لائی حیات آئے، قضا لے چلی، چلے

لائی حیات آئے، قضا لے چلی، چلے
لائی حیات آئے، قضا لے چلی، چلے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


موت سے کسی کو بھی رُست گاری نہیں۔ عبدالقادر حسن بھی اپنی باری آنے پر ہم سب کو سوگوار چھوڑ کر اگلے جہان چلے گئے۔عبدالقادر حسن نے1954ء میں صحافت کا آغاز کیا اور تقریباً 66سال وہ عملی صحافت سے وابستہ رہے۔ انہوں نے پروف ریڈر اور سب ایڈیٹر سے اپنی صحافتی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور پھر جلد ہی کالم نویسی کے میدان میں آ گئے۔ کالم نویسی ہی وہ شعبہ ہے جس میں عبدالقادر حسن کو بڑی کامیابی حاصل ہوئی اور صحافت میں انہیں بڑی عزت اور مقام حاصل ہُوا۔


عبدالقادر حسن کی تعلیم گاؤں کے ایک پرائمری سکول تک محدود تھی۔ پھر وہ اسلامی تعلیمات کے حصول کے لئے ایک دینی مدرسہ میں چلے گئے اور جدید علوم سیکھنے کے لئے وہ پرائیویٹ طور پر کوشاں رہے۔سکول یا کالج کے کسی بھی درجے کی سند اُن کے پاس نہ تھی،لیکن صحافت میں انہیں اتنا عروج ملا کہ وہ روزنامہ ”امروز“ کے چیف ایڈیٹر بھی رہے۔ اس طرح انہیں چراغ حسن حسرت اور احمد ندیم قاسمی کی جانشینی کا رتبہ حاصل ہُوا۔یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ ایک کارکن صحافی جس کو سکول وغیرہ میں پڑھنے کا زیادہ موقع بھی نہ ملا،جس کے پاس میٹرک کی سند بھی نہ ہو وہ اپنی محنت، لگن اور مستقل مزاجی کی بدولت اتنا بڑا اعزاز حاصل کر لے کہ روزنامہ ”امروز“ جیسے بڑے اخبار کا تقریباً پانچ سال تک چیف ایڈیٹر رہے اور ایسے سینئر صحافی جن کا شمار صحافت کے اساتذہ میں ہو وہ عبدالقادر حسن کے ماتحت کام کرتے رہے ہوں۔
عبدالقادر حسن اپنی دیانت داری اور اصول پسندی کے باعث تمام صحافتی اور سیاسی حلقوں میں بڑی عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔انہوں نے اپنی طویل ترین صحافتی زندگی میں روپے پیسے کے حصول کو کبھی اپنا مقصد نہیں بنایا،اِس لئے وہ اپنی زندگی کی آخری سانس تک اپنے ضمیر کے سامنے کبھی شرمندہ نہیں ہوئے۔انہوں نے کبھی اپنے قلم سے ایسی تحریر نہیں لکھی، جو اُن کی امنگوں، آرزوؤں اور ضمیر کے خلاف ہو۔وہ ایک صحافی کے طور پر قومی معاملات پر ہمیشہ وہی لکھتے تھے،جو اُن کی دیانت دارانہ رائے میں درست ہوتا تھا۔ کسی کو خوش کرنے یا کسی سے کوئی مفاد حاصل کرنے کے لئے وہ رائے تبدیل کرنے پر کبھی آمادہ نہ ہوتے، جو محسوس کرتے اُس کا برملا اظہار کرتے اور کبھی کسی خوف یا لالچ سے متاثر نہ ہوتے۔


