جب اللہ کا دربارِ عدالت لگے گا
’’کفر پر تو معاشرے کا نظام قائم رہ سکتا ہے، لیکن ظلم و زیادتی کی بنیاد پر کوئی نظامِ حکومت قائم نہیں رہ سکتا‘‘۔۔۔ حضرت علیؓ کا یہ قول صدیوں سے اپنی صداقت ثابت کر رہا ہے۔وزیراعظم عمران خان بھی اپنی تقاریر میں اکثر اقتدار میں آنے سے پہلے حضرت علیؓ کا یہ قول پیش کیا کرتے تھے،لیکن ساہیوال کے سانحہ پر شاید عمران خان اور ان کے وزراء کو حضرت علیؓ کا یہ فرمان بھول گیا ہے۔
خلیل فیملی اور ذیشان کا بہیمانہ قتل اور اس پر خلقِ خدا کی آہ و بکا سے عرش الٰہی بھی ہل چکا ہے، مگر ایوانِ اقتدار میں بیٹھے ہوئے حکمران ابھی تک یہ سمجھ نہیں رہے کہ ساہیوال کے سانحہ کے مظلوم خاندانوں کے ساتھ اگر انصاف نہ ہوا تو محکمہ پولیس سے تعلق رکھنے والے قاتلوں کے ساتھ ساتھ روزِ محشر اللہ تعالیٰ کے حضور پاکستان کے موجودہ حکمران بھی مجرموں کے کٹہرے میں کھڑے ہوں گے۔
اصل سوال یہ نہیں ہے کہ حکمرانوں کی قائم کردہ جے آئی ٹی کی تحقیقات کے بعد کیا سامنے آتا ہے اور جے آئی ٹی کے ذریعے کن طاقتور اور بااثر مجرموں کو بچانے کی کوشش کی جاتی ہے؟اصل سوال یہ ہے کہ کیا وزیراعظم عمران خان اپنے دورِ اقتدار میں ہونے والے ظلم اور درندگی کے اتنے بڑے واقعہ کے تمام ذمہ داران کو عدلیہ کے ذریعے سزا دلوانے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں؟
مَیں یہ نہیں سمجھتا کہ سانحہ ساہیوال کے براہِ راست ذمہ دار وزیراعظم عمران خان یا ان کے ’’پسندیدہ‘‘ وزیراعلیٰ عثمان بزدار ہیں،لیکن سانحہ ساہیوال کے بااثر مجرموں کی تحقیق و تفتیش تو حکومتی اداروں ہی کی ذمہ داری ہے اور یہ ذمہ داری اس طرح سے ادا کی جانی چاہئے کہ مجرموں کے خلاف کوئی شہادت ضائع نہ ہو جائے اور تفتیش کی خامیاں مجرموں کے کیفر کردار تک پہنچنے کی راہ میں رکاوٹ نہ بن جائیں۔
عمران خان اگر خود کو خوفِ خدا اور دردِ دِل رکھنے والا حکمران خیال کرتے ہیں تو پھر انہیں حضرت علیؓ کا یہ فرمان بھی اپنے پیشِ نظر رکھنا چاہئے کہ جو کوئی بھی خدا کے بندوں پر ظلم کرتا ہے تو خدا خود مظلوم بندوں کی طرف سے ظالم کا حریف بن جاتا ہے اور خدا جس کا حریف بن جائے اسے پھر زمین پر کہیں بھی پناہ نہیں ملتی۔۔۔جو شخص یا ادارہ مخلوق خدا پر ناحق ظلم کرتا ہے اور ظلم تو ناحق ہی ہوتا ہے۔ایسا شخص دراصل اللہ کے جبرو قہر اور عذاب کو دعوت دیتا ہے۔ اب یہ حکمرانوں پر ہے کہ وہ مظلوموں کا ساتھ دیتے ہیں یا ظالموں کی سرپرستی کر کے اور ان کا تحفظ کر کے اللہ کے عذاب اور سزا کو دعوت دیتے ہیں۔
حکمرانوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ طاقتور اور بااختیار لوگوں کے مقابلے میں مظلوم اور بے سہارا خلقِ خدا کے مدد گار ثابت ہوں اور انصاف کی زد میں کوئی بھی آئے، اپنا یا غیر، اس کی پروا نہ کریں اور جہاں تک خون ناحق کا تعلق ہے یہ تو بہت ہی حساس مسئلہ ہے۔ خونِ ناحق کے معاملے میں حکمرانوں کو ہمیشہ مظلوم کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے۔ خونِ ناحق کرنے والوں کا اپنا انجام تو بُرا ہی ہے جلد یا دیر سے۔
مجھے یہاں پھر حضرت علیؓ ہی کا ایک قول یاد آ رہا ہے کہ قیامت کے دن جب خدا کا دربارِ عدالت لگے گا تو سب سے پہلے خونِ ناحق ہی کے مقدمے پیش ہوں گے۔ اگر اربابِ اقتدار بھی خونِ ناحق کے مجرموں کے طرف دار بن جائیں گے تو اس دُنیا میں شاید مجرموں کو تحفظ مل جائے،مگر خدا کے دربار میں اور خدا کے فیصلے سے مجرموں کو پناہ نہیں مل سکتی۔ دنیاوی عدالتوں اور دُنیاوی تفتیشی اداروں کو تو دھوکہ بھی دیا جا سکتا ہے۔ اقتدار کا اثرو رسوخ بھی استعمال ہو سکتا ہے۔
راؤ انوار کی طرح شاید سانحہ ساہیوال کے مجرموں کے سامنے بھی ہمارا نظامِ انصاف بے بس ہو جائے، مگر ہمارا مشورہ یہی ہو گا کہ اللہ کے سخت انتقام سے بچنے کے لئے حکمران کوئی ایسی تدبیر اور راستہ ضرور اختیار کریں کہ سانحہ ساہیوال کے متاثرہ خاندانوں کو انصاف مل جائے۔ مَیں یہ ضرور عرض کروں گا کہ عمران خان بھی سانحہ ساہیوال میں بچ جانے والی دو بچیوں اور ان کے بھائی کی تصاویر ٹی وی اور اخبارات پر ضرور دیکھ رہے ہیں۔ ان تصاویر کو دیکھ کر انہیں اپنے بیٹے بھی یاد آ جاتے ہوں گے۔
ایک لمحے کے لئے فرض کریں کہ اگر سانحہ ساہیوال خود وزیراعظم کے خاندان پر گزرتا تو کیا ایک قیامت صغریٰ ان پر ٹوٹ نہ پڑتی۔ اگر سانحہ ساہیوال کے بارے میں اسی طرح سوچا اور سمجھا جائے کہ یہ ظلم و درندگی کا واقعہ خود حکمرانوں کی ذات اور خاندان سے پیش آیا ہے، تب ہی ظالم قاتلوں کو ان کے سنگین جرم کے مطابق سزا دی جا سکتی تھی، ورنہ نہیں۔
حکمرانوں کے لئے خدا کے انتقام سے بچنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ وہ مظلوموں کے دِلوں سے نکلی ہوئی بددعاؤں سے بچیں اور خدا کی پکڑ سے پہلے ہی سانحہ ساہیوال کے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے اپنا کردار پوری دیانت داری اور قومی ذمہ داری کے احساس کے ساتھ ادا کریں۔