عرق النساءکا ایک عجیب علاج!
کالم کا عنوان پڑھ کر قارئین یہ نہ سمجھیں کہ مَیں فوج کی ملازمت کے دوران یا اس سے ماقبل یا مابعد کبھی پیشہ ءطب و جراحت سے بھی منسلک رہا ہوں.... ایسی کوئی بات نہیں۔مَیں تو اس عنوان کے حوالے سے اپنی زندگی کا ایک عجیب و غریب واقعہ آپ کو سنانے جا رہا ہوں جو علم الیقیں نہیں، عین الیقیں کے زمرے میں آتا ہے۔یعنی یہ واقعہ جگ بیتی نہیں، ”ہَڈ بیتی“ ہے۔
اس سے پہلے کہ مَیں یہ آپ بیتی آپ کی نذر کروں، یہ بتانا چاہوں گا کہ اس واقعہ کی یاد کیسے آئی.... ہوا یہ کہ بریگیڈیئر محمد اقبال میرے دیرینہ دوستوں میں ہیں۔انہوں نے فرسٹ پنجاب کمانڈ کی اور پنجاب رجمنٹل سنٹرمردان کے کمانڈنٹ بھی رہے۔آج کل بعد از ریٹائرمنٹ راولپنڈی میں رہتے ہیں۔1970-71ءمیں ہم نے کراچی میں چھ ماہ کا ایک کورس اکٹھے کیاتھا۔ تب وہ کپتان تھے اور مَیں نیم لفٹین۔ان کے دو بیٹے ماشاءاللہ آج کل سٹاف کالج کررہے ہیں۔دونوں ہماری آنکھوں کے سامنے پلے بڑھے۔اپنے والد کی طرح وہ بھی ایس ایس جی کا تجربہ کرچکے ہیں۔میجر ارشد نے تو باقاعدہ فاٹا میں ایک آپریشن کے دوران جسم پر کئی زخم کھائے۔ لیکن خدا کا فضل و کرم شاملِ حال ہوا اور ارشد ایک سے زیادہ آپریشنوں کے بعد صحت یاب ہوگیا۔مَیں نے جب ارشد کا حال پوچھا تو ساتھ ہی دریافت کیا کہ اس کا سٹاف کالج کیسا جا رہا ہے؟.... بریگیڈیئر صاحب بولے: ”ارشد کو شدید Sciatica Painہو گئی تھی۔اس کا آپریشن ہوا، لیکن اب ماشاءاللہ چلنے پھرنے کے قابل ہے، لیکن از روئے عسکری ضوابط ہسپتال میں مقررہ مدت سے زیادہ گز ارنے کی وجہ سے اس کا سٹاف کالج رہ گیا ہے۔وہ اگلے برس پھر سے سٹاف کورس مکمل کرے گا“۔
بریگیڈیئر اقبال صاحب نے بیٹے کی اس بیماری اور آپریشن کا تفصیلی ذکر کیا تو مجھے اپنا وہ واقعہ یاد آ گیا جو میں قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔
یہ Sciatica Painجسے مشرقی اطبا عرق النسا کے نام سے پکارتے ہیں، ایک نہایت نامراد درد ہے۔کمر سے اٹھتا ہے اور دائیں یا بائیں ران سے ہوتا ہوا ٹانگ اور تخنے تک چلا جاتا ہے۔اس کا مریض چار پائی کے ساتھ لگ جاتا ہے اور ہلنے جلنے کے قابل نہیں رہتا۔ذرا سا بدن اِدھر اُدھر ہو جائے تو غضب کا درد ہوتا ہے جو بعض اوقات ناقابل برداشت ہو جاتا ہے۔اس کی بہت سی وجوہات ہیں اور اس کے علاج بھی بہت سے ہیں، جن میں آپریشن بھی ایک ہے۔
