، حوالات سے لے کر جیل اور کچہری تک صفدر صاحب کی سرپرستی حاصل رہی۔
بعد کے ادوار میں تو صفدر صاحب نے ایک انجمن والدین بھی تشکیل دے دی۔ طلبہ کی گرفتاریوں پر وہ اس انجمن کی طرف سے سڑکوں پر اور سرکاری دفاتر کے سامنے پرامن احتجاجی مظاہرہ منظم کیا کرتے تھے، جس میں یہ مطالبہ کیا جاتا تھا کہ طلبہ کو رہا کیا جائے۔ ایک مرتبہ جب میں اپنے بعض دیگر ساتھیوں کے ساتھ کیمپ جیل میں محبوس تھا تو جیل ہی میں عیدقربان آگئی۔
عید سے دو دن پہلے صفدر صاحب مولانا مودودیؒ کے بیٹے محمدفاروق مودودی کے ساتھ ہم سے ملاقات کے لئے آئے۔ داروغۂ جیل کے دفتر میں ان سے ملاقات ہوئی تو اپنے مخصوص مزاحیہ انداز میں کئی پھل جھڑیاں چھوڑیں۔
دورانِ ملاقات مجھ سے کہنے لگے کہ آج میں خود نہیں آیا بلکہ سیدمودودی کے ’’ہرکارے‘‘ کے طور پر حاضر ہوا ہوں۔ مولانا نے بطور گواہ محمد فاروق کو بھی میرے ساتھ بھیجا ہے تاکہ سند رہے۔ یہ صفدر صاحب کا اپنے معمول کے مطابق مزاحیہ فقرہ تھا جس سے ہم بہت محظوظ ہوئے۔
پھر فرمایا: ’’مولانا کا ارشاد ہے کہ عید کے دن تمھارا اور تمھارے سب ساتھیوں کا کھانا دونوں ٹائم میرے گھر سے آئے گا۔‘‘ مولانا کی رہایش اور مرکز جماعت 5۔ اے ذیلدار پارک اچھرہ، کیمپ جیل سے زیادہ دور نہیں تھی۔
عید کے دن صفدر صاحب حسبِ وعدہ کھانا لے کر تشریف لائے۔ ساتھ ہی فرمایا: ’’آپ لوگوں نے عید کی نماز پڑھی ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: ’’کیوں نہیں، ہم جیل میں پانچ وقتہ نمازیں باجماعت پڑھتے ہیں اور نمازِ جمعہ کا بھی اہتمام کرتے ہیں، عید کی نماز بہت اچھے انداز میں پڑھی ہے۔‘‘ کہنے لگے: ’’عیدالمبارک کے اصلی حق دار تو آپ لوگ ہیں۔
میں نے پہلے بھی آپ کو عید مبارک کہا تھا، مگر اب پھر کہتا ہوں اصلی عید مبارک۔‘‘ یہ کہہ کر اپنے معمول کے مطابق قہقہہ لگایا اور کہا: ’’اب اگلی عید بھی جیل میں نہ کرنا۔‘‘ میں نے کہا: ’’اگلی بقرہ عید تو ان شاء اللہ جیل سے باہر ہی کریں گے، البتہ آنے والی عیدالفطر جیل میں پڑھیں گے تاکہ یہ نصاب مکمل ہوجائے۔
عملاً ایسا ہی ہوا۔ عیدالفطر ساہیوال جیل میں آئی اور وہیں پڑھی گئی تھی۔ اس عید میں قیدیوں اور ملازمین کی بڑی تعداد نے ساہیوال جیل میں خاکسار کی امامت میں نماز ادا کی۔