عبدالقادر حسن کے کالم زیادہ تر سنجیدہ موضوعات پر ہوتے،مگر ان کے کالموں میں ایک خاص طرز کی شگفتگی ہوتی اِس لئے ان کے کالم قارئین میں بڑے مقبول تھے۔ وہ کبھی تفریح طبع کے لئے نہیں لکھتے تھے،بلکہ اُن کے کالموں کا ایک خاص مقصد ہوتا تھا اور وہ قوم کی ہمیشہ صحیح سمت میں رہنمائی کرتے۔سیاست کے حوالے سے اُن کی معلومات بہت زیادہ تھیں۔ پاکستان کے بڑے سیاست دانوں سے اُن کے گہرے مراسم تھے۔ اِس لئے ان کی معلومات کے ذرائع بہت وسیع تھے۔ سیاست دانوں سے ذاتی تعلقات ان کے صحافتی فرائض پر کبھی اثر انداز نہیں ہوئے۔ صحافت میں وہ اپنی غیر جانبداری کو ہمیشہ برقرار رکھتے۔وہ اپنے نظریات اور نقطہ ئ  نظر کا اظہار بڑے مؤثر  پیرائے میں کرتے اور اس بات کی پروا کم ہی کرتے کہ اُن کی رائے سے اُن کا کون سا دوست سیاست دان ناراض ہوتا ہے یا خوش۔ ان کی اس خوبی کی وجہ سے سیاست دان اُن سے کم ہی ناراض ہوتے، کیونکہ سیاسی رہنماؤں کو یہ علم تھا کہ عبدالقادر حسن جو لکھتے ہیں اُن میں معلومات کی غلطی کا تو امکان ہو سکتا ہے،لیکن ان کی کسی تحریر میں شعوری بددیانتی کا عنصر شامل نہیں ہو گا۔ سیاست دان طبقہ اِس لئے بھی عبدالقادر حسن کے کالم ”غیر سیاسی باتیں“ کو پسند کرتا تھا،کیونکہ  ہمارے ملک میں فوجی حکومتوں کے باعث جب صحافت اور سیاست پر سخت پابندیاں عائد ہو جاتیں تو اُن ادوار میں بھی قوم کی رہنمائی کے لئے عبدالقادر حسن بڑی ہنر مندی کے ساتھ سیاسی موضوعات پر لکھتے۔ان کا لکھنے کا ڈھب ایسا ہوتا کہ وہ اپنے دِل کی بات بھی کہہ جاتے، مگر فوجی حکومت میں عائد کی گئی پابندیاں ان کی راہ میں حائل نہ ہو سکتیں۔

آخر میں مَیں عبدالقادر حسن کی زبان میں ملک کے ایک اہم ترین مسئلے پر تمام سیاست دانوں کی توجہ دلانا چاہتا ہوں۔وہ کہا کرتے تھے کہ قومی معاملات کو سلجھانے کے بجائے ہمارے سیاست دان اپنے غلط طور طریقوں سے اکثر اس مقام پر پہنچا دیتے ہیں کہ ملک کو جمہوریت کی پٹڑی سے اُتار کر مارشل لاء کی طرف دکھیل دیا جاتا ہے اور جب ملک پر مارشل لاء مسلط ہوجاتا ہے تو ملک کے مسائل و مصائب میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ سیاست دانوں کو ماضی کے تلخ تجربات سے سبق سیکھنا چاہئے اور ملک میں پانچویں مارشل لاء کا راستہ ہموار نہیں کرنا چاہئے۔ تجربہ کار اور باشعور سیاست دانوں کو قومی معاملات اور مسائل کے حل کے لئے باہمی مشاورت سے ایسا راستہ نکالنا چاہئے کہ منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کا کسی کو جواز نہ ملے۔ موجودہ حکومت قومی مسائل حل کرنے میں ناکام ہو چکی ہے،لیکن تبدیلی ئ حکومت کے لئے احتیاط کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے اور ایسی حکمت ِ عملی اختیار کی جائے کہ ووٹ کے ذریعے ہی تبدیلی آئے۔ کیا سیاست دان طبقے سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ عبدالقادر حسن کی اس صائب رائے کو نظر انداز نہ کرے اور ملک میں ایسے حالات پیدا نہ کئے جائیں کہ اقتدار جمہوری قوتوں کے ہاتھوں سے ہی نکل جائے۔ اللہ تعالیٰ ہم پر رحم فرمائے۔یہ ملک اب مزید کسی طالع آزما کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

مزید :

رائے -کالم -