ڈاکٹر آپریشن کرکے اس رگ کو Freeکردیتے ہیں یا اس غدود کو کاٹ کر نکال دیتے ہیں جو بالعموم مہرہ نمبر6اور7کے ساتھ جڑی ہوتی ہے۔ایک غدود کی طرح کی یہ گلٹی مہرے کی رگ کو جب دباتی ہے تو درد سیدھا ٹانگوں تک جاتا ہے جو شدید تکلیف کا باعث بنتا ہے۔چونکہ مجھے یہ درد ہو چکا ہے، اس لئے مجھے اندازہ ہے کہ اس میں درد کی شدت اور اس کا کیف و کم کیا ہوتا ہے۔یہ ”جس تن لا گے سو تَن جانے“ والی بات ہے۔اللہ کریم سب کو اس ”عرقِ النسا“ سے محفوظ رکھے.... مَیں نے اکثر اطبا صاحبان سے پوچھا ہے کہ عرق النساءکو یہ نام کس وجہ سے دیا جاتا ہے۔لغوی اعتبار سے عرق کا معنی ”رگ“ ہے اور نساءکا معنی عورت.... یعنی ”عورتوں کی رگ“ یا عورتوںکی رگ والا مرض....لیکن کسی حکیم صاحب سے اب تک اس سوال کا کوئی شافی جواب نہیں مل سکا کہ اس ظالم درد کو ”عورتوںکا درد“ کیوں کہا جاتا ہے۔ دردِ نسواں اگر کسی کو ہو بھی تو وہ دل میں یا جگر میں ہوتا ہوگا،ٹانگوں، ٹخنوں وغیرہ میں اس کا کیا کام؟.... اگر کوئی قاری اس کی وضاحت فرما سکیں تو ان کا ممنون ہوں گا۔
میں اپنے عرق النساءکی بات کررہا تھا.... جس وقت کا یہ واقعہ ہے اس وقت میری عمر 20,19برس کے لگ بھگ ہو گی۔ایک روز شام کو ہاکی گراﺅنڈ سے فارغ ہو کر گھر لوٹا تو حسبِ عادت گرم پانی سے غسل کیا اور تولیہ کررہا تھا کہ ایک دم کمر میں درد اٹھا اور سیدھا ہونے کی تاب نہ رہی۔بڑی ہی مشکل سے چھوٹے بھائی کو آواز دی۔اتنے میں والدہ بھی متوجہ ہوگئیں۔مَیں بمشکل جا کر بستر پر لیٹ سکا۔لیکن بستر تک جانا اور بیڈ پر کمر سیدھی کرنا گویا پل صراط عبور کرنا ہوگیا۔
رات تو جیسے تیسے گزری، صبح ہوئی تو عیادت کے لئے آنے والے اور والیوں کا تانتا بندھ گیا۔ان کے تجویز کردہ ٹوٹکے تو ناگفتنی کے علاوہ نا نوشتنی بھی تھے....ایک پھوپھی صاحبہ نے بڑے یقین سے فرمایا: ” جیلانی کو چُک پڑ گئی ہے۔ فلاں پہلوان کو بلا لاﺅ“ والد مرحوم نے سنا تو پریشان ہو گئے۔لیکن میرا دل رکھنے کے لئے کہا: ”بیٹا! یہ ”چُک“ کوئی زیادہ بڑا مرض نہیں ہوتا۔بس ایک دو دن کے بعد خود ہی ٹھیک ہو جائے گی“۔لیکن جب پانچ چھ روز گزر گئے اور ”چُک“ نہ نکل سکی تو ”ڈبہ حکیم“ کو بلایا گیا۔ (ان کا کوئی تعلق کسی ”ڈبہ پیر“ سے نہ تھا)پاک پتن شہر میں وہ ایک نہایت فاضل طب و جراحت حکیم صاحب شمار کئے جاتے تھے۔ان کے چہرے اور بدن پر چونکہ برص(پھل بہری) کے بڑے بڑے ”ڈب کھڑبے“ سے داغ تھے،اس وجہ سے ”ڈبہ حکیم“کے نام سے مشہور ہو گئے۔وطنِ مالوف ان کا فیروز پور کی تحصیل مکتسر تھی۔وہ تشریف لائے۔اس وقت ان کی تقریباً65،70برس ہوگی.... انہوں نے آکر ساری ”حقیقت“ سنی تو فرمایا ”یہ چُک وُک نہیں، عرق النساءہے۔میں دوائی بھیجتا ہوں۔ انشاءاللہ دو چار دن میں آرام آ جائے گا“.... ان کی ایک مشہور دوائی کا نام ”یاقوتی“ تھا جو بڑی خوشبودار اور میٹھی ہوتی تھی اور ہر عمرکے مریض اس کو بڑے شوق سے کھایا کرتے تھے۔
لیکن تین دن کے بعد جب یاقوتی اور دوسری ادویات نے کچھ اثر نہ کیا تو ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر کو زحمت دی گئی۔ریلوے ہسپتال ، پاک پتن کے ان ڈاکٹر صاحب کی بہت تعریف سنی گئی تھی۔ انہیں بلایا اور دکھایا گیا۔ان کی تشخیص بھی یہی تھی کہ یہ Sciatica Painہے اور اس کا علاج سرجری ہے۔
اسی کشمکش میں دو ہفتے گزر گئے۔والد لاہور لے جانے کی تیاریاں کرنے لگے۔اسی روز دوپہر کو ابا جی کے ایک دوست تشریف لائے اور انہوں نے ایک ایسا نسخہ تجویز کیا جس کو سن کر میں زور دار قہقہہ لگانا چاہتا تھا ،لیکن صرف مسکرا کر رہ گیا....اس مرض میں ہلکی مسکراہٹ کی ”حد“ عبور کرنے سے بھی دور ہوتا ہے۔
ان بزرگ نے والد صاحب کو بتایا کہ ”فلاں محلے میں فلاں جگہ ایک حویلی ہے۔ بیٹے کو وہاں لے جائیں اور اس حویلی کی بیرونی دیوار سے سات بار بیٹے کی کمر کو رگڑیں اور پھر خدا کی قدرت کا تماشا دیکھیں“۔
میں بچپن ہی سے اس قسم کے توہمات ،لغویات اور ٹونے ٹوٹکوں کا از حد مخالف تھا۔مجھے اس بزرگ کی باتیں سن کر ایک کراہت سے ہونے لگی....پھر وہ اور والد صاحب دوسرے کمرے میں جا کر باہمی مشورہ کرنے لگے۔آدھ گھنٹے کے بعد والد صاحب میرے کمرے میں آئے اور کہا : ”بیٹا، کل تو ہم لاہور جا ہی رہے ہیں۔میں نے فلاں فلاں سرجن سے وقت لے لیا ہے۔لیکن اگر بھائی صاحب (بزرگ) کی بات مان لی جائے تو کیا ہرج ہے؟“
وہ شائد میرے لئے کوئی بابرکت گھڑی تھی۔ مَیں چپ ہوگیا....لیکن کہا کہ ”جب رات ہوگی تو لے جائیں۔دن کو روشنی میں لوگ دیوار سے کمر رگڑتے دیکھ کر مجھے کیا کہیں گے؟....میں تماشا بننا نہیں چاہتا“۔
چنانچہ والد صاحب نے میری اس درخواست سے اتفاق کیا۔رات کے شائد بارہ بجے ہوں گے۔چار آدمیوں نے میری چار پائی اٹھائی اور چل نکلے۔وہ بزرگ بھی ساتھ تھے۔ہمارا گھر محلہ بدردیوان میں تھا جو پاک پتن کی سب سے اونچی جگہ پر ہے۔اس وقت آدھا پاک پتن پہاڑی پر بستا تھا اور آدھا پہاڑی کے دامن میں چاروں طرف پھیلا ہوا تھا۔زیریں علاقے کو ہم لوگ ”ہٹھاڑ“ بولتے تھے اور جہاں ہمارا گھر تھا اس کو ”اُتاڑ“ کہا جاتا تھا۔حویلی کی وہ دیوار جہاں ہم نے جانا تھا، ہمارے گھر سے کوئی ایک فرلانگ کے فاصلے پر ہوگی۔لیکن مجھے یاد ہے گلیوں سے ہوتے ہوئے ایک فرلانگ کا وہ سفر جو مَیں نے چارپائی پر پڑے پڑے طے کیا، ایک میل سے بھی زیادہ لگا....۔خدا خدا کرکے وہ دیوار آ گئی۔
دیوار بوسیدہ قسم کی تھی۔چھوٹی اینٹ کی چنائی کی ہوئی تھی اور جگہ جگہ سے اینٹیں اِدھر اُدھر کو کھسکی ہوئی تھیں۔میرا خیال تھا کہ دیوار ہموار ہوگی، لیکن اس کی ناہمواری عجیب طرح کے خیالات کو جنم دینے لگی،مثلاً یہ کہ اس اونچی نیچی دیوار سے کمر کو کیسے رگڑا جا سکتا ہے اور اگر کوئی اینٹ نیچے آ گری تو پاﺅں زخمی ہو جائیں گے۔وغیرہ وغیرہ....
