ہن آرام اے!

پی ٹی آئی نواز میڈیا کو اعتراض ہے کہ مذاکرات کے عین بیچ میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے اسٹیبلمشنٹ کا مائنڈ دے دیا ہے۔ حیرت ہے کہ میڈیا کے یہ جغادری تب کوئی اعتراض نہیں اٹھارہے تھے جب امریکہ برطانیہ اور یورپی یونین اپنا مائنڈسیٹ دے رہے تھے جس کو بلاول بھٹو نے اس سے تعبیر کیا ہے کہ عمران تو بہانہ ہے،پاکستان کا ایٹمی پروگرام نشانہ ہے۔
عمران کے رومانس میں مبتلا میڈیا سمجھتا ہے کہ پی ٹی آئی کا مقابلہ اسٹیبلشمنٹ سے ہے، تحریک انصاف کا سوشل میڈیا انہیں اس خام خیالی سے باہر نہیں آنے دے رہا جوعمران خان کو ارتغرل غازی بنانے پر تلا ہواہے حالانکہ اسٹیبلشمنٹ اسے محفوظ راستہ دینا چاہتی ہے۔ میڈیا کے جغادریوں کو یہ اعتراض بھی ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ مذاکرات اور امریکہ سے ہونے والے پراپیگنڈے کے بیچ میں بولتی رہی تو معاملات کیسے آگے بڑھیں گے۔ انہیں یہ بات سمجھ نہیں آرہی ہے کہ معاملات آگے بڑھیں نہ بڑھیں اسٹیبلشمنٹ پیچھے نہیں ہٹے گی، بلکہ بالآخر تحریک انصاف کو پیچھے ہٹنا پڑے گاجو خود اپنے ہی سوشل میڈیا کے نرغے میں ہے۔ اس سے کون انکار کرسکتا ہے کہ پی ٹی آئی کا وہ لیڈر بھی ان کی ٹرولنگ سے بچا نہیں رہتا جو پیچھے ہٹنے کی بات کرتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خود عمران خان کا ٹوئٹر ہینڈل بھی ان کے پاس نہیں بلکہ ملک سے باہر بیٹھے وطن دشمنوں کے ہاتھ میں ہے جو پاکستان پر پابندیوں کی بات کر رہے ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کے بعد میڈیا کے جغادری یہ اعتراض بھی اٹھا رہے ہیں کہ انہیں تو بتایا جا رہا تھا کہ پی ٹی آئی سے مذاکرات کے لئے اسٹیبلشمنٹ کی اپروول لے لی گئی ہے۔ وہ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اپروول کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پی ٹی آئی کے گناہ بھلا دیئے گئے ہیں اور اس کی سازش کو فراموش کردیا گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہی میڈیا جو امریکہ سے آنے والے بیانات پر بغلیں بجا رہا تھا، ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان پر بغلیں جھانکنے لگا ہے۔ حالانکہ انہیں سمجھ جانا چاہئے کہ کہ ان کے بقول جو پاکستان کا سب سے مقبول لیڈر ہے اس کی بار بار کی کال پر پنجاب کے عوام نے کان نہیں دھرا۔
دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ جب جنرل فیض حمید کے جرائم کی بات ہوتی ہے تو پی ٹی آئی نواز حلقے اور میڈیا کے جغادری جنرل باجوہ پر انگلی اٹھادیتے ہیں کہ جنرل فیض جو کچھ کر رہے تھے اس سے جنرل باجوہ کو کیسے مبرا قرار دیا جاسکتا ہے۔ وہ یہ بات سننے کے روادار ہی نہیں ہیں کہ جنرل باجوہ نے تو جنرل فیض کے عزائم کی جگہ بالآخر ادارے کے مفاد کو ترجیح دی۔وگرنہ جو گل جنرل فیض کھلا نا چاہتے تھے اگر کھل جاتے اورپاکستان ان کی ہوس کی بھینٹ چڑھ جاتا تو بالآخر وہ جمہوریت کا بستر گول کرکے ایک اور دس سال کا مارشل لاء لگا کر سیاہ وہ سفید کے مالک بن بیٹھتے۔ اس لئے ضروری نہیں کہ جنرل فیض جو کھیل کھیل رہے تھے وہ جنرل باجوہ کی مرضی سے کھیل رہے ہوں۔
پی ٹی آئی نواز میڈیا اینکرز کو ریفریشر کورس کروانے کی ضرورت ہے۔ اس کی ایک مثال گزشتہ روز اس وقت سامنے آئی جب اے آرئی وائی کی ماریہ میمن نے ڈاکٹر فاروق ستار سے سوال کیا کہ پی ٹی آئی کے مطالبات کی کہیں سے اپروول بھی لینا پڑے گی تو ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ اپروول کی بجائے صلاح مشورے کا لفظ استعمال کیا جائے تو بہتر ہوگا جس پر ماروی میمن نے فوری طور پر کہا کہ آپ نے درست لفظ استعمال کیا میں اپنا لفظ واپس لیتی ہوں۔ ایسی بہت سی دیگر مثالیں آئے روز سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ ساتھ پرنٹ میڈیا پر بھی دیکھنے، سننے اور پڑھنے کو ملتی ہیں جو اس بات کا پتہ دیتی ہیں کہ تحریک انصاف کو اس کا الیکٹرانک اور سوشل میڈیا رنڈاپا نہیں کاٹنے دے رہے ہیں۔
چونکہ پی ٹی آئی کو پاکستان سے باہر بیٹھے ہوئے مشکوک پاکستانیوں نے سپورٹ کیا اور اب عمران خان کی رہائی کی مہم بھی وہی چلائے ہوئے ہیں اس لئے یہ بات بآسانی سمجھی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی سیاسی ناسمجھی کی وجہ سے عمران خان کے لئے مشکلات کم کرنے کی بجائے مشکلات کھڑی کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ان کا خیال تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی جیت کے اعلان کے ساتھ ہی عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کردیں گے اور ان کی مراد برآئے گی جس کے لئے انہوں نے پانی کی طرح ڈالر بہائے تھے۔ مگر جب 26نومبر کی کال کی ناکامی کے بعد پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ کی بجائے حکومت سے مذاکرات کے لئے آمادہ ہو گئی تو اس کو بھی انہوں نے اسے اسٹیبلشمنٹ کی کمزوری سمجھتے ہوئے رچرڈ گلینین کے منہ پر لاؤڈ سپیکر لگادیا اور ایک شخص کے بیان کو ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان سے تعبیر کرکے پراپیگنڈہ شروع کردیا گیا۔ لازمی طور پر حکومت کے بعد اسٹیبلشمنٹ کا اس حرکت کا جواب آنا ہی تھا اور اب جب کہ جواب آگیا ہے تو بیرون ملک مقیم پاکستانی سیاسی بلونگڑوں کو احساس ہوگیا ہے کہ ان سے کیا غلطی ہوئی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ مزید کوئی غلطی نہیں کریں گے بلکہ دیکھنا یہ ہے کہ اب وہ اگلی کون سی غلطی کرتے ہیں جس سے عمران خان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوتا ہے اور تحریک انصاف کی مقبولیت کا جنازہ بخیرو عافیت قبرستان نہیں پہنچ جاتا۔ یہ ریموٹ کنٹرول پارٹی اپنے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچاسکتی ہے۔ امید ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس سے رچرڈ گلینین کو آرام آگیا ہوگااوروہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے پیسے کھاکر ریاست پاکستان کا مذاق اڑانا بند کردیں گے۔