پولیس،کارکردگی اور احتساب؟

  پولیس،کارکردگی اور احتساب؟
  پولیس،کارکردگی اور احتساب؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

  ایوب  دورِ حکومت  کا قصہ ہے، مغربی پاکستان کے گورنر نواب کالا باغ امیر محمد خان تھے،ایک شہری کا بچہ اغوا ہو گیا، مدد کے لئے اُس نے گورنر ہاؤس کا در کھٹکھٹایا، گورنر نے فوری طور پر متعلقہ پولیس افسر کے بیوی بچوں کو سرکاری تحویل میں لینے کا اعلان کیا اور بچے کی بازیابی تک متعلقہ پولیس افسر کے بچوں سے ملاقات پر پابندی عائد کر دی، تاریخ گواہ ہے کہ چند گھنٹے بعد بچہ بازیاب اور اغوا کار گرفتار ہو گئے،یہ نتیجہ تھا نگرانی،احتساب اور مرکزیت کا، اگر چہ کچھ محکمے آزادی کے بعد مادر پدر آزاد ہو گئے تھے جن میں محکمہ پولیس سر فہرست تھا،تا ہم تب تک پولیس کا محکمہ کمشنری نظام کی چھتری تلے قابل احتساب تھا،ہر تھانہ کی نگرانی پر ایک مجسٹریٹ متعین،اسسٹنٹ کمشنر صاحبان بھی تھانوں کی کارکردگی پر نگاہ رکھتے،ترقی اور تنخواہ میں اضافہ کے لئے سالانہ خفیہ رپورٹ کا بھی ایک مربوط  نظام تھا۔ اس سسٹم میں پولیس کو یوں شہریوں کو مشق ستم بنانے کی آزادی میسر نہ تھی جو آج ہے،بھٹو دور میں محکمہ پولیس کو حکمران پارٹی کا ذاتی ملازم بنا دیا گیا، سیاسی حکومت نے محکمہ پولیس کو بھی سیاسی بنا دیا،نتیجے میں تھانے عقوبت خانے  اور پولیس اہلکار جلاد بن گئے،تھانہ انچارج اگر چار غیر قانونی کام سیاسی آقاؤں کے حکم پر کرتا تو اپنی صوابدید پر از خود اختیار کے تحت چار غیر قانونی کام خود بھی کر جاتا تھا۔

نواز شریف کی وزارتِ اعلیٰ کے دور میں کئی غنڈہ گرد اور اشتہاری پولیس میں بھرتی کرلئے گئے، ان عناصر نے پولیس ڈیپارٹمنٹ کو ”ماسی کا ویہڑہ“ سمجھ لیا،شہباز شریف کے دورِ وزارتِ اعلیٰ میں جعلی پولیس مقابلوں کی روایت نے جنم لیا،سیاسی حکومت نے ”بندے مار“پولیس افسروں کو تحفظ بھی دیا،یوں محکمہ پولیس جرائم پیشہ عناصر کی آماجگاہ بن گیا،ماضی قریب میں کسی بھی تھانے کی حدود میں کوئی ناکہ لگتا تو روزنامچہ میں اندراج ہوتا،کس جگہ ناکہ لگانا، کتنی دیر کے لئے لگنا ہے،کس افسر کی نگرانی میں ناکہ لگے گا کون کون سے کانسٹیبل ناکہ پر ڈیوٹی دیں گے،پھر ناکہ پر ہونے والی گرفتاریوں اور برآمد شدہ سامان کا بھی اندراج ہوتا، ملزم مجسٹریٹ کے سامنے پیش کئے جاتے برآمد سامان اندراج کے بعد تحویل میں لیا جاتا،مجسٹریٹ کسی بھی  وقت تھانہ کی حوالات پر چھاپہ مار کر حوالاتیوں بارے چھان بین کرتے،اسسٹنٹ کمشنر بھی گاہے بگاہے تھانے چیک کرتے یوں بیگناہ حوالاتیوں کو فوری انصاف مل جاتا،ان سب پر اجتماعی طور پر ڈپٹی کمشنر نگرانی کرتے،یوں پولیس گردی کے باوجود احتساب کا عمل بھی مسلسل جاری تھا۔

ایک وقت میں ابلاغ کا موثر اور مقبول ذریعہ ریڈیو تھا، ان دِنوں ریڈیو پر کمرشل سروس کے عنوان سے ایک پروگرام نشر ہوتا تھا جو بہت مقبول تھا،اس پروگرام میں محکمہ پولیس کی طرف سے ایک اشتہار نشر ہوتا تھا ”پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی“ جس کی اس وقت کے مقبول ترین کامیڈین معین اختر مرحوم نے پیروڈی بنائی ”پولیس کا ہے ڈنڈا کمر آپ کی“اور اس پیروڈی کو پولیس اشتہار سے زیادہ عوامی پذیرائی ملی،اور پھر وقت نے ثابت کیا کہ تھانے اصلاح کا مرکز نہیں،پولیس اہلکار محافظ نہیں،بتدریج یہ سلسلہ طول پکڑتا گیا اورایک وقت آیا پولیس گروپ کے افسر ڈی ایم جی افسروں کے سامنے چٹان بن گئے، مجسٹریسی نظام کی بساط لپیٹی گئی،کمشنری سسٹم کی نگرانی کا سلسلہ ختم ہوا اور آج پولیس ڈیپارٹمنٹ معاشرے میں امن و امان کے قیام کا ذمہ دار نہیں شہریوں کے جان مال آبرو کا نگہبان نہیں بلکہ خود لٹیرا ہے،ناکے جرائم پیشہ عناصر کے خلاف نہیں لگتے بلکہ شہریوں کی جیب خالی کرنے کے لئے لگائے جاتے ہیں جن کا کہیں کوئی اندراج نہیں ہوتا،جس اہلکار کا جہاں چاہے ناکہ لگا کر کھڑا ہو جاتا ہے،بر آمدگی کا بھی کوئی ریکارڈ نہیں،روزنامچہ کی تو اب کوئی حیثیت نہیں، تھانوں کی چیکنگ کا بھی کوئی نظام نہیں،سالانہ خفیہ رپورٹ تو اب رشوت یا سفارش کی محتاج ہے۔

صورتحال اتنی المناک ہو چکی ہے کہ خود وزیراعلیٰ مریم نواز کو پولیس کارکردگی کی خبر لینا پڑی،پنجاب میں بڑھتے ہوئے جرائم کی شرح پرمریم نواز کی تشویش بلا جواز نہیں، سڑکوں پر ہر طرف پولیس دکھائی دیتی ہے ہر جگہ ناکے لگے ہیں، مگر کوئی شہری  امان میں نہیں،تھانوں میں کوئی کسی کا پُرسانِ حال نہیں،رشوت دیکر رپورٹ لکھانے کے باوجود مجرم شوت دے کر آزاد ہو جاتے ہیں،ایف آئی آر میں سخت یا نرم دفعات لگانے کی بھی رشوت مقرر ہے،ایف آئی آر کے بعد تفتیش میں گواہ اور ثبوت مٹانے کے لئے بھی رشوت کا ریٹ مقرر ہے،سٹریٹ کرائم کے ساتھ سنگین جرائم میں بھی اضافہ ہو رہا ہے،اس کے باوجود کہ پنجاب حکومت نے عوام کی حفاظت کے لئے اربوں کے فنڈز اور جدید ترین گاڑیاں اور اسلحہ پولیس ڈیپارٹمنٹ کو دیا،ڈپٹی اور ایڈیشنل آئی جیز کے چند عہدے،بیسیوں بنا دیے گئے، مگر اس کے باوجود کچے کے ڈاکو آج بھی  پناہ گاہوں میں ہیں اور اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں،یہ بھی اطلاعات ہیں کہ بہت سے نچلے درجے کے پولیس افسر اور اہلکار جرائم پیشہ عناصر کے ٹاؤٹ ہیں،اس کے باوجود آئی جی پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور اور سی سی پی او لاہوربلال صدیق کمیانہ پولیس کار کردگی پر مطمئن اور جرائم کی شرح میں کمی پر بضد ہیں،شائد انہوں نے کبھی اخبار نہیں پڑھا؟ تھانوں کی انسپکشن نہیں کی،لاہور پولیس  تو نازاں ہے کہ  جرائم میں 44فیصد کمی  ہوئی  ہے  اور کہتے ہیں اس سے زیادہ اور کیا کیا جائے، وہ اگر تھانوں میں ایف آئی آر کے اندراج کا سسٹم ٹھیک کر دیں تو  معلوم ہو جرائم کی شرح کتنی کم ہوئی ہے۔

پولیس کارکردگی کے حوالے سے ایک اجلاس میں منشیات فروشی اور سٹریٹ کرائم کے مقدمات میں سزاؤں میں کمی پر بھی مریم نواز نے تشویش ظاہر کی،سوال مگر یہ ہے کہ قانون سازی کا اختیار بھی آپ کے پاس ہے تو کیوں سزاؤں کو سخت نہیں کیا جاتا؟ اجلاس میں وہاڑی، گوجرانوالہ،ساہیوال،قصورکے سی پی اوز،ڈی پی اوز کو سراہا جانا خوش آئند ہے اس سے کارکردگی میں بہتری آتی ہے، مگر فیصل آباد، گجرات، راولپنڈی،ننکانہ صاحب،رحیم یار خان پولیس کی بد ترین کارکر دگی پر صرف تبادلہ کی دھمکی اور کئی کے تبادلے  مناسب نہیں،تبادلہ تو بری  کار کردگی کے حامل افسروں کی خواہش ہوتی ہے،یہ احتساب نہیں تبادلہ کے بعد بھی یہ نا اہل افسر کہیں افسر ہی لگے گا،مطلب ایک ضلع کو نا اہل سے نجات دِلا کر دوسرے کے سر منڈھنا ہے، کار کردگی کے لئے ضروری ہے کہ پہلے پولیس کے بے لگام گھوڑے کو لگام ڈالی جائے،احتساب کا ایک موثر نظام وضع کر کے نافذ کیا جائے،نگرانی کے لئے ایک اتھارٹی کا قیام بھی اشد ضروری ہے،بہترین حل تو مجسٹریسی  نظام کی بحالی ہے جیسے پہلے ڈپٹی کمشنر محکمہ پولیس کی نگران اتھارٹی تھا اسی نظام کی بحالی سے بہترین نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں، ورنہ نگران پولیس افسر بھی محکمہ پولیس کا ہی حصہ ہیں اور وہ اپنے محکمہ کی رسوائی نہیں چاہیں گے،نہ وہ کسی غیر قانونی فعل پر کسی پولیس افسر کے لئے سزا کی سفارش کریں گے،اس لئے نئے تجربے سے بہتر ہے آزمودہ طریق کار اپنایا جائے۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -