پانی کا بلبلہ؟

     پانی کا بلبلہ؟
     پانی کا بلبلہ؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اب مولانا فضل الرحمٰن کو لے کر میڈیا نے سر پیٹنا شروع کر دیا ہے۔ ایک ہی سوال سننے کو مل رہا ہے کہ آیا وہ پی ٹی آئی کو وہ ایندھن دستیاب کردیں گے جس سے وہ عمران خان کے لئے سٹریٹ پاور کو متحرک کرنے کا تاثر دینے میں کامیاب ہو سکے۔ مولانا فضل الرحمٰن نے کچی گولیاں نہیں کھیلی ہوئیں  کہ آسانی سے پی ٹی آئی کے ہتھے چڑھ جائیں۔ وہ جانتے ہیں کہ انہیں عمران خان سے کئی حساب برابر کرنے ہیں اور اس بات سے کسے انکار ہو سکتا ہے کہ سیاستدان کا غصہ اونٹ کی طرح ہوتا ہے، اس کو اتارے بغیر دونوں آگے نہیں بڑھتے، اپنے دور اقتدار میں عمران خان نے جس طرح  مولانا کی گت بنائی تھی، اب حزب اختلاف میں مولانا اسی طرح عمران خان کی  بنارہے ہیں، بس طریقہ ذرا مختلف ہے۔

اپوزیشن کی اسلام آباد میں میٹنگ کو جس طرح سے ہوا ملی اس سے بھی لگ رہا تھا کہ پی ٹی آئی عوام کو باور کرانے میں کامیاب ہو جائے گی حکومت اس کا مینڈیٹ چرا کر اقتدار میں بیٹھی ہوئی ہے مگر وہاں بھی مولانا فضل الرحمٰن نے شرکت نہ کر کے اپنا موقف نمایاں کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ پی ٹی آئی علی الاعلان کہے کہ وہ کے پی میں انتخابی دھاندلی پر جوڈیشل کمیشن بنانے پر تیار ہے۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ پی ٹی آئی کے لئے مولانا کو نگلنا بھی مشکل ہے اور اگلنا بھی مشکل ہے۔وہ جانتی ہے کہ محمود خان اچکزئی کے پاس تانگے کی سواریوں جتنے بھی کارکن نہیں ہیں، اس لئے ان سے عوامی احتجا ج کے لئے مطلوبہ ایندھن کی توقع عبث ہے۔ 

پی ٹی آئی کو یہ دن اس لئے دیکھنا پڑ رہا ہے کہ پنجاب سے اسے خاطر خواہ ریسپانس نہیں ملا ہے کیونکہ پنجاب کے عوام نوٹ لے کر ووٹ دینے کا رواج نہیں رکھتے، ان کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا  کہ وہ پیسے لے کر ووٹ دیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈسکہ کی دھند سے لے کر 9مئی اور بعد 26نومبر تک پی ٹی آئی کو پنجاب سے مطلوبہ تعداد میں حامی میسر نہیں آسکے ۔ ایک وقت تھا جب ڈاکٹر یاسمین لبرٹی چوک میں کھاتے پیتے گھرانوں کی فیملیوں کو اکٹھا کرلیتی تھیں، اب تو وہ کچھ بھی دیکھنے کو نہیں ملتا ،اس کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ پی ٹی آئی ایک سو ایک مرتبہ بھی کے پی سے لوگ لے کر اسلام آباد آجائے، کچھ بدلنے کا نہیں ہے۔ ایسا ہی معاملہ پیپلز پارٹی کا ہے کہ سندھ بھر میں تو ذوالفقار علی بھٹو کا قافلہ خوب ٹھاٹھیں مارتا ہے، یہ الگ بات کہ ٹرینوں پر سوار جیالے بتاتے ہیں کہ انہیں پیسے دے کر لایا گیا ہے مگر جونہی ان کا قافلہ پنجاب کی حدود میں داخل ہوتا ہے،اس کا رنگ پھیکا پڑجاتا ہے۔ پنجاب میں اس وقت نون لیگ کی حکومت ہے اور اگر پنجاب کے لوگ عمران خان کے لئے سڑکوں پر نہیں آرہے  تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پنجاب عمران خان کے ساتھ نہیں ہے۔ جب مینار پاکستان کو بھرا گیا تھا تو اس کا سبب عمران خان نہیں بلکہ جنرل پاشا تھے جنھیں ملکی سیاست میں تبدیلی کا شوق چرایا تھا۔ تب بھی جس طرح آصف زرداری دھرنے کی بجائے جاتی عمرہ چلے گئے تھے، اگر 2018کے انتخابات میں بھی وہ ایسی دانش مندی کا مظاہرہ کرتے تو آج میڈیا چینلوں پر عمران خان کی جگہ بلاول بھٹو کا غلغلہ ہوتا۔

پی ٹی آئی نواز حلقے سمجھتے ہیں کہ مولانا کو پی ٹی آئی نے پھنسالیا ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ جا نہیں سکتے  اور پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑے ہونے کو تیار نہیں ہیں۔ ان حلقوں کی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے کہ وہ کسی بھی طور پر پی ٹی آئی کے اندر موجود کھوکھلے پن کو نمایاں ہوجانے کو ڈسکس کرنے کو تیار نہیں ہے۔ ان کا سارا زور اس پر ہے کہ عید کے بعد پی ٹی آئی نے عوامی تحریک شروع کردینی ہے اور خواہش یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن آمناوصدقنا کہتے ہوئے پی ٹی آئی کو اپنے مدرسوں کی پاور دے دیں گے، گویا کہ آجا کر ان حلقوں کی خواہش ہے کہ حکومت کے خلاف ایک ایسی عوامی تحریک بپا کر دی جائے جس سے عمران خان کی رہائی کے لئے اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ پر دباؤ ڈالا جا سکے۔ ایسا ہی ہے تو پی ٹی آئی شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری سے رابطہ کیوں نہیں کر لیتی جو مولانا کی طرح نوجوان طلباء کی ایک کثیر تعداد کو کسی بھی وقت سڑکوں پر لانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اس کا اندازہ صرف اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ صرف منہاج القرآن یونیورسٹی میں اس وقت لگ بھگ سترہ ہزار طلباء و طالبات زیر تعلیم ہیں اور وہاں عمران خان کا نام لیا جائے تو ہر طرف سے تالیوں کی گونج سنائی دینے لگتی ہے۔ ویسے بھی ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنے  اور پی ٹی آئی کے فالوئرز کو کزن قرار دیا ہوا ہے۔ ان کزنوں کی موجودگی میں جس طرح پی ٹی آئی مولانا فضل الرحمٰن کی چاپلوسی کرنے میں لگی ہوئی ہے، سمجھ سے باہر ہے۔ 

پی ٹی آئی کو عدلیہ کے اندر سے جو کھلی حمائت حاصل تھی، اس کو غیر موثر کردیا گیا ہے۔ آ جا کر اب چند ایک میڈیا چینلوں پر بیٹھے نوجوان اینکر پرسن ہی عمران خان کا نام جپتے نظر آتے ہیں، وگرنہ عوام میں تو اب عمران خان کے نام کی گونج دم توڑچکی ہے اور لوگوں کو سمجھ آنا شروع ہو گئی ہے کہ پی ٹی آئی پانی کا بلبلہ ہے جسے مولانا فضل الرحمٰن پھونکوں سے اڑاتے پھر رہے ہیں۔ 

مزید :

رائے -کالم -