قائداعظم یہ مقدمہ کب جیتیں گے
یوں تو ہم قائداعظمؒ کی یاد میں کسی تقریب میں ہم ان کے محاسن نے خوبیاں اور اوصاف گنواتے ہوئے نہیں تھکتے۔ہر محفل میں ہم قائداعظمؒ کی عظمت کے ترانے گاتے اور اپنی بساط کے مطابق انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں،مگر قائداعظمؒ کے فرمودات پر عمل کرنے اور اپنے محبوب قائد کے نقش قدم پر چلنے کی ہم کم ہی کوشش کرتے ہیں۔
قائداعظمؒ نے تحریک پاکستان کی جنگ لڑی تھی اور قیام پاکستان کا مقدمہ اپنے دلائل، غیر معمولی تدبر و بصیرت، اپنے یقین محکم اور عمل پیہم سے جیت کر دکھایا تھا۔قائداعظم ؒ اُردو کو پاکستان کی قومی زبان بنانے کے بعد وکیل تھے،مگر یہ مقدمہ ابھی جیتنا باقی ہے۔ آئین میں پاکستان کی قومی زبان تو اُردو ہی تحریر کی گئی ہے،لیکن اصل بات یہ ہے کہ عملی طور پر اُردو کب پاکستان کی سرکاری اور دفتری زبان بن پائے گی۔
یہاں مَیں یہ وضاحت کردوں کہ قائداعظم ؒ نے خود سے کوئی حکم یا فیصلہ اُردو زبان کے لئے نہیں کیا تھا۔قائداعظم ؒ ایک دستور پسند شخصیت تھے اور وہ دستور اور ضابطوں کا دِل کی گہرائیوں سے احترام کرتے تھے۔قائداعظم ؒ نے قیام پاکستان کی جنگ بھی اپنی دستور پسندی اور قانون و آئین پر مہارت کی بنیاد پر جیتی تھی۔ قائداعظم ؒ نے جب اُردو کو قومی اسمبلی بنانے کا اعلان کیا تھا تو اُس کے پیچھے دستور ساز اسمبلی کی منظوری کی طاقت تھی اور دستور ساز اسمبلی میں مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے ارکان نے اُردو کی بھرپور حمایت کی تھی۔ اگر دستور ساز اسمبلی اُردو کو قومی زبان بنانے کی حمایت میں فیصلہ نہ کرتی تو قائداعظمؒ کبھی ڈھاکہ جا کر اُردو کو واحد قومی زبان بنانے کا اعلان نہ کرتے۔پاکستان میں تمام خطوں اور علاقوں میں اُردو واحد زبان تھی اور ہے جو سمجھی، بولی اور پڑھی جاتی ہے، بلکہ پورے ہندوستان میں بھی اُُردو بولی اور سمجھی جانے والی زبان ہے اِس لئے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا اُردو کے حق میں فیصلہ دلائل و براہین اور منطقی اعتبار سے درست تھا۔
دستور ساز اسمبلی میں مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک ہندو ممبر نے بنگالی کو پاکستان کی قومی زبان بنانے کی تحریک پیش کی تھی،لیکن اس تحریک کو مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے دستور اسمبلی کے ارکان کی اکثریت نے مسترد کر دیا تھا۔مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے اور بنگالی قوم کے مقبول ترین لیڈر حسین شہید سہروردی(سابق وزیراعظم پاکستان) نے قراردادِ پاکستان پیش کرنے والے مولوی اے کے فضل الحق قومی اسمبلی کے ایک نامور سپیکر مولوی تمیز الدین اور قائداعظمؒ کے بعد مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والی جس شخصیت خواجہ ناظم الدین نے گورنر جنرل کا عہدہ سنبھالا تھا وہ سب اُردو زبان کو قومی زبان بنانے کی حمایت میں تھے۔ کتنے دُکھ اور افسوس کا مقام ہے کہ مشرقی پاکستان کے نامور سیاست دانوں نے تو اپنی زبان بنگالی کے بجائے اُردو کو قومی زبان بنائے جانے کے حق میں اپنا فیصلہ دیا،لیکن ہم پاکستان کے قیام کے72سال بعد بھی اُردوکو قومی زبان بنانے کے عملی تقاضوں کو پورا نہیں کر سکے۔ اللہ تعالیٰ قائداعظمؒ کی زندگی میں مزید چند سال کی مہلت دیتا تو اُردو کب کی پاکستان کی سرکاری اور دفتری زبان بن چکی ہوتی۔ قائداعظمؒ اللہ کو پیارے ہو گئے۔
