کیا پیکا قابلِ عمل ہے؟

    کیا پیکا قابلِ عمل ہے؟
    کیا پیکا قابلِ عمل ہے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اخباری کالموں کا مقصد یہ بیان کیا جاتا ہے کہ یہ ان لوگوں کو انفارم اور ایجوکیٹ کرتے ہیں جو ان کو پڑھ سکتے ہیں۔ آج ملک کی سیاسی اور معاشی صورتِ حال یہ ہے کہ اگر کوئی واجبی سا لکھا پڑھا قاری بھی اپنے آپ کو انفارم کرنا چاہے تو اسے اخبار کی ضرورت نہیں …… یہ کام آج کل موبائل فون سے لیا جاتا ہے۔ اخبار اگرچہ ایک سستا ذریعہء معلومات ہے لیکن اس پر روزانہ جو خرچہ آتا ہے، وہ موبائل پر نہیں آتا۔موبائل پر ایک ہی بار پیسے خرچ کر دینے سے اخباروں کے روزانہ خرچے سے جان چھوٹ جاتی ہے۔

اخبارات اور رسالے وغیرہ پرنٹ میڈیا کی ذیل میں آتے ہیں جبکہ موبائل (میرا مطلب سمارٹ موبائل سے ہے) کی دو اقسام ہیں۔ ایک وہ کہ جس کو ہم صرف بطور ٹیلی فون استعمال کرتے ہیں اور دوسری وہ کہ ٹیلی فون کے علاوہ اسے ٹی وی، ڈکشنری، ڈاکٹر، کسان اور اس طرح کے بہت سے بکھیڑوں کے لئے استعمال کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان سے جان چھوٹ جاتی ہے۔ یہ قسم جو سمارٹ فون کہلاتی ہے اس میں عہدِ حاضر کے تمام اخذِ معلومات کے وسیلے اور ذریعے موجود ہیں …… سوشل میڈیا بھی ان میں سے ایک ہے۔تمام اخبارات وغیرہ آپ کے سمارٹ موبائل میں موجود ہیں، جسے چاہیں اپ لوڈ کریں اور اس میں درج خبروں سے استفادہ کریں۔

گویا آج کا سمارٹ موبائل ریڈیو بھی ہے اور ٹیلی ویژن بھی ہے…… میرے گھر کے ہر کمرے میں دیواروں پر ایک ٹی وی لگا ہوا ہے لیکن اس کمرے کے کسی مکین نے ایک عرصے سے اس کو آن نہیں کیا۔ وجہ یہ ہے کہ اس کا متبادل جس کا سائز 3x5یا 3½x6انچ ہے وہ بڑی آسانی سے آپ کی جیب میں آجاتی ہے۔ اسے جہاں چاہو لے کر پھرتے رہو۔ انٹرنیٹ اور وائی فائی وغیرہ کا اہتمام بھی اس میں موجود ہے۔ صرف تھوڑا سا خرچہ آپ کی جیب سے نکل جاتا ہے …… الغرض یہ ایک ایسا آلہء حصولِ معلومات ہے جس میں دنیا بھر کی خبریں اور خبروں سے متعلق تبصرے، تجزیئے اور جائزے سب کے سب آپ کی مٹھی میں ہیں ……مٹھی کے نام سے انڈین فلم کا ایک گانا یاد آیا جو بلیک اینڈ وائٹ فلموں کے دور کا ہے۔ اس کا مکھڑا یہ تھا:

ننھے منّے بچے تری مٹھی میں کیا ہے؟

مٹھی میں ہے تقدیر ہماری…… ہم نے قسمت کو بس میں کیاہے۔

جب یہ گیت لکھا یا گایا گیا تھا اس وقت موبائل فون کا تصور بھی کسی کو نہ تھا لیکن آج وہ سب کچھ فزیکل صورت میں واقعی آپ کی مٹھی میں ہے جو گویا ہماری تقدیر بھی ہے۔ہاں اس کے استعمال سے تقدیر آپ کے بس میں ہوتی ہے یانہیں ہوتی اس کے جواب کے لئے آپ جتنا بھی غور کریں گے، سوالات کے نئے دریچے کھلتے جائیں گے۔

حکومت نے حال ہی میں ”پیکا“ کا ایک قانون تشکیل دیا ہے جس میں کوشش کی گئی ہے کہ ان معلومات پر پابندی لگا دی جائے جو معاشرے کے ایک طبقے کو ”گمراہ“ اور دوسرے کو ”راہِ راست“ پر لاتی ہیں۔لوگ جلسے جلوس نکال کر دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں لیکن ”پیکا“ کی 100% کامیابی محلِ نظر ہے جس ناظر یا قاری نے گمراہ ہونا ہے اسے راہِ راست سے بھٹکنے سے کوئی نہیں روک سکتا…… ایک دَر بند ہوتا ہے تو سو دَر کھل جاتے ہیں …… اور بیچ میں صرف وقت حائل ہوتا ہے۔

پرنٹ میڈیا ایک عرصے سے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے اور مین سٹریم میڈیا بھی کہ جس کا نام ٹی وی یا موبائل وغیرہ ہے وہ بھی اپنی سی کوشش کررہا ہے لیکن سیلِ معلومات کے سامنے فی زمانہ بند نہیں باندھا جا سکتا۔ میرے اندازے کے مطابق آج کا یہ سمارٹ موبائل ایک ایسی جوہری ڈیوائس (آلہ) ہے جس کی تابکاریاں قابو میں نہیں کی جا سکتیں ……