اکتوبر کا مہینہ تھا۔رات چپ تھی اور وہ گلی جس میں وہ دیوار تھی،پاک پتن کے رحموں دروازے سے 150گز پیچھے واقع تھی.... بڑی مشکل سے مجھے بازوﺅں اور کمر سے پکڑ کر اٹھایا گیا اور دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا۔
وہ بزرگ جو میرے لئے رحمت کا فرشتہ بن کر آئے تھے، وہ بھی ساتھ تھے۔ انہوں نے ایک بازو سے پکڑا اور دوسرا بازو والد صاحب نے....۔باقی ”کہاروں“ نے بھی اب یاد نہیں کہ کہاں کہاں سے پکڑا۔ان بزرگ کی ہدایات کے مطابق دو آدمیوں نے کمر کے نچلے حصے کو دبا کر رکھا اور ”رگڑا“ شروع ہوگیا....-
دیوار کافی اونچی تھی۔اس کا طول بھی 20،30فٹ ہوگا۔ ”کمر رگڑنے“ والا حصہ شائد آٹھ دس فٹ طول کا تھا۔پہلے دو چکروں میں تو میرے پاﺅں زمین پر نہ لگ سکے۔تیسرے چکر میں آہستہ آہستہ زمین پر پاﺅں ٹکانے لگا۔جب سات چکر مکمل ہوئے تو یوں محسوس ہوا، جیسے مجھے لوگوں نے بازوﺅں سے زبردستی سے پکڑا ہوا ہے۔مَیں نے والد صاحب سے کہا: ”ابا جی! آپ مجھے چھوڑ دیں.... مَیں کھڑا ہو سکتا ہوں“۔یہ سن کر ان کے آنسو نکل آئے، لیکن وہ چپ رہے....
کیا آپ باور کریں گے کہ مَیں اپنے پاﺅں پر چل کر گھر واپس آیا۔
معلوم ہوا کہ یہ دیوار اس ہندو برہن کے اسلاف کی ملکیت ایک حویلی کی تھی جو حضرت بابا فرید گنج شکرؒ کے عرس پر دیوان صاحب (گدی نشینِ درگاہ)کی ڈولی کے آگے آگے گھنٹی بجاتا چلتا تھا۔پاکستان بننے کے بعد بھی ہندو پنڈتوں کا وہ خاندان پاک پتن ہی میں مقیم رہا۔ آج بھی حسنِ اتفاق سے ذی الحج کی 27تاریخ ہے اور بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ کا عرس مبارک شروع ہے۔ 25ذی الحج سے لے کر 10محرم الحرام تک یہ عرس جاری رہتا ہے۔یکم محرم تک دیوان صاحب سماع پر آتے ہیں ۔ ان کی رہائش گاہ سے بابا فریدؒ کے گیٹ نمبر3تک کا فاصلہ شائد 50گز سے زیادہ نہیں ہوگا۔اس راستے پر اس برہمن خاندان کا ایک فرد گدی نشین کی ڈولی کے آگے آگے گھڑیال بجاتا ہوا چلتا تھا۔....(اب معلوم نہیں، یہ رسم /روائت موجود ہے یا ختم ہوگئی)عرق النساءکے علاج کے علاوہ بھی شائد پنڈت جی کے بانگِ درا کی توجیہہ اور بھی تھی جو اب یاد نہیں آ رہی۔
سوچتا ہوں کہ دعا اور دوا میں کتنا فرق ہوتا ہے....مجھے نہیں معلوم ڈاکٹر اور حکیم صاحبان دیوار سے کمر رگڑنے کے اس واقعہ کی کوئی طبی توجیہہ بھی کر سکیں گے یا نہیں۔زیادہ سے زیادہ یہی کہا جا سکتا ہے کہ دیوار کی اینٹوں کی ناہمواری شائد کمر کے کسی حصے سے ٹکرا کر اس غدود کو الگ کر دیتی ہوگی جو ایلو پیتھی کے سرجن، آپریشن کرکے نکال کر باہر پھینکتے یا الگ کر دیتے ہیں! واللہ اعلم!! ٭