ان کے بعد یہ ہماری قومی ذمہ داری تھی کہ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے قائداعظمؒ کی صدارت میں اُردو کو قومی زبان بنانے کا جو فیصلہ کیا تھا، اس پر ہم عمل کرواتے۔اگر قائداعظمؒ کے فیصلوں کا احترام نہیں کرتے تو پھر ان کی زبانی تعریف و توصیف کا کیا فائدہ۔پاکستان کا معرضِ وجود میں آنا قائداعظمؒ کا غیر معمولی کارنامہ تھا۔ تحریک پاکستان کی کامیابی میں اُردو زبان کا بھی کلیدی کردار تھا،لیکن یہ ہماری قومی تاریخ کا ایک المناک باب ہے کہ ہم نے اپنے ہی ملک میں اپنی قومی زبان سے انصاف نہیں کیا اور اس کے عملی نقصانات بھی خود پاکستانی قوم کو ہی بھگتنا پڑے۔ قائداعظمؒ قیام پاکستان کے مطالبہ کی طرح اُردو زبان کے بھی وکیل تھے۔اُردو کے حق میں قائداعظمؒ کے مضبوط دلائل کے مقابل کوئی بھی ٹھہر نہیں پایا تھا،لیکن سوال یہ ہے کہ قائداعظمؒ کے اس مقدمہ میں کامیابی کی راہ میں رکاوٹ کون ہے۔
کب ہماری غلامانہ ذہنیت بدلے گی، کب ہمارے فکرو نظر اور سوچ آزاد ہو گی، کب ہمارا احساس کمتری ختم ہو گا اور کب ہماری یہ سوچ تبدیل ہو گی کہ اعلیٰ سرکاری ملازمتوں تک رسائی، ترقی و خوشحالی کے مواقع اور سماجی حیثیت و مرتبہ میں اضافہ صرف انگریزی زبان سے ممکن ہے،جس زبان کو ہمارے ملک کو اسبی بلکہ90فیصد آبادی صحیح طرح سے سمجھتی یا بول نہیں سکتی، اس زبان کو ہماری سرکاری اور ذریعہ ئ تعلیم کی زبان بنائے رکھنے پر اصرار کیا، ایک بہت بڑی حماقت نہیں۔قومی زبان کو اگر ہم اپنے معاشرے،تعلیمی اداروں، عدالتوں اور سرکاری دفاتر میں اس کا جائز مقام نہیں دیں گے تو پھر اُردو کی قدرو منزلت اور کون کرے گا۔ ہمیں انگریزی زبان ضرور سیکھنی چاہئے اور اس پر عبور بھی حاصل کرنا چاہئے،لیکن ہمیں اپنی قومی زبان کو قربان نہیں کر دینا چاہئے۔
قومی زبان کا حق اُسی صورت میں ادا ہو سکتا ہے، جب ہی زبان عملی طور پر سرکاری اداروں میں رائج ہو گی،جب ہمارا ذریعہ تعلیم اُردو ہو گا اور جب ہمارا نام نہاد اونچا طبقہ اُردو زبان کو پڑھنا اور لکھنا معیوب نہیں سمجھے گا۔اُردو نہ صرف ہماری قومی زبان ہے،بلکہ ہماری تہذیب اور کلچر ایک توانا نشان بھی ہے۔اُردو ایک عالمی زبان بھی ہے۔دُنیا بھرمیں سمجھی اور بولی جانے والی زبانوں میں انگریزی اور چینی کے بعد تیسری بڑی زبان اُردو ہے۔ جیسا کہ مَیں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ اُردو زبان تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کا ایک بہت بڑا حوالہ بھی ہے۔اگر یہ زبان قیام پاکستان کی جدوجہد کا اہم حوالہ نہ ہوتی تو بانی ئ پاکستان کبھی بھی21مارچ1948ء کو ڈھاکہ میں عوام سے خطاب کرتے ہوئے یہ نہ فرماتے کہ ”مَیں آپ کو صاف بتا دوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اُردو ہو گی اور کوئی دوسری زبان نہی۔ایک مشترکہ سرکاری زبان کے بغیر کوئی قوم نہ تو مضبوط بنیادوں پر متحد و یکجا رہ سکتی ہے اور نہ ہی بحیثیت ایک قوم اپنا کردار ادا کر سکتی ہے“۔
قائداعظمؒ کے اس ارشاد کی روشنی میں ہمیں ابتدا سے لے کر اعلیٰ درجوں تک اُردو کو عملی طور پر نافذ کرنا چاہئے۔اُردو کی ترقی و ترویج کی راہ میں انگریزی زبان اور انگریزی کی محافظ بیورو کریسی کو رکاوٹ نہیں بننے دینا چاہئے۔اُردو ہماری قومی زبان ہے۔اس کو ہمارے لئے کمتری کا نہیں،بلکہ برتری اور تفاخر کے احساس کا باعث ہونا چاہئے۔ اِس لئے اب ہمارے لئے سرکاری اداروں اور سکولوں میں قومی زبان کو رائج کرنے میں مزید تاخیر ناقابل ِ برداشت ہونی چاہئے۔جب تک ہمارے سکولوں، کالجز اور یونیورسٹیوں میں اُردو میڈیم کا رائج نہیں ہوتا ہمیں چین سے نہیں بیٹھنا چاہئے۔اسی طرح جب تک سرکاری دفاتر، بنکوں اور عدالتوں میں پوری طرح اُردو نافذ نہیں ہوتی اُس تک وقت ملک کے آئینی تقاضے بھی پورے نہیں ہوتے۔