بات میں سے بات نکل رہی ہے…… آج سے 14برس پہلے 2011ء  میں جاپان کے ایک ساحلی شہر ”فوکا شیما“ میں ایک دھماکہ ہوا تھا۔ یہ شہر سمندر کے کنارے واقع تھا اور اس میں جوہری بجلی پیدا کرنے والے ری ایکٹر نصب تھے۔ پھر ایک دن سمندر میں طوفان آ گیا اور فوکوشیما کا یہ جوہری بجلی گھر سمندری لہروں کی زد میں آ گیا۔ یاد رہے کہ  یہ سمندری طوفان، سطح آب پر نہیں بلکہ زیرِ آب زلزلے کی وجہ سے آیا تھا……کس کو پتہ ہے کہ زلزلے کب آتے ہیں ……

جاپان ویسے بھی زلزلوں کا شہر ہے۔ اس میں زلزلے آتے رہتے ہیں لیکن زیرِ بحر زلزلے شاذ ہی آتے ہیں۔ فوکو شیما کا بجلی گھر جب زلزلے کی وجہ سے دیوہیکل سمندری موجوں کا شکار ہو گیا تو اس کے تین جوہری ری ایکٹربھی اس کی زد میں آکر پگھل گئے اور اس پگھلاؤ کی وجہ سے ہر طرف تابکاری پھیل گئی جس کے اثرات آج بھی موجود ہیں اور کہا جاتا ہے کہ نجانے آئندہ کتنی صدیوں تک موجود رہیں۔ ان زلزلوں کے بارے میں آج سے ایک صدی پہلے اقبال نے کہا تھا:

زلزلے ہیں، بجلیاں ہیں، قحط ہیں، آلام ہیں 

کیسی کیسی دخترانِ مادرِ ایام ہیں 

کلبہء افلاس میں، دولت کے کاشانے میں موت

دشت و در میں، شہر میں، گلشن میں، ویرانے میں موت

موت ہے ہنگامہ آراء قلزمِ خاموش میں 

ڈوب جاتے ہیں سفینے، موج کی آغوش میں 

جاپان کے قلزمِ خاموش میں جو زلزلہ آیا تھا اس کی وجہ سے ایک بہت بڑا علاقہ آج 14برس  گزرنے کے بعد بھی موت کی آغوش میں بیٹھا ہے۔

ہم سمارٹ موبائل کی بات کررہے تھے۔ اس آلے میں سب کچھ ہے لیکن ایک ایسی چیز نہیں ہے جس کی تلاش، روز ازل سے انسان کو ہے  اور جس کا سراغ آج تک نہیں مل سکا…… اس کا نام مستقبل ہے۔ ہمارا موبائل یا کوئی بھی دوسری ڈیوائس مستقبل کا پتہ نہیں دے سکتی۔ ایلن مسک کے راکٹوں نے خلاء کی وسعتوں میں ہزاروں نوری سالوں کا سفر کیا ہے لیکن ستاروں سے آگے جو جہان ہیں ان کی خبر نہیں مل سکی۔ بس ایک سیاہ سوراخ ہے جس کے آگے انسان کی بنائی ہوئی ہر ڈیوائس اور ہر آلہ بے بس ہے۔

ہم نے پارلیمنٹ اور سینیٹ کے ایوانوں سے ہوتے ہوئے ”پیکا“ کا قانون تو بنا لیا ہے لیکن نجانے اس کی عمر کتنی ہے۔ آنے والے کل میں کون جانے اس کا کیا حشر ہو جائے!…… ہم پاکستانی اس کا تصور ہی کر سکتے ہیں۔ دنیا ہم سے بہت آگے نکل چکی ہے۔ اس نے دیکھ لیا ہے کہ اس طرح کے قانون انسانی اظہارِ رائے کے آگے بند نہیں باندھ سکتے۔ حکومت نے جس وجہ کو نظر میں رکھ کر یہ قانون بنایا ہے، وہ وجہ اس وقت تک باقی رہے گی جب تک انسان کی آنکھ اور اس کے کان سلامت ہیں۔ آشتیء چشم و گوش ہی کا نام تو سمارٹ موبائل ہے!…… کیا حکومت اس موبائل کو ختم کر سکتی ہے؟ پاکستان کی 25کروڑکی آبادی میں 18کروڑ مرد و زن کے ہاتھ میں یہ ڈیوائس آ چکی ہے۔ اتنے سارے ہاتھوں سے یہ موبائل چھینا یا ضبط نہیں کیا جا سکتا اور دنیا کی کوئی ”فائروال“ اس کے آگے بند نہیں باندھ سکتی۔

پاکستان کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ان معلومات اور اظہار رائے کو روکنے کے لئے جدید دنیا نے کیا کیا جتن نہیں کئے۔ لیکن کیا دنیا اسے روک سکی ہے؟…… میرا خیال ہے یہ تصور ہی عبث ہے۔ اس کو روکنے کے لئے ایک ایسی ”فائروال“ کی ضرورت ہے جو عالمی سطح پر آزمائش کے ”آتشیں طوفان“ سے گزر چکی ہو!……

جب تک یہ ”آتشیں طوفان“ باقی رہے گا، اخباری کالموں یا موبائل کی عالمی طوفانی امواج بھی برقرار رہیں گی۔ہاں البتہ تجربات ہوتے رہتے ہیں۔ ان کو کون روک سکتا ہے؟…… دنیا کی غالب آبادی نے یہ تجربات کرکے دیکھ لئے ہیں لیکن انسانوں کی آنکھیں اور ان کے کان بند نہیں کئے جا سکے…… ہم بھی آج یہ کرکے دیکھ لیتے ہیں!

مزید :

رائے -